Anwar-ul-Bayan - An-Naba : 23
لّٰبِثِیْنَ فِیْهَاۤ اَحْقَابًاۚ
لّٰبِثِيْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہیں فِيْهَآ : اس میں اَحْقَابًا : مدتوں
جس میں وہ بہت زیادہ عرصہ ہائے دراز تک رہیں گے،
﴿ لّٰبِثِيْنَ فِيْهَاۤ اَحْقَابًاۚ0023﴾ (جس میں وہ زمانہ ہائے دراز تک رہیں گے) لفظ احقاب حقب کی جمع ہے حضرت حسن بصری ؓ نے اس کی تفسیر غیر محدود زمانہ سے کی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ ایک حقبہ اسّی (80) سال کی مدت کا نام ہے اور ساتھ ہی سلف سے یہ بھی منقول ہے کہ ان اسّی سالوں کا ہر دن دنیا کے ہزار سال کے برابر ہوگا بہرحال نص قرآنی سے یہ ثابت ہوا کہ اہل کفر کو دوزخ میں بقدر مدت احقاب رہنا ہوگا، چونکہ احقاب کی گنتی نہیں بتائی کہ کتنے احقاب ہوں گے اور سورة ٴ نساء اور سورة الجن میں اہل کفر کی سزا بیان کرتے ہوئے خالدین کے ساتھ ابدا بھی فرمایا ہے جیسا کہ دوسری آیات میں اہل جنت کے لیے بھی ﴿خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا 1ؕ﴾ وارد ہوا ہے اس لیے اہل سنت والجماعت کی عقائد کی کتابوں میں یہ ہی عقیدہ لکھا ہے کہ جنتی ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور جو کفار اور مشرکین جہنم میں داخل ہوں گے اور ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے نہ اہل جنت کا انعام ختم ہوگا نہ اہل دوزخ کا عذاب۔ اسی لیے مفسرین نے فرمایا ہے کہ احقابا کا مطلب یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے ہمیشہ ایک حقبہ ختم ہوگا تو دوسرا شروع ہوجائے گا اور مسلسل عذاب دائمی میں رہیں گے جو کبھی منقطع نہ ہوگا۔ اذلا فرق بین تتابع الاحقاب الکثیرة الٰی مالا یتناھی وتتابع الاحقاب القلیلة كذلك۔ (روح المعانی صفحہ 71: ج 30) وقال البغوی فی معالم التنزیل قال الحسن ان اللہ لم یجعل لاھل النار مدة بل قال لابثین فیھا احقابا فو اللہ ما ھو الا اذا مضی حقب دخل آخر ثم آخر الٰی الابد فلیس للاحقاب عدة الا الخلود۔
Top