Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 83
اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُوْنَ وَ لَهٗۤ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ
اَفَغَيْرَ : کیا ؟ سوا دِيْنِ : دین اللّٰهِ : اللہ يَبْغُوْنَ : وہ ڈھونڈتے ہیں وَلَهٗٓ : اور اس کے لیے اَسْلَمَ : فرمانبردار ہے مَنْ : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین طَوْعًا : خوشی سے وَّكَرْھًا : اور ناخوشی سے وَّاِلَيْهِ : اس کی طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں
کیا یہ (کافر) خدا کے دین کے سوا کسی اور دین کے طالب ہیں حالانکہ سب اہلِ آسمان و زمین خوشی یا زبردستی سے خدا کے فرماں بردار ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللّٰهِ يَبْغُوْنَ : کیا وہ اللہ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کے طلبگار ہیں اس جملہ کا عطف فاولءِک ھم الفاسقون پر ہے اور استفہام انکاری ہے یا فعل محذوف پر عطف ہے اصلی عبارت اس طرح تھی ایفسقون فغیر دین اللہ یبغون یا اصل میں کلام اس طرح تھا ایتوتون فغیر دین اللہ یبغون . مفعول کو فعل سے پہلے تخصیص کی وجہ سے ذکر کیا گویا مخصص کا انکار مقصود ہے مطلب یہ ہے کہ کیا دین اللہ کے علاوہ کسی اور ہی دین کو وہ چاہتے ہیں۔ اس سے بطور اشارہ یہ بات معلوم ہوئی کہ دین اللہ کی طلب کے ساتھ دوسرے دین کی طلب نہیں ہوسکتی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ یہود و نصاریٰ میں سے ہر فریق نے دین ابراہیمی پر ہونے کا دعویٰ کیا اور رسول اللہ کی خدمت میں یہ جھگڑا لے کر حاضر ہوئے حضور ﷺ نے فرمایا : دونوں فریق دین ابراہیم سے علیحدہ ہیں اس فیصلہ سے دونوں ناراض ہوگئے اور کہنے لگے ہم آپ کے فیصلہ کو نہیں مانتے اور نہ آپ کے مذہب کو پسند کرتے ہیں اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ وَلَهٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ : حالانکہ اللہ ہی کے فرماں بردار اور مطیع ہیں جو آسمانوں میں ہیں یعنی ملائکہ یہ جملہ اللہ سے حال ہے لفظ اللہ اگرچہ مفعول نہیں ہے بلکہ دین کا مضاف الیہ ہے مگر مفعول کے دائرہ میں واقع ہے۔ وَالْاَرْضِ : اور جو زمین میں ہیں یعنی جن وانس۔ طَوْعًا : یعنی اپنے اختیار سے مطلب یہ ہے کہ ملائکہ اور ایماندار جن و انس اوامر تکلیفیہ کی تعمیل بخوشی خاطر اپنے اختیار سے کرتے ہیں اور اوامر تخلیقیہ میں اپنے محبوب کی مرضی پر راضی اور اللہ کی تکوینی فیصلہ سے خوش ہیں۔ وَّكَرْھًا : اور مجبوراً بھی مطیع ہیں خواہ اسلام کی قوت کی وجہ سے یا ایسے اسباب کا معاینہ کرنے کی وجہ سے جو اسلام پر مجبور کرتے ہیں جیسے (بنی اسرائیل کے سروں پر) پہاڑ کو اکھاڑ کر معلق کیا گیا یا آل فرعون کو غرق کیا گیا تھا یا موت کا پھندا گلے میں پڑنے لگتا ہے تو منکر بھی اسلام پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ صورت تو اوامر تکلیفیہ میں ہوتی ہے اور اوامر تکوینیہ میں تو کوئی اختیار ہوتا ہی نہیں ہے نیچرل تسخیر سب کو محیط ہے اور سب مسخر ہیں (بہرحال مؤمن و کافر سب چار و ناچار اللہ کے فرماں بردار ہیں) وَّاِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَ : اور اسی کی طرف سب کو واپس جانا ہوگا۔
Top