Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 83
اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُوْنَ وَ لَهٗۤ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ
اَفَغَيْرَ : کیا ؟ سوا دِيْنِ : دین اللّٰهِ : اللہ يَبْغُوْنَ : وہ ڈھونڈتے ہیں وَلَهٗٓ : اور اس کے لیے اَسْلَمَ : فرمانبردار ہے مَنْ : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین طَوْعًا : خوشی سے وَّكَرْھًا : اور ناخوشی سے وَّاِلَيْهِ : اس کی طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں
کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کسی اور دین کو تلاش کرتے ہیں ، حالانکہ اسی اللہ کے لیے فرمانبرداری کرتے ہیں وہ جو آسمانوں میں ہیں۔ اور جو زمین میں ہیں خوشی اور ناخوشی سے۔ اور اسی کی طرف سب لوٹائے جائیں گے۔
ربط آیات : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کے عہد و پیمان کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ جو اس نے عام لوگوں اور انبیاء (علیہم السلام) سے لیا۔ اور پھر اس عہد کو توڑنے والوں کی سزا کا بیان بھی آ چکا ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ نے ڈانٹ پلائی ہے۔ اس کے بعد دین اسلام کی صداقت اور حقانیت کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس دین اطاعت فرمانبرداری کو قبول نہیں کرتے جس کا ان سے عہد لیا گیا تھا ، تو پھر کیا اس کے علاوہ کسی اور دین کے متلاشی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عہد و پیمان تو دین توحید کے متعلق لیا تھا۔ اور تمام انبیاء (علیہم السلام) اسی دین کی تعلیم دیتے رہے ہیں لہذا وہ کبھی اس بات کی تعلیم نہیں دیتے کہ اللہ کے علاوہ مخلوق میں سے کسی کو رب بنا کر اس کی عبادت کی جائے۔ یا کسی کو حلال و حرام کا مختار سمجھا جائے۔ وہ تو ہمیشہ یہی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ کو نو ربانیین۔ یعنی اللہ والے بن جاؤ۔ رب والے ہوجاؤ۔ صرف اسی کی عبادت کرو اور اسی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھو۔ سچا دین : اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب یہ لوگ سچے دین کو قبول نہیں کرتے۔ افغیر دین اللہ یبغون۔ کیا وہ اللہ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کے متلاشی ہیں۔ حالانکہ اللہ کا سچا دین تو صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے اسلام۔ پہلی آیتوں میں گزر چکا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا۔ اسلم۔ یعنی اسلام لے آؤ، اللہ کے سچے دین کو قبول کرلو ، اس کی اطاعت کے آگے سر تسلیم خم کردو ، تو انہوں نے جواب میں کہا۔ اسلمت لرب العلمین۔ میں نے تمام جہانوں کے رب کا نازل کردہ دین قبول کرلیا۔ اس کا فرمانبردار ہوگیا۔ میں نے اسلام قبول کرلیا۔ کیوں کہ۔ ان الدین عند اللہ الاسلام۔ اللہ کے نزدیک سچا دین صرف اسلام ہی ہے۔ اور تمام انبیاء (علیہم السلام) نے اسی دین کی تعلیم دی ہے۔ مگر یہ لوگ اس دین کو قبول کرنے کی بجائے کسی دوسرے دین کو تلاش کرتے ہیں۔ دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے جو جھوٹے دین بنا رکھے ہیں۔ کیا ان کے بارے میں انہیں اللہ نے اجازت دی ہے کہ جھوٹے اور کمزور شرک والے ادیان کو تسلیم کریں۔ اللہ کے علاوہ کونسی ذات ہے۔ جس کی اطاعت تمام مخلوق پر لازم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تو خود فرمایا۔ ولہ اسلم من فی السموات والرض۔ آسمان و زمین کی ہر مخلوق اسی خدائے وحدہ لاشریک کی فرمانبرداری کرتی ہے۔ ہاں ! طوعاً و کرھا۔ کچھ لوگ اس کی اطاعت خوشی سے کرتے ہیں بعض دوسرے مجبوری اور لاچاری کی بناء پر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام دو قسم کے ہیں۔ تکوینی احکام وہ احکام ہیں جو انسان کو اپنی خواہش اور اختیار کے بغیر کرنے پڑتے ہیں۔ جیسے زندگی ، موت ، بیماری حادثات ، بارش ، خشک سالی ، سیلاب ، زلزلہ وغیرہ ایسی چیزیں ہیں ، جو انسان پر بغیر خواہش اور بغیر اختیار کے وارد ہوتی ہیں۔ انسان کو ان احکام پر مجبوراً عمل پیرا ہونا پڑتا ہے۔ یہ تکوینی احکام ہیں۔ دوسری قسم کے احکام شرعی احکام کہلاتے ہیں۔ یہ احکام اللہ تعالیٰ انبیاء کے ذریعے انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ ان پر عمل انسان اپنی خواہش اور اختیار سے تسلیم کرتی ہے۔ اور بعض بدبخت ایسے بھی ہیں ، جو انہیں ماننے کے لیے تیار نہیں۔ تو فرمایا کہ ایسی ہستی جس کے تمام تکوینی اور شرعی احکام مانے جائیں وہ صرف خدا کی ذات ہے۔ اور ماننے والے آسمان میں بھی ہیں۔ اور زمین میں بھی ہیں۔ آسمانی مخلوق میں فرشتے ہیں۔ یہ اللہ کی مطیع اور فرمانبردار مخلوق ہے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ آسمان میں چار بالشت بھی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ اپنے مالک کی عبادت میں مصروف نہ ہو۔ زمینی مخلوق میں انسانوں کے علاوہ شجر ، حجر ، چرند ، پرند ، نباتا ، جمادات سب اللہ کے تکوینی احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ رہے انسان تو ان میں بہت سے ایسے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے شرعی احکام قبول کرتے ہیں۔ اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرتے ہیں۔ وکثیر حق علیہ العذاب۔ اور بہت سے ایسے بھی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی سزا ثابت ہوچکی ہے۔ تکوینی احکام تو وہ بھی مجبوراً مانتے ہیں مگر شرعی احکام پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ایسے لوگ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہاں جائیں گے ، وہ تو فرماتا ہے۔ والیہ یرجعون۔ انہیں بہرصورت اس مالک الملک کی طرف ہی لوٹ کرجانا ہے۔ سب اس کے سامنے پیش ہوں گے اور ہر ایک سے اس کے عقیدے اور عمل کے متعلق باز پرس ہوگی۔ تو یاد رکھنا چہئے کہ کافر ، مشرک ، یہودی اور عیسائی اگر اللہ کے سچے دین کو نہیں مانتے۔ تو پھر کس دین کو مانیں گے۔ کیا کوئی ایسی ذات ہے۔ جو اللہ کے علاوہ انہیں کوئی سچا دین مہیا کردے۔ یہ کس دین کے متلاشی ہیں۔ دین عطا کرنے والی ذات تو فقط ذات واحد ہے۔ جس سچے دین کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ وہ وہی دین ہے جس کی تعلیم حضور خاتم النبیین ﷺ دے رہے ہیں۔ اور اس کا خلاصہ یہ ہے۔ حنفاء للہ غیر مشرکین بہ۔ کہ حنیف بن جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ چناچہ اسی دین حنیف کی تشریح میں فرمایا۔ قل۔ اے پیغمبر ! (علیہ السلام) ان سے کہہ دیجئے ۔ امنا باللہ۔ ہم اللہ پر ایمان لائے۔ یعنی اپنے خدا تعالیٰ کی ہستی کو اجب الوجود تسلیم کیا۔ ہم نے اس کی توحید کو مانا ۔ اس کے کمال صفات کے ساتھ متصف ہونے کو مانا ، اس ذات کو نقص و عیب سے پاک جانا۔ اس کو ازلی و ابدی تسلیم کیا ۔ ہم اس بات پر ایمان لائے کہ وہی ذات مالک و مختار کل ہے۔ وہی علیم کل ہے۔ وہ خالق کل اور مربی کل ہے۔ وہ ہر جگہ پر حاضر و ناظر ہے وہی حلال المشکلات ہے۔ وہی نافع اور ضار ہے۔ یہی ایمان باللہ ہے۔ یہی عقیدہ سبحان اللہ وبحمدہ میں سمجھایا گیا ہے۔ ایمان باللہ کے بعد فرمایا وما انزل علینا۔ اور ہم اس چیز پر بھی ایمان لائے جو ہماری طرف اتاری گئی ، ظاہر ہے کہ ہماری طرف اللہ نے قرآن پاک نازل فرمایا ہے ، جس پر ہم ایمان لائے۔ اس کی تشریح میں فرمایا۔ ثم ان علینا بیانہ۔ پھر اس کا بیان کرنا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ نیز فرمایا کہ پیغمبر کا ایک کام یہ بھی ہے۔ لتبین للناس ما نزل الیھم۔ جو کتاب اس پر نازل کی گئی ہے۔ لوگوں اس کی تشریح بیان کرے۔ تاہم یہ تشریح بھی منجانب اللہ ہوتی ہے۔ قرآن پاک وحی جلی ہے اور جو تشریح پیغمبر کی زبان سے ہوتی ہے۔ وہ وحی خفی ہے مسلم شریف کی روایت میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایمان وہ چیز ہے۔ ما جئت بہ۔ جو کچھ میں لے کر آیا ہوں۔ یعنی جو بھی چیز اللہ کی طرف سے نبی لایا ہے ، اس پر ہم ایمان لائے ہیں۔ فرمایا۔ وما انزل علی ابراہیم۔ ہم اس چیز پر بھی ایمان لائے جو ابراہیم (علیہ السلام) پر اتاری گئی ہے۔ قرآن میں موجود ہے۔ کہ اللہ جل جلالہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر صحیفے نازل فرمائے۔ جیسا کہ سورة اعلی میں آتا ہے۔ صحف ابراہیم و موسیٰ اللہ تعالیٰ نے ان کو دین دیا ، شریعت دی ، احکام دیے اور تمام مخلوق کا امام بنایا۔ فرمایا واسمعیل و اسحاق و یعقوب والاسباط۔ ہم اس چیز پر بھی ایمان لائے جو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد پر اتاری گئی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دو بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں۔ پہلے حضرت ہاجرہ کے بطن سے اور دوسرے حضرت سارہ سے۔ دونوں اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔ اللہ نے ان کو مستقل شریعت دی۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) حضرت ابراہیم کے پوتے اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں۔ وہ بھی اللہ کے صاحب شریعت نبی ہیں۔ اور پھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اسباط یعنی اولاد ہے۔ اس میں سے اللہ نے جس کو نبوت دی ، ان پر وحی نازل فرمائی اور ان کو شریعت بھی دی۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد میں سے اللہ نے چار ہزار نبی اور رسول مبعوث فرمائے۔ یہ اتنا عظیم خاندان ہے۔ اسباط سے یہی انبیاء اور رسل مراد ہیں جن میں حضرت داود (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) جیسے عظیم پیغمبر مبعوث ہوئے۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) بھی آپ کی اولاد میں سے ہیں تاہم بعض انبیاء کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ اکثر کا نام ذکر نہیں کیا گیا۔ ان تمام انبیاء (علیہم السلام) پر جو چیز نازل کی گئی۔ اس پر ہمارا ایمان ہے۔ اس کے علاوہ۔ وما اوتی موسیٰ و عیسی۔ جو چیز موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئی اس پر بھی ہمارا ایمان ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات جیسی عظیم کتاب نازل کی گئی۔ اس کے علاوہ کچھ صحیفے بھی ہیں۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ نے انجیل نازل فرمائی۔ جسے بگاڑ کر اہل کتاب نے ایک سو بیس انجیلیں بنا لیں۔ ان میں سے متی ، لوقا ، یوحنا اور مرقس تو بائیبل میں موجود ہیں۔ جن کے مضامین ایک دوسری سے مختلف ہیں۔ پانچویں انجیل بربناس ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اپنی اصل حالت پر موجود نہیں رہی۔ تاہم ہمارا ایمان اس اصلی انجیل پر ہے۔ جو سریانی زبان میں نازل ہوئی۔ آخر میں فرمایا۔ النبیون من ربھم۔ خلاصہ یہ ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) پر ان کے رب کی طرف سے جو کچھ بھی اتارا گیا ہے۔ اس پر ہمارا ایمان ہے۔ مسلمانوں کی صداقت کی یہی نشانی ہے۔ کہ وہ انبیاء (علیہم السلام) پر نازل ہونے والی تمام کتب کو مانتے ہیں۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا۔ تومنون بالکتب کلہ۔ تم تو سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو۔ مگر یہ یہود و نصاری اللہ کی سب سے عظیم اور آخری کتاب قرآن پاک کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ محمد (ﷺ) اپنی طرف سے بنا کر لائے ہیں (العیاذ باللہ) یہ اس قدر متعصب لوگ ہیں۔ اور یہی ان کے کذب کے دلیل ہے۔ یہ تو ایک دوسرے کے بھی مخالف ہیں۔ مگر ہم تو تمام انبیاء کی رسالت پر یقین رکھتے ہیں یہی حنیفیت ہے۔ اور یہی سچا دین اسلام ہے۔ ہر نبی دوسرے نبی کی تصدیق کرتا ہے۔ اور تمام انبیاء (علیہم السلام) نے حضور خاتم النبیین ﷺ کی تصدیق کی۔ اور خدا کی بارگاہ میں آپ کی نصرت کا وعدہ کیا۔ یہ آیت قریب قریب انہی الفاظ کے ساتھ پہلے پارے میں بھی گزری ہے وہاں پر ملت ابراہیمی کی تشریح الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ وہاں پر علینا کی جگہ الینا اور والنبیون سے پہ 9 لے وما اوتی کے الفاظ زیادہ ہیں۔ مقصد یہی ہے کہ جو کچھ اللہ نے نبیوں پر نازل کیا ہے وہ حق ہے اور ان سب پر ہمارا ایمان ہے۔ گویا اس اصل ہدایت پر ہمارا مکمل ایمان ہے اگرچہ بعد میں آنے والوں نے اس میں تغیر و تبدل کردیا تاہم اس کے لیے وہ خود ذمہ دار ہیں اور اللہ کے ہاں جواب دہ ہیں۔ ایمان بالرسل : اور آخر میں تمام انبیاء پر ایمان لانے کی وضاحت اس طرح فرمائی۔ لانفرق بین احد منہم۔ ہم انبیاء اور سل میں کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے ، تفریق کرنے کا معنی یہ ہے کہ یہودیوں کی طرح بعض انبیاء پر ایمان لائے اور بعض پر نہ لائے۔ اس قسم کی تفریق صریح کفر ہے کیونکہ تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضور خاتم النبیین (علیہ السلام) تک جتنے بھی نبی اور رسول آئے ہیں۔ وہ سب اللہ کے کامل بندے اور برحق نبی ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے دور میں مخلوق خدا کو حق کا پیغام پہنچایا۔ اللہ نے اپنے انبیاء کو کتابیں اور شرائع عطا فرمائیں۔ ان سب پر ہمارا ایمان ہے۔ مگر یہود و نصاری اللہ کے تمام انبیاء پر ایمان نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر دونوں گروہ حضور ختم المرسلین (علیہ السلام) پر ایمان نہیں رکھتے۔ لہذا یہ تفریق بین الرسل کے مرتکب ہو کر کافر ٹھہرے۔ اسی طرح یہودی مسیح (علیہ السلام) کو نہیں مانتے۔ بلکہ انہیں دجال کہتے ہیں اور ان کی تذلیل و تحقیر کرتے ہیں۔ مگر ہم بحیثیت مسلمان کسی نبی کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔ ونحن لہ مسلمون۔ ہم اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔ یہی اسلام ہے۔ یہی حنیفیت ہے اور یہی ملت ابراہیمی ہے جس کی تعلیم سارے نبی دیتے آئے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔ یاد رکھو ! ومن یبتغ غیر الاسلام دینا۔ جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین تلاش کرے گا۔ اور یہ سمجھے گا کہ ایسا کرکے وہ کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ فلن یقبل منہ۔ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیوں کہ اللہ کے نزدیک سچا دین صرف اسلام ہے۔ لہذا وہی مقبول ہوگا۔ یہود و نصاری نے یہودیت اور عیسائیت کی تبلیغ کے لیے بین الاقوامی طور پر بڑی بڑی سازشیں کی ہیں۔ ماضی قریب تک سلطنت برطانیہ بڑی وسیع سلطنت اور عظیم طاقت تھی۔ اس نے ساری دنیا کی ناکہ بندی کی ہوئی تھی۔ دو سو سال تک اس طاقت نے دنیا میں اودھم مچائے رکھا تاھ۔ خصوصاً اہل اسلام کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ خلافت کو اسی نے ختم کیا۔ برصغیر کی آزادی کے بعد افریقی ممالک یکے بعد دیگرے آزاد ہونا شروع ہوئے۔ تو وہاں کے لوگ دھڑا دھڑا مسلمان ہونے لگے۔ کہتے ہیں کہ ایک ایک مجلس میں سینکڑوں لوگ اسلام لاتے تھے۔ یہ چیز انگریز کو ہرگز گوارا نہ تھی۔ انہوں نے وہاں پر طرح طرح کے فتنے کھڑے کئے۔ احمد دیبلو مسلمان مبلغ تھے ان کے علاوہ نائجیریا کے صدر اور وزراء کو مروا ڈالا۔ جب لوگوں نے قرآن پاک پڑھنا شروع کیا۔ تو انہوں نے تحریف فی القرآن کا ارتکاب کیا۔ تحریف شدہ قرآن پاک کے نسخے بڑے خوبصورت انداز میں طبع کرا کے مفت تقسیم کیے۔ مثال کے طور پر آیت زیر مطالعہ میں سے لفظ غیر کو حذف کردیا اور باقی صرف و من یبتغ الاسلام دیناً رہ گیا جس کا معنی بالکل الٹ ہوگیا۔ جب یہ بات کرنل ناصر مرحوم کے نوٹس میں آئی تو اس نے اس کا سختی سے نوٹس لیا۔ اس نے اشاعت قرآن کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بنائی جس نے پوری صحت کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں قرآن پاک طبع کرا کے تقسیم کیے۔ اور ساتھ کہہ دیا کہ اس نسخے کے علاوہ کسی دوسرے نسخے کا اعتبار نہ کرو۔ یہ نسخہ ہمارے پاس بھی موجود ہے انہوں نے اشاعت اسلام کے لیے صوت الاسلام کے نام سے ایک مستقل ریڈیو سٹیشن بھی قائم کیا تاکہ قرآن پاک کی نشر و اشاعت ہوتی رہے۔ یہ ناصر کا بہت بڑا کارنامہ ہے اگرچہ اس نے اپنے زمانے میں غلطیاں بھی کیں۔ بہرحال یہود و نصاری کی سازش کا کامیاب جواب دیا گیا۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا لا تتخذوا لیھود والنصری اولیاء۔ یہود و نصاری کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ یہ سازشی لوگ ہیں ، ہر وقت اسلام کو نقصان پہنچانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ لہذا اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو تلاش نہ کرو۔ جو ایسا کرے گا ، اس کا دین ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ وھو فی الاخرۃ من الخسرین۔ ایسا شخص آخرت میں نقصان میں پڑے گا۔ اسلام کے علاوہ کوئی دین بھی کامیابی کی طرف نہیں لے جائے گا۔ بلکہ اس کے متبعین سراسر خسارے کا سودا کریں گے۔ مسلمانوں کی بدقسمتی : یہود و نصاری کی اسلام دشمنی تو قابل فہم ہے ، وہ تو دوسرا دین ہی تلاش کریں گے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ آج کا مسلمابھی اپنے دین پر اعتماد نہیں کرتا۔ آج کے مسلمان بھی یہی سمجھتے ہیں۔ کہ جب تک غیر اقوام کی شاگردی اختیار نہیں کریں گے ، ترقی نصیب نہیں ہوگی۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے۔ کہ جب مسلمان اپنے دین پر یقین کرتے تھے ، عروج کی بلندیوں پر تھے۔ کوئی قوم ان کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی۔ مگر اب خود مسلمان انگریزوں سے مرعوب ہیں۔ ان کی تہذیب اختیار کر رہے ہیں۔ انہی کے لہو ولعب میں مشغول ہیں اور اسی میں اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پیروان اسلام کے سوا کسی کو فلاح نصیب نہیں ہوسکتی۔ آخرت میں تو سخت نقصان اٹھانے والوں میں ہوں گے۔ اسلامی قوانین : تہذیب و تمدن کے علاوہ آج کا مسلمان اسلامی قوانین سے بھی مطمئن نظر نہیں آتا۔ اسی لیے وہ غیر اسلامی قوانین کی طرف دیکھ رہا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسلام ایک فرسودہ دین بن چکا ہے۔ لہذا وہ اقتصادی نظام کے لیے روس ، جرمنی ، امریکہ اور فرانس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ حالانکہ ان کے پاس تعزیرات کا کوئی قانون موجود نہیں ان کے تمام قوانین بناوٹی ہیں۔ برخلاف اس کے کہ اسلام کے پاس اپنے قوانین موجود ہیں۔ صحابہ کرام کا دستور العمل مشعل راہ ہے۔ مگر اب قوانین اس مجلس شوری سے بنوائے جا رہے ہیں۔ جس میں ہندو اور عیسائی بھی شامل ہیں۔ کیا اسلام کا قانون یہ لوگ بنائیں گے ؟ ممبران شوری کے لیے تو خصوصی اہلیت مقرر ہونی چاہئے تھی۔ جس سے پتہ چلتا کہ واقعی یہ لوگ اسلامی قانون سازی کے قابل ہیں۔ حضرت عمر ؓ کی شوری کے ممبر وہ لوگ ہوتے تھے۔ جو قرآن پاک کو زیادہ جاننے والے ہوتے۔ آج بھی اسلامی شوری میں جانے کے اہل وہ لوگ ہیں۔ جو قرآن و سنت اور تعامل صحابہ کے عالم ہوں۔ جب تک اہل لوگ اکٹھے نہیں ہوں گے اسلامی قانون کی تدوین نہیں ہوسکتی۔ جب فاسق فاجر ، ہندو ، مرزائی ، رافضی وغیرہ ممبران شوری ہوں گے۔ تو اسلامی قانون کیسے بن سکتا ہے ؟ وہ تو اپنی اغراض پوری کریں گے۔ یہ سب غیر الاسلام دینا۔ والی بات ہے۔ اگر فلاح کی ضرورت ہے تو اسلامی قوانین کو من و عن جاری کرنا ہوگا۔ اگر کلچر غیر اقوام کا اپنانا ہے ، اقتصادیات اور سیاست ان سے لینی ہے۔ اخلاق ان سے اخذ کرنا ہے۔ تو پھر مسلمانوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔ آؤ ! آج بھی راہ راست پر آجاؤ۔ اور دین اسلام کو سینے سے لگا لو ، تو کامیابی و کامرانی نصیب ہوجائیگی۔
Top