Anwar-ul-Bayan - An-Naba : 23
لّٰبِثِیْنَ فِیْهَاۤ اَحْقَابًاۚ
لّٰبِثِيْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہیں فِيْهَآ : اس میں اَحْقَابًا : مدتوں
اس میں وہ مدتوں پڑے رہیں گے
(78:23) لبثین فیہ احقابا : جملہ طاغین کی ضمیر مستکن سے حال ہے لہٰذا منصوب ہے۔ لبثین لبث (باب سمع) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر ہے۔ لبث لباث ولباثۃ بمعنی دیر تک رہنا۔ مدت تک رہنا۔ فیہا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع جھنم ہے۔ احقابا : حقب کی جمع ہے اور بوجہ ظرفیت منصوب ہے۔ حقب کتنی مدت کو کہتے ہیں اس میں اسلاف و اہل لغت کا اختلاف ہے۔ مثلا حقب 80 سال جس کا ہر دن ہزار برس کا۔ (حضرت علی کرم اللہ وجہہ) ۔ حقب 27 خریف کا۔ ہر خریف 700 سال کا، ہر سال 360 دن کا ہر دن ہزار برس کا۔ (مجاہد) اسی طرح دوسرے اقوال ہیں :۔ لیکن کتنی ہی مدت بیان کی جائے پھر بھی وہ میعاد ختم ہوجائے گی۔ دوامی نہ ہوگی : اس لئے مقاتل نے صاف کہہ دیا کہ آیت فلن نزیدکم الا عذابا سے یہ آیت منسوخ ہے۔ لیکن حسن بصری (رح) فرمایا ہے :۔ کہ احقاب جمع ہے اور جمع کی کوئی آخری حد نہیں۔ اس لئے ہر حقب گزرنے کے بعد دوسرا حقب شروع ہوجائے گا اور اس طرح حقب کا سلسلہ ختم ہوگا۔ امام حسن بصری کی تشریح کے مطابق اس جگہ (لفظ احقابا کی وجہ سے) لبثین کا مطلب ہوگا ہمیشہ رہنے والے۔ (لغات القرآن) وہ اس میں حقبوں پڑے رہیں گے۔
Top