Tafseer-e-Madani - An-Naba : 23
لّٰبِثِیْنَ فِیْهَاۤ اَحْقَابًاۚ
لّٰبِثِيْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہیں فِيْهَآ : اس میں اَحْقَابًا : مدتوں
جس میں ان کو رہنا ہوگا مدتوں (پر مدتیں)
(20) جہنم منکروں کا ہمیشہ کا ٹھکانا۔ والعیاذ باللہ العظیم : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس میں ان کو رہنا ہوگا مدتوں پر مدتیں۔ یعنی اس " مکث و خلود " کا کبھی خاتمہ نہ ہوگا بلکہ اس قرن کے بعد دوسرا، اس کے بعد تیسرا، اور اس کے بعد چوتھا آتا چلا جائے گا۔ اور یہ لامتناہی سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ فلا انقطاع لہ ولا انقضاء ( ابن کثیر، ابن جریر، معالم وغیرہ) پس یہ " لبث احقاب " دراصل بقاء دوام اور " خلود فی النار " کے معنی میں ہے۔ (ابن کثیر، جامع البیان، مظہری، اور خازن وغیرہ) ہم نے اپنے ترجمہ میں اس مفہوم کو واضح کردیا ہے۔ والحمد للہ جل وعلا۔ سو جن لوگوں نے اس سے لبث طویل مراد لے کر یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی ہے کہ جہنم بالآخر ایک دن ختم ہوجائے گی، ان کی رائے غلط اور نصوص قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ کیونکہ منکرین و مکذبین کے لئے دوسرے مختلف مقامات پر " خالدین فیھا ابدا " کی تصریح موجود ہے۔ اور قاعدہ یہ ہے کہ مجمل کی تشریح مفصل کی روشنی میں اور اس کے مطابق کی جاتی ہے۔ نہ کہ اس کے برعکس۔ نیز منکروں کے لئے دوسرے مختلف مقامات پر اس کی تشریح بھی موجود ہے کہ ان کو جہنم میں ہمیشہ کے لئے رہنا ہوگا۔ ان کو اس سے کبھی نکلنا نصیب نہیں ہوگا۔ تو پھر اس طرح کی کسی قیاس آرائی کی کیا گنجائش ہوسکتی ہے ؟ بہرکیف منکروں اور سرکشوں کو ہمیشہ کے لئے دوزخ میں ہی رہنا ہوگا۔ کیونکہ جن لوگوں نے اپنی دنیاوی زندگی کو کفر و انکار اور تمرود و سرکشی میں گزارا ہوگا ان کا انجام یہی ہوگا اور یہی ہونا چاہئے کہ وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے دوزخ میں رہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔ یا رب العالمین، واکرم الاکرمین۔
Top