Mutaliya-e-Quran - An-Naba : 23
لّٰبِثِیْنَ فِیْهَاۤ اَحْقَابًاۚ
لّٰبِثِيْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہیں فِيْهَآ : اس میں اَحْقَابًا : مدتوں
جس میں وہ مدتوں پڑے رہیں گے
[لّٰبِثِيْنَ فِيْهَآ اَحْقَابًا : رہنے والے ہوتے ہوئے اس میں مدتوں ] نوٹ 2: آیت 23 ۔ میں ہے کہ وہ لوگ اس میں مدتوں رہنے والے ہیں۔ مدتوں کے لیے لفظ احقاب استعمال کیا گیا ہے (یہ جمع الجمع ہے۔ اس کا واحد حُقْبٌ ہے۔ اس کی جمع حُقُبٌ ہے اور اس کی جمع اَحْقَابٌ ہے۔ مرتب) جس کے معنی ہیں پے در پے آنے والے طویل زمانے۔ اس لفظ سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ جنت کی زندگی میں تو ہمیشگی ہوگی مگر جہنم میں ہمیشگی نہیں ہوگی کیونکہ یہ مدتیں خواہ کتنی ہی طویل ہوں لیکن بہرحال کبھی نہ کبھی جا کر ختم ہوجائیں گی۔ لیکن یہ استدلال دو وجوہ سے غلط ہے۔ ایک یہ کہ عربی لغت کے لحاظ سے حقب کے لفظ ہی میں یہ مفہوم شامل ہے کہ ایک حقب کے پیچھے دوسرا حقب ہو۔ اس لیے احقاب لازماً ایسے ادوار ہی کے لیے بولا جائے گا جو پے در پے ایک دوسرے کے بعد آتے چلے جائیں اور کوئی دور بھی ایسا نہ ہو جس کے پیچھے دوسرا دور نہ آئے۔ دوسرے یہ کہ کسی موضوع کے متعلق قرآن مجید کی کسی آیت سے کوئی ایسا مفہوم لینا اصولاً غلط ہے جو اسی موضوع کے بارے میں قرآن کے دوسرے بیانات سے متصادم ہو۔ قرآن میں 34 مقامات پر اہل جہنم کے لیے خلود (ہمیشگی) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ایک جگہ صاف صاف ارشاد ہوا ہے کہ وہ چاہیں گے کہ جہنم سے نکل جائیں مگر وہ اس سے ہرگز نکلنے والے نہیں ہیں۔ (المائدہ۔ 37) ان تصریحات کے بعد لفظ احقاب کی بنیاد پر یہ کہنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ جہنم میں خدا کے باغیوں کا قیام دائمی نہیں ہوگا۔ (تفہیم القرآن) یہ بات اس لیے بھی غلط ہے کہ زبان سمجھنے کا طریقہ یہ ہے کہ مجمل کی شرح مفصل کی روشنی میں کرتے ہیں نہ کہ مفصل کی شرح مجمل کی روشنی میں۔ خَالِدِیْنَ فِیْھَا اَبْدَا کے الفاظ ظاہر ہے کہ مفصل ہیں اور لفظ اَحْقَابْ مجمل ہے۔ اس مجمل کو مفصل کی روشنی میں سمجھیں گے نہ کہ اس کے برعکس (تدبر قرآن)
Top