Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 83
اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُوْنَ وَ لَهٗۤ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ
اَفَغَيْرَ : کیا ؟ سوا دِيْنِ : دین اللّٰهِ : اللہ يَبْغُوْنَ : وہ ڈھونڈتے ہیں وَلَهٗٓ : اور اس کے لیے اَسْلَمَ : فرمانبردار ہے مَنْ : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین طَوْعًا : خوشی سے وَّكَرْھًا : اور ناخوشی سے وَّاِلَيْهِ : اس کی طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں
کیا یہ اللہ کے دین کے سوا کسی اور دین کے طالب ہیں حالانکہ اسی کے فرمانبردار ہیں طوعاً و کرھاً جو آسمان و زمین میں ہیں اور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے
اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَـہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ ۔ (کیا یہ اللہ کے دین کے سوا کسی اور دین کے طالب ہیں حالانکہ اسی کے فرمانبردار ہیں طوعاً و کرھاً جو آسمان و زمین میں ہیں اور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے) (83) نہایت تعجب سے سوال کیا جا رہا ہے کہ اہل کتاب دین کے مزاج کو سمجھتے ہیں، وحی الٰہی کے سلسلے کو پہچانتے ہیں، انھیں خوب معلوم ہے کہ تمام کائنات کا مذہب صرف اسلام ہے اور یہی وہ رویہ ہے جس سے کائنات کا نظام باحسن طریق چل رہا ہے۔ اسلام کا معنی اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردینا اور اس کے احکام کی اطاعت میں دے دینا ہے۔ جن و انس کے علاوہ اللہ کی تمام مخلوق تکوینی طور پر اس کی مسلم ہے۔ سورج اسی کے حکم سے کرنیں بکھیرتا ہے، چاند اسی کی اطاعت میں ٹھنڈک برساتا ہے، ستارے اسی کی رضا کے تحت روشنی بکھیرتے ہیں، پھول اسی کے حکم سے کھلتا ہے، کلی اسی کے اشارے سے چٹکتی ہے، موسم اسی کے حکم سے تبدیل ہوتے ہیں، گھٹائیں اسی کے حکم کے تحت جھوم کر اٹھتی اور زمین پر جل تھل ایک کردیتی ہیں۔ زمین و آسمان اور اس کے درمیان کی کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کے حکم سے سرتابی کرسکے۔ لاَالشَّمْسُ یَنْـبَغِیْ لَہَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلاَ الَّـیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ ط وَکُلٌّ فِیْ فَلَـکٍ یَّسْبَحُوْنَ ۔ (سورج کی مجال نہیں کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے تمام اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں) وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (اور اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں) یہی اطاعت اور سرفگندگی تکوینی نظام کی جان ہے۔ اسی کے نتیجے میں کوئی سیارہ کسی سیارے سے ٹکراتا نہیں۔ کوئی کرہ دوسرے کرے کی جگہ نہیں لیتا۔ کائنات کی ہر چیز اپنے خواص کے مطابق اظہارِ عمل پر مجبور ہے۔ پانی بہنے سے انکار نہیں کرسکتا، زمین کی قوت روئیدگی غلے کے اگانے سے عذر نہیں کرسکتی، سورج کی گرمی غلے کو پکانے سے کبھی پہلو تہی نہیں کرسکتی، زمین بچھونے کی طرح بچھی ہوئی ہے وہ کبھی اپنی حالت کو بدل نہیں سکتی، یہ سب اللہ کی اطاعت میں اپنا اپنا فرض انجام دے رہے ہیں اور اسی میں کائنات کی زندگی اور امن اور اطمینان کا راز مضمر ہے۔ انسان اگر یہ چاہتے ہیں کہ تکوینی نظام کی پابند مخلوق کی طرح پر امن زندگی گزاریں اور انسانوں کے درمیان تصادم اور تضاد کی کیفیت ختم ہوجائے تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ بھی باقی مخلوقات کی طرح اللہ کے تشریعی نظام کی پابندی اختیار کرلیں۔ ان کو زندگی میں اطمینان اور امن کی دولت اسلام یعنی اطاعت میں ملی ہے۔ ان کو بھی یہیں سے یہ دولت نصیب ہوسکتی ہے۔ یہ دوہرے نظام کے مکلف بنائے گئے ہیں۔ اپنے جسم و جان کے اعمال میں تکوینی نظام کے پابند ہیں، اس میں تو یہ کسی حکم سے سرتابی نہیں کرسکتے۔ لیکن ایک خاص دائرے میں انھیں اختیار کی دولت دی گئی ہے اور اس دائرے میں بھی اپنے اختیار کو اللہ کی اطاعت میں دے دینے کے یہ پابندٹھہرائے گئے ہیں۔ اگر یہ پابندی اختیار کرلیں تو ان کی زندگی کا وہ دائرہ جسے انھوں نے اپنے اختیارات کے غلط استعمال سے جہنم بنا رکھا ہے جنت میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ اہلِ کتاب اس پوری صورت حال سے واقف ہیں۔ پھر نہ جانے وہ کیوں دین کے اس بنیادی مطالبے کو سمجھنے سے انکار کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اللہ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کے طالب ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ کے دین کے سوا اللہ کی مملکت میں کسی اور دین کی کوئی گنجائش نہیں۔ چلیے اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں اپنے اختیارات کے تحت زندگی گزارنے کا ہمیں حق حاصل ہے اور یہاں ہمیں زبردستی کوئی نہیں روکے گا تو پھر انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ صحیح ہے کہ پروردگار نے عموماً دنیا کی زندگی میں انسانوں کو آزادی دے رکھی ہے اور اس کی جزا و سزا کا دن آخرت کا دن ہے۔ لیکن یہ تو انھیں معلوم ہے کہ آخرت بھی آنے والی ہے۔ ایک نہ ایک دن زندگی کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ پھر انسان اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے اللہ کی عدالت میں کھڑے کیے جائیں گے کیونکہ بالآخر اللہ کے حضور حاضری انسان کا مقدر ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو یہاں دنیا میں بیشک وہ عیش کی زندگی گزار لیں، لیکن آخرت میں اللہ کے سامنے کس طرح جواب دیں گے۔
Top