Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 83
اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُوْنَ وَ لَهٗۤ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ
اَفَغَيْرَ : کیا ؟ سوا دِيْنِ : دین اللّٰهِ : اللہ يَبْغُوْنَ : وہ ڈھونڈتے ہیں وَلَهٗٓ : اور اس کے لیے اَسْلَمَ : فرمانبردار ہے مَنْ : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین طَوْعًا : خوشی سے وَّكَرْھًا : اور ناخوشی سے وَّاِلَيْهِ : اس کی طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں
تو کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا (کوئی اور طریقہ) چاہتے ہیں، حالانکہ اسی (وحدہ لاشریک) کے حضور سر تسلیم خم کیے ہوئے ہے وہ سب جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے خواہ خوشی (اور رضا رغبت) سے ہو یا لاچاری (اور مجبوری) کی بنا پر،
172 کائنات کی ہر چیز اللہ کی فرمانبرداری : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حضور سرتسلیم خم ہے : کہ یہ سب کچھ اسی کا مخلوق و مملوک، اور اسی کے حکم کے تابع ہے۔ واضح رہے کہ حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کے احکام دو قسم کے ہیں۔ ایک تکوینی اور دوسرے تشریعی۔ تکوینی سے مراد وہ احکام ہیں، جو اس کی اس وسیع کائنات میں جاری وساری ہیں، جن پر جِنّ وانس وغیرہ کسی مخلوق کا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دخل اور اختیار نہیں بلکہ یہ سب کچھ اس کے ان تکوینی احکام کا پابند ہے۔ اسی لئے ان احکام پر ان کیلئے کوئی اجرو ثواب نہیں، جیسے انسان کا پیدا ہونا، مرجانا، کالا یا گورا ہونا، چھوٹا یا بڑا ہونا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب احکام انسان پر لاگو ہوتے ہیں، مگر اس طرح کہ انسان کا ان کے بارے میں نہ کوئی اپنا ارادہ ہوتا ہے نہ اختیار۔ اس لئے ان میں سے کسی پر اس کو نہ کوئی اجر ملتا ہے نہ ثواب، اور تکوین و تخلیق کے اس دائرے میں انسان بھی باقی تمام مخلوق کی طرح اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کا پابند، اور اس کے آگے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے۔ کوئی چون و چرا بھی اس کے بس میں نہیں۔ اس اعتبار سے وہ اسی وحدہ لاشریک کا فرمانبردار اور اسی کے حضور سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا { کُلٌّ لَّہٗ قَانِتُوْنَ } (البقرۃ۔ 1 16) جبکہ دوسری قسم احکام کی تشریعی ہے، جن کے بجا لانے پر اجر وثواب ملتا ہے، اور ان کی خلاف ورزی پر گناہ و پکڑ بھی۔ اور یہ تمام امور انسان کے ارادہ و اختیار پر رکھے گئے ہیں۔ اسی لئے وہ ان پر اجرو ثواب اور بدلہ و جزاء کا حقدار قرار پاتا ہے۔ پس اس کے اس ارادہ و اختیار ہی پر اس کے امتحان اور اس کی جزاء و سزا کا سارا دارومدار ہے۔ سو تکوینی اعتبار سے سب ہی اس کے حکم کے پابند اور اس کے حضور سرتسلیم خم ہیں کہ خالق ومالک سب کا وہی وحدہ لا شریک ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 173 اللہ کے حضور سجدہ ریزی باعث سعادت و سرفرازی : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور خوشی بخوشی سجدہ ریز ہوناباعث سعادت و سرفرازی اور موجب نجات و فلاح ہے۔ سو آسمان و زمین کی اس مخلوق میں سے کچھ تو خوشی خوشی اور برضا ورغبت اپنے خالق ومالک کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں جیسے ملائکہ، اور ایمان والے جن وانس کہ وہ سب کے سب انپے خالق ومالک کے حضور دل و جان سے جھکتے اور اس کے احکام و اَوامر کو بجا لاتے ہیں، اور اپنی رضا ورغبت سے اور خوشی خوشی اس کے حضور سجدہ ریز ہونے کی سعادت حاصل کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اس کی رضاء و خوشنودی اور رحمت و عنایت سے سرفراز ہوتے ہیں۔ سو سعادت سب کی سب اور دارین کی فوز و فلاح کا مدارو انحصار اسی پر ہے کہ انسان اپنے اراد وو اختیار سے اور اپنے شوق ورغبت کے ساتھ اپنے خالق ومالک کے حضور جھکے اور اس طرح وہ اس ساری کائنات کا ہمنوا و ہمسفر ہوجائے گا کہ کائنات پوری کا دین اسلام ہی ہے۔ وہ سب کی سب اللہ تعالیٰ کے حضور جھکی ہوئی ہے مگر اس کا یہ جھکنا جبری اور غیر اختیاری ہے۔ اس لئے اس کے لئے کوئی اجر وثواب نہیں، جب کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار سے اس کے آگے جھک کر اپنے لئے دارین کے اجر وثواب اور فوز و فلاح کا سامنا کرتا ہے کہ اپنے خالق ومالک کے حضور جھکنا اس کا حق بھی ہے اور اسی میں بندے کا بھلا بھی ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 174 اللہ تعالیٰ کے حضور لاچاری اور مجبوری کی سجدہ ریزی کا ذکر : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ آسمان و زمین کی اس پوری طائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حضور سر تسلیم خم اور سجدہ ریز ہے۔ خواہ رضا ورغبت سے اور خوشی بخوشی ہو جیسا کہ انسان وملائک جیسی بہت سی ذی ارادہ مخلوق کرتی ہے اور یا مجبوری اور لاچاری سے جیسا کہ باقی تمام مخلوق۔ جیسے کائنات کی ہر چیز، کہ وہ اپنی خلق وتکوین کے دائرے میں اللہ پاک کے حکم و ارشاد کی پوری طرح پابند ہے۔ اسی لئے سورج و چاند جیسے یہ عظیم الشان کرے پوری پابندی کے ساتھ اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں، اور خود انسان بھی اپنے دائرہ خلق وتکوین میں، کہ اس لحاظ سے یہ سب کے سب اس کے حکم وارشاد کے پابند ہیں اور ان سب کو خواہی نخواہی اسی وحدہ لاشریک کے احکام پر چلنا پڑتا ہے، کہ دائرہ خلق وتکوین میں انکو کوئی اختیار ہے ہی نہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ خداوند قدوس کے حکم و قانون سے ذرہ بھر سرتابی کرسکے اور اپنے محدود دائرہ سے باہر نکل سکے۔ خالق نے اس کو جس کام کے لئے مقرر فرمادیا وہ اس میں پوری طرح لگا ہوا ہے۔ اور پوری پابندی سے اپنے فرض کو نبھا رہا ہے۔ 175 سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف ۔ سبحانہ وتعالیٰ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ سب کو لوٹ کر اللہ تعالیٰ ہی کے حضور حاضر ہونا ہے : خواہ یہ چاہیں یا نہ چاہیں۔ بہرکیف ان کو لوٹ کر وہیں جانا ہے تاکہ اس طرح ہر کوئی اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ پاس کے، کہ آخری اور کامل اور عملی فیصلہ وہیں ہو سکے گا۔ سو ان سب کو بہرحال لوٹ کر وہیں جانا اور اس کے حضور حاضر ہونا ہے، اور اپنے کیے کرائے کا بھرپور صلہ و بدلہ پانا ہے تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے بھرپور طریقے سے اور اپنی آخری شکل میں پورے ہوسکیں۔ اور اس طرح کائنات کے مقصد تخلیق کی تکمیل ہوسکے۔ سو جس طرح ان کے لئے ان کی زندگی میں خدا تعالیٰ کے قانون سے گریز و فرار کی کوئی راہ ممکن نہیں اسی طرح ان کی زندگی کے بعد بھی ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے نکل بھاگنے کی کوئی صورت ممکن نہیں ہوگی بلکہ ان کو خواہی نخواہی بہرحال اس کے حضور حاضر ہونا اور اپنے کئے کرائے کا جواب دینا اور اس کا پھل پانا ہے۔ اس لیے اس یوم حساب کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
Top