Mazhar-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 83
اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُوْنَ وَ لَهٗۤ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ
اَفَغَيْرَ : کیا ؟ سوا دِيْنِ : دین اللّٰهِ : اللہ يَبْغُوْنَ : وہ ڈھونڈتے ہیں وَلَهٗٓ : اور اس کے لیے اَسْلَمَ : فرمانبردار ہے مَنْ : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین طَوْعًا : خوشی سے وَّكَرْھًا : اور ناخوشی سے وَّاِلَيْهِ : اس کی طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں
تو کیا یہ کافر اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین ڈھونڈھتے ہیں حالانکہ اسی کے فرمانبردار ہیں جو کوئی کہ آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں خوشی سے اور مجبوری سے اور اس کی طرف لوٹائے جائیں گے
اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ جبکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے پیدا کرنے سے ہزار برس پہلے دنیا کے ہر ایک دور کی مصلحت کے موافق ایک قانون قرار دیا ہے، جس کو اس دور کی شریعت ٹھہرایا ہے اور اسی مصلحت دقتیہ کے انتطام کے لئے ہر نبی اور امت سے وہ معاہدہ قرار پاچکا ہے جس کا ذکر اوپر کی آیت میں ہے۔ تو پھر اب جو کوئی اس انتظام الہٰی میں خلل ڈالے گا اور سوائے اس شریعت دقتیہ کے غیر دقتیہ شریعت پر چلے گا، وہ اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے کچھ اجر نہ پائے گا اور اس کا سب کیا کرایا اکارت ہے۔ کیونکہ اجر اسی عمل پر ہے جو مرضی الہٰی کے موافق ہو۔ خلاف مرضی الہٰی کام پر تو اور مواخذہ ہوگا اجر کہاں رہا۔ اور آسمان و زمین میں سب پر اللہ ہی کا حکم چلتا ہے اس لئے جو اس کے حکم کے برخلاف کرے گا وہ آخرت میں نقصان اٹھائے گا۔ حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کے بعد جس کسی کو نبوت عطا فرمائی ان سے آنحضرت ﷺ کی نسبت عہد لیا اور ان انبیاء نے اپنی قوموں سے عہد لیا کہ اگر ان کی حیات میں آنحضرت ﷺ مبعوث ہوں تو آپ پر ایمان لائیں۔
Top