Urwatul-Wusqaa - An-Naba : 23
لّٰبِثِیْنَ فِیْهَاۤ اَحْقَابًاۚ
لّٰبِثِيْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہیں فِيْهَآ : اس میں اَحْقَابًا : مدتوں
(اس میں) وہ مدتوں پڑے رہیں گے
وہ اس میں عرصہ دراز تک پڑے رہیں گے ۔ 23 (احقاباً ) بیشمار قرن ، بےانتہا زمانہ حقب کی جمع حقب ضم قاف زمانہ کو کہتے ہیں اور حقب سکون قاف زمانہ کی ایک مقررہ مدت کا نام ہے مگر اس مدت کے تعین میں اہل لغت کا اختلاف ہے بعض دس سال کی مدت کو اور بعض ستر برس کے زمانہ کو ، بعض تین سال اور بعض چالیس سال اور بعض تیس ہزار سال بتاتے ہیں اور مفسرین سلف نے تصریح کی ہے احقاب سے غیر منقطع زمانہ مراد ہے۔ باقی حقب کی مدت کا تعین بجز اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں ہے۔ امام حسن بصری (رح) نے اسی طرح بیان کیا ہے ۔ (ابن کثیرج 01 ص 641 طبع مصر) مختصر یہ کہ عرصہ کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو اس کی درازی کی کوئی نہ کوئی مدت بہرحال ہوگی اگرچہ اس کی انتہا کا ہم کو علم نہ ہو۔ اس کے معنوں میں جس نے زیادہ وسعت رکھی ہے اس نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ ” وہ دوزخ میں صدہا ہزار سال ٹھہریں گے “ اس سے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی کوئی انتہا نہ ہوگی۔ اس سے جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ دوزخ جو عتاب الٰہی کا گھر ہے کیا ہمیشہ آباد رہے گی ؟ اللہ تعالیٰ کی رحمت عمومی کا جو تقاضا ہے اس کے پیش نظر اس کا جواب نفی میں ہے اور اس سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر مدت دراز کے بعد ایک دن جب جہنم کی آگ رحمت الٰہی کے چھینٹوں سے بالآخر سرد ہوجائے گی۔ چناچہ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” جنت میری رحمت ہے اور دوزخ میرا عذاب ہے “ اور اس طرح صحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کا فیصلہ کیا تو اس وقت اس نے اپنے عرش پر لکھ دیا کہ : رحمتی سبقت غضبی ” میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔ “ (صحیح مسلم ، صحیح بخاری ج دوم) ابا گر دوزخ جو اس کے غضب کا مظہر ہے ، اس کی جنت ہی کی طرح دائمی و ابدی ہو تو اس کا غضب اس کی رحمت پر سبقت لے جاتا ہے یا برابر ہوجاتا ہے اور اس کا تخیل بھی اس رحمٰن و رحیم کی نسبت نہیں ہو سکتا۔ اس طرح حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو حصوں میں سے صرف ایک حصہ دنیا میں اتار اور نناوے حصے قیامت کے دن کے لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو حصوں میں سے صرف ایک حصہ دنیا میں اتارا اور نناوے حصے قیامت کے دن کے لئے رھے ہیں۔ اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ ایک دن آئے گا جب اس کے غضب پر اس کی رحمت غالب آئے گی اور اس کی رحمت کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا اور یہ وہ دن ہوگا جب گنہگار اپنے گناہوں کی ناپاکیوں اور نجاستوں سے اپنے اپنے مقررہ وقت پر پاک ہو کر اس کی رحمت کی سرفرازی کے قابل بنیں گے۔ اسلام کی رو سے سب سے بڑے مجرم مشرک و کافر ہیں ، جو اس وقت تک نجات نہ پاسکیں گے جب تک وہ رخ کے تنور میں ایک گرم کوئلہ بھی باقی ہے۔ تاہم ان کے عذاب کی مدت کی نسبت بھی قرآن کریم میں حسب ذیل تصریحات ہیں : (1) (لبثین فیھا احقاباً ) (النباء : 32) ” وہ دوزخ میں صد ہا ہزار سال ٹھہریں گے۔ “ صد ہا ہزار سال کی مدت کس قدر بڑی ہو ، پھر بھی ایک دن اس کا خاتمہ ہوگا۔ دوسری آیت جو صریحاً کفار و مشرکین کے حق میں ہے ، یہ ہے : (2) النارمثوا کم خلدین فیھا الا ما شآء اللہ ان ربک حکیم علیم) (الانعام : 821) ” ’ وزخ ہے تمہارا ٹھکانا ، اس میں تم سدا رہنے اولے ہو لیکن یہ کہ اللہ جو چاہے بیشک تیرا رب حکیم وعلیم ہے۔ “ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ شرک و کفر کی سزا تو اصل میں قانوناً یہی ہے کہ دوزخ میں دائمی سزا دی جاتی رہے ، مگر اس کی رحمت کا اقتضاء کچھ اور ہے لیکن وہ حکیم وعلیم ہے ، اس لئے وہ اپنا ہر کام اپنی حکمت و مصلحت اور علم کے مطابق کرتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ کس کے حق میں کیا کرنا چاہئے اور کب کرنا چاہئے ۔ تیسری آیت میں ہے : (3) (خلدین فیھا ما دامت السموت والارض الا ماشآء ربک ان ربک فعال لما یرید) (ھود : 701) ” وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے ، جب تک آسمان و زمین قائم ہیں لیکن یہ کہ جو تیرا رب چاہے ، بیشک تیرا رب جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ دوسری اور تیسری آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں اپنی مشیت کو عذاب کی انتہا بتایا ہے اور اپنے کو ” رب “ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے ، جس سے اشارہ نکلتا ہے کہ اس کی مشیت سے بالآخر اس عذاب کا ختم ہونا اس کی ” ربوبیت “ کا اقتضاء ہے۔ قرآن پاک میں کوئی ایسی صاف وصریح آیت موجود نہیں ہے جس سے دوزخ کی بقائے دوام ، عدم انتہا اور تسلسل وجود پر بتصریح استدلال کیا جاسکے حالانکہ اس کے برخلاف بہشت کی ہمیشگی و بقا اور عدم انقطاع و عدم فنا کی بیسیوں آیات قرآن کریم میں موجود ہیں۔ چناچہ ان دونوں کے فرق کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے اس اوپر والی آیت کو ہم تمام و کمال یہاں نقل کرتے ہیں۔ فرمایا : (آیت : ھود : 601 تا 801) ” تو لیکن جو بدبخت ہوئے وہ دوزخ میں ہوں گے۔ اس میں ان کو گدھوں کی طرح چلانا اور دھکیلنا ہے ، جب تک آسمان اور زمین ہیں وہ اس دوزخ میں رہیں گے مگر جو چاہے تیرا رب ، بیشک تیرا رب جو چاہے کر ڈالتا ہے اور لیکن وہ جو خوش قسمت ہوئے تو وہ جنت میں ہوں گے ، ہمیشہ اس میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم رہیں مگر چاہے تیرا رب ، یہ غیر منقطع بخشش ہوگی۔ “ دیکھو کہ اہل جنت اور اہل دوزخ دونوں کے لئے خلود و دوام فرمایا پھر ان دونوں میں اس کے بعد اپنی مشیت سے استثنیٰ فرمایا مگر اہل دوزخ کے دوام کے بارے میں ذکر فرمایا کہ ” مگر جو چاہے تیرا رب بیشک تیرا رب جو چاہے کہ ڈرلتا ہے “ اس سے معلوم ہوا کہ جو چاہے تو دوزخ کے عذاب کو ختم کر دے اور چاہے تو قائم رکھے لیکن اہل جنت کے دوام کے ذکر میں بتصریح فرمایا ” مگر جو چاہے تیرا رب یہ غیر مقنطع بخشش ہوگی۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ اہل جنت کے حق میں اس کی مشیت یہی ہوگی کہ وہ بےانقطاع اور غیر منتہی دوام و تسلسل کے ساتھ ہمیشہ قائم و باقی رہے۔ اس آیت کی تفسیر میں متعدد ائمہ ، سلف ، مثلاً ابن زید اور شعبی وغیرہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے بارہ میں تو اپنی مشیت ظاہر فرما دی کہ وہ مسلسل اور غیر منقطع ہے لیکن اہل دوزخ کی نسبت اپنی مشیت کو مصلحت سے مخفی رکھا ہے۔ ایک اور مقام پر خاص طور پر کفار و مشرکین کا نام لے کر اس طرح فرمایا گیا ہے : (آیت البینۃ : 6 تا 8) ” بیشک اہل کتاب اور مشرکوں میں سے جنہوں نے کفر کیا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ پڑے رہیں ، یہ بدترین لوگ ہیں بیشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے وہ بہترین لوگ ہیں ، ان کی جزا ان کے پروردگار کے نزدیک بسنے کے باغ ہیں جن میں نہریں بہتی ہوں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ “ غور سے دیکھو کہ اس میں اہل دوزخ کے مقابلہ میں اہل جنت کے دوام کی نسبت کتنی تاکید پر تاکید ہے پہلے (عدن) فرمایا جس کے معنی ” قیام “ اور ” بسنے “ کے ہیں پھر (خالدین) کہا کہ ” وہ اس میں رہا کریں گے “ بعد ازیں (ابداً ) فرمایا کہ ” وہ جنت میں ابدی طور سے قیام کریں گے۔ “ اسی طرح سورة تغابن میں ہے : (آیت التغابن : 9 ، 01) ” اور اس کو ان باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی جن میں و ہمیشہ رہا کریں گے اور وہی بڑی کامیابی ہے اور جنہوں نے انکار کیا اور ہماری باتوں کو جھٹلایا وہی دوزخ والے ہیں وہ اس میں رہا کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔ “ دیکھو کہ تقابلاً دونوں میں (خالدین) ” رہا کریں گے “ اور (خالدین فیھا ابداً ) ’ ہمیشہ رہا کریں گے “ کا فرق کتنا نمایاں ہے ، کہیں یہ کہا گیا ہے کہ کفار کے عذاب میں مدت کی تعیین سے سرے سے خاموشی برتی گئی ہے اور جنت میں خلود کی تصریح فرما دی گئی ہے ، مثلاً : آیت (آل عمران : 601 ، 701) ” جس دن کچھ منہ سپید ہوں گے اور کچھ سیاہ تو جو سیاہ ہوئے تو کیا ایمان کے بعد کافر ہوگئے تھے تو اپنے کفر کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو اور جن کے منہ سفید ہوئے تو وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے اور اس رحمت میں سدا رہیں گے۔ “ آیت بالا میں عذاب کے ذکر میں مدت کی تصریح سے سراسر خاموشی ہے اور رحمت کے ذکر میں خلود کی تصریح نام ہے۔ ان ہی آیتوں میں آنحضرت ﷺ اور بعض صحابہ کرام ؓ سے رواییں ہیں کہ ایک دن آئے گا جب دوزخ کے مدا ان میں ہو کا عالم ہوگا اور کوئی ایک متنفس بھی وہاں نظر نہیں آئے گا ، چناچہ : (1) طبرانی میں حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جہنم پر ایک دن ایسا آئے گا جب خزاں رسیدہ پتے کے مانند ہوجائے گا اور اس کے دروازے کھل جائیں گے۔ (2) حضرت جابر ؓ یا کسی اور صحابیہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ” جہنم پر ایک دن ایسا آئے گا جس میں اس کے دروازے کھل جائیں گے اور اس میں کوئی نہ ہوگا۔ “ (3) حضرت ابوہریرہ سے رویات ہے کہ ” میں جو کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جہنم میں ایک دن ایسا آئے گا جب اس میں کوئی نہ ہوگا۔ “ (4) تفسیر عبد بن حمید میں حضرت عمر سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ” اگر اہل دوزخ ریگستان علاج کے ذرات کے شمار کے بقدر بھی دوزخ میں رہیں ، پھر بھی ایک دن آئے گا جب وہ اس سے نکلیں گے۔ “ (5) عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ” جہنم پر ایک دن آئے گا جب اس کے خالی دروازے بھڑبھڑائیں گے اور اس میں کوئی نہ ہوگا یہ اس وقت ہوگا جب لوگ اس میں صد ہا ہزار سال (احقاب) کی مدت پوری کرلیں گے۔ “ (6) عبدالرزاق ، ابن منذر ، طبرانی اور بیہقی کی کتاب الاسماء والصفات میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ یا ابوسعید خدری صحابی یا کسی اور صحابی نے فرمایا کہ : الا ماشاء ربک کا استثنی پورے قرآن پر حاوی ہے یعنی جہاں جہاں میں (خالدین فیھا) (سدا اس میں رہیں گے) ہے وہاں مشیت الٰہی کا استثنیٰ قائم ہے۔ (7) حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ ” ’ وزخ پر ایک زمانہ آئے گا جب اس کے خالی دروازے کھڑکھڑائیں گے۔ “ لفظ (خالدین فیھا ابداً ) پر دفعہ شبہہ قرآن پاک میں ایسی بھی چند آیتیں ہیں جن سے لوگوں کو دوزخ کے دوام کا خیال ہوا ہے۔ مثلاً وہ تین آیتیں جن میں کفار کو (خلدین فیھا ابداً ) ہمیشہ کے لئے عذاب کی دھمکی دی گیء ہے۔ (1) ان اللہ لعن الکافرین واعدلھم سعیراً خالدین فیھا ابداً ) (الاحزاب : 46 ، 56) ” بیشک خدا نے کافروں پر لعنت کی اور ان کے لئے وہ آگ مہیا کی جس میں وہ ہمیشہ پڑے رہیں گے۔ “ (2) (ومن یعص اللہ و رسولہ فان لہ نار جھنم خالدین فیھا ابداً ) (جن : 32) ” اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو اس کے لئے جہنم کی وہ آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ پڑا رہے گا۔ “ (3) (آیت النساء : 962) ” بیشک جنہوں نے کفر کیا اور حد سے آگے بڑھے نہیں ہے کہ اللہ ان کو بخشے اور نہ یہ کہ ان کو راہ دکھائے لیکن جہنم کی راہ جس میں وہ ہمیشہ پڑے رہیں۔ “ ان تینوں آیتوں میں (خالدین فیھا ابداً ) ” دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔ “ کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ جن کے حق میں یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں وہ اس وقت تک دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے جب تک حسب مشیت الٰہی دوزخ کا خاتمہ کا دور نہیں آئے گا۔ (باقی چند آیتوں میں (ابداً ) ” ہمیشہ “ کے بغیر صرف (خالداً ) ہے جیسے : (ھم فیھا خالدون) ” وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ “ یا ایک جگہ ہے : (وذوقوا عذاب الخدبما کنتم تعملون) (السجدۃ : 41) ” اور ” خلود “ کے عذاب کا مزہ چکھو۔ “ تو یہاں ایک بات سمجھ لینی چاہئے کہ خلود کے دو معنی ہیں ایک حقیقی دوام اور دوسرے قیام طویل ، ان دو میں سے کسی ایک معنی کی تخصیص قرینہ سے ہوگی اسی دوسرے معنی کے اعتبار سے عربی اشعار میں پہاڑوں اور بدویانہ چوکھوں کے پتھروں کے لئے خوالد اور خالدات کے لفظ صفت میں آتے ہیں کیونکہ وہ تادیر اور زمانہ دراز تک باقی رہنے والے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ تنہا (خالدین) کا لفظ ابدیت کے مفہوم میں صریح نہیں جب تک اس کے ساتھ کوئی اور قرینہ قائم نہ ہو جو دوام کے معنی کی تخصیص کر دے جیسا کہ یہ قرینہ ان آیتوں میں ہے ، جہاں اہل جنت کو (خالدین) کہا گیا ہے کہ تقریباً بیس آیتوں میں اس خلود کے معنی دوام اور عدم انقطاع کے بتائے گئے ہیں ، اس لئے جنت کے سلسلہ میں جہاں صرف (خلدین) بھی ہے وہ ہمیشگی اور دوام ہی کے معنی لئے جائیں گے برخلاف اس کے جہاں دوزخ کے ساتھ (خلدین) کا لفظ ہے وہاں دوام کے مفہوم کے لئے کوئی قرینہ موجود نہیں۔ اس لئے دوزخ والی آیتوں میں خلود سے مقصود یہ ہے کہ گنہگار زمانہ دراز تک دوزخ میں رہیں گے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ گنہگار اہل ایمان کی سزا میں کبھی (خلدین) کے ساتھ (ابداً ) استعمال نہیں کیا گیا۔ گنہگار اہل ایمان میں سب سے بڑی دھمکی اس کو دی گئی ہے جس نے کسی مسلمان کا خون بےسبب بہایا ہو مگر اس کے لئے بھی (خالدین) کے ساتھ (ابدا) استعمال نہیں کیا گیا ، فرمایا : (آیت) (النساء : 39) ” اور جو کوئی کسی با ایمان کو قصدا قتل کرے گا تو اس کا بدلہ دوزخ ہے جس میں وہ (خالداً ) (یعنی مدت دراز تک پڑا) رہے گا۔ “ یہی سبب ہے کہ معتزلہ اور خوارج کے سوا تمام اہل اسلام اس بےگناہ مسلمان مقتول کے قاتل کی بالآخر بخشائش کے قائل ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان آیتوں میں خلود سے مراد ” ہمیشگی “ نہیں ہے بلکہ زمانہ دراز ہے کہ اہل توحید کی بالآخر نجات قرآن و حدیث کی متفقہ تعلیم ہے اور اس لئے مومن کے لئے اس کے کسی جرم کی سزا میں ہمیشگی کا مفہوم دراخل ہی نہیں ہو سکتا۔ بناء بریں ان آیتوں میں ” خلود “ کے معنی منطقی دوام نہیں بلکہ عرفی دوام یعنی مدت دراز کے ہیں۔ ہم عام طور سے مجرم کے لئے ” حبس دوام “ کی قانونی اصلاح بولتے ہیں جس سے مراد ابد تک کیا قیامت تک کا زمانہ بھی نہیں ہو سکتا کہ عمر بھر بھی نہیں بلکہ صرف اس سے قانونی قید کی دراز ترین مدت مراد ہے جس کا قانونی اندازہ بیس سال کیا گیا ہے ، کتنے مجرم ہیں جو اس مدت کو کاٹ کر آزادی حاصل کرتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو کسی شاہی پٹھو عام کے سلسلہ میں قبل از مدت رہئای پا جاتے ہیں۔ دو چار آیتیں ایسی بھی ہیں جن میں مذکور ہے کہ یہ گنہگار دوزخ سے الگ نہ ہوں گے چناچہ وہ آیتیں حسب ذیل ہیں : (1) (آیت ) (الانفطار : 41 تا 61) ” بیشک گنہگار دوزخ میں ہیں وہ انصاف کے دن اس میں داخل ہوں گے اور وہ اس سے چھپے نہیں رہ سکتے۔ “ (2) (آیت) (البقرۃ : 761) ” اور کہیں گے کاش ہم کو دوبارہ دنیا کی زندگی ملتی تو ہم اپنے پیشوائوں سے ہی الگ ہوجاتے جیسے وہ ہم سے یہاں الگ ہوگئے۔ اللہ ان کے کاموں کو ایسے ہی حسرتیں بنا کر ان کو دکھائے گا اور وہ دوزخ سے نکلنے والے نہیں۔ “ (3) (آیت) (المائدہ : 63 ، 73) ” بیشک جنہوں نے کفر کیا۔ اگر ان کی ملکیت میں کل روئے زمین ہو اور اتنا ہی اور ہوتا کہ اس کو فدیہ دے کر قیامت کے عذاب سے رہائی پائیں تو وہ ان کی طر سے قبول نہ ہو اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے ، وہ چاہیں گے کہ دوزخ سے نکل جائیں لیکن وہ اس سے نکلنے والے نہیں اور ان کے لئے قائم عذاب ہے۔ “ ) (4) (آیت) (الحج : 22) ” جب وہ چاہیں اس دوزخ سے غم کی وجہ سے نکل پڑیں وہ اس میں لوٹا دیئے جائیں گے اور (کہا جائے گا) کہ جلنے کی سزا چکھو۔ “ (5) (آیت ) (السجدۃ : 02) ” اور لیکن جنہوں نے نافرمانی کی تو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے جب وہ چاہیں گے کہ وہ اس سے نکل جائیں اس میں لوٹا دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ دوزخ کی اس مار کا مزہ چکھو جس کو تم جھٹلاتے تھے۔ “ یہ وہ پانچ آیات ہیں جن سے بعضوں کو عذاب دوزخ کے دوام اور غیر مقنطع بقا کا خیال پیدا ہوا ہے مگر ان میں سے ایک ایک آیت پر غور کرو تو ان کے خیال کی غلطی فوراً معلوم ہوجائے گی۔ پہلی آیت کا منشا اسی قدر ہے کہ کوئی گنہگار اگر یہ سمجھے کہ وہ کسی جگہ چھپ کر دوزخ کے عذاب سے بچ جائے گا تو یہ محال ہے کہ عذاب سے چھپ کر بچ جانا کسی طرح ممکن نہیں۔ دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ دوزخی کہیں گے کہ ہم کو دوزخ سے نکل کر دوبارہ دنیا میں جانے دیا جائے تو اب ہم کوئی نیکی کا کام کریں گے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اب یہاں سے نکل کر دنیا میں دوبارہ جانا نہیں ، تیسری آیت میں ہے کہ پورے روئے زمین کی دولت دے کر بھی آخرت میں نجات خریدی جاسکتی اور نہ وہاں سے کوئی نکل کر بھاگ سکتا ہے ، چوتھی اور پانچویں آیت کا صریح مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی دوزخی دوزخ کے عذاب سے گھبرا کر اس سے نکل بھاگنا چاہے گا تو وہ پکڑ کر پھر اسی میں ڈال دیا جائے گا۔ ان آیتوں سے صرف اتنا معلوم ہوا کہ گنہگار از خود دوزخ سے نکل نہ سکیں گے اور نہ مدت عذاب کے اندر وہ خلاصی پا سکتے ہیں ، مگر اس سے اللہ تعالیٰ کے حکم و اجازت سے بالآخر اس نجات پانے کی نفی نہیں نکلتی اور نہ اس کی کہ بقدر گناہ عذاب کی مدت بسر کرنے کے بعد بھی نجات مل سکے اور نہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بہشت کی طرح دوزخ کو بھی غیر متناہی دوام بخشا گیا ہے۔ یہی دو آیت میں ہیں جن سے گنہگاروں کے لئے دوام عذاب کا مفہوم نکالا جاسکتا ہے مگر ایک ایک آیت کو غور سے پڑھو کہ ان میں سے کسی میں بھی دوزخ کے دوام بقا اور عدم فنایا اس کے عذاب کے عدم انتہا کی تصریح ہے حالانکہ اس کے بالمقابل جنت کی بقائے دوام اور عدم انقطاع کی تصریح بار بار اور بتکرار ہے۔ ایک اور نکتہ لحاظ کے قابل ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اللہ نے گنہگاروں کو عذاب دوزخ کی ابدیت اور دوام کی دھمکی دی ہے تاہم اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے کہ نیکی کا بدلہ نہ دینا یقینا برائی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی قدوسیت کا دامن تمامتر پاک ہے کہ : (انک لاتخلف المیعاد) (آل عمران : 491) ” تو وہ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا “ (انہ کان وعدہ ماتیاً ) (مریم : 16) ” اس کا وعدہ جنت پورا ہی ہوگا “ لیکن اگر برائی کا بدلہ حسب تہدید سابق برائی کے ساتھ نہ دیا جائے تو حقیقت میں خلاف وعدگی نہیں جو قابل ملامت ہو بلکہ اس کا نام مغفرت ، کرم ، عطا اور عفو ہے ، جس کا اہل اس رحمٰن و رحیم اور عفو و غفور سے بڑھ کر کوئی دوسرا نہیں ، اس لئے گنہگاروں کے ساتھ جیسا کہ اس نے فرمایا حکمت و مصلحت کی بنا پر وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ چناچہ مسند ابو یعلی میں حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ نے کسی نیک کام پر جس ثواب کا وعدہ فرمایا ہے وہ اس کو ضرور ہی پورا کرے گا لیکن جس کسی کو اس کے کسی کام پر عذاب کی دھمکی دی ہے تو اس کو اختیار حاصل ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر بالآخر گناہوں کی مغفرت اور اللہ کی رحمت میں یہ وسعت اور عموم ہے کہ بڑے سے بڑے گنہگار بھی دوزخ کی آگ میں جل کر بالآخر پاک و صاف اور جنت میں داخل ہونے کے قابل ہوجائیں گے تو اشارات و کنایات کے بجائے ان کی معافی کی صریح تصریح کیوں نہیں کردی گئی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایسا کیا جاتا تو یہ ان مجرموں اور گنہگاروں کے حق میں اچھا نہ ہوتا کیونکہ اس سے ان میں ندامت اور توبہ کے رجحان کے بجائے خود سری ، گستاخی اور شوخی پیدا ہوتی اور ان میں آئندہ کے نتائج بد سے نڈر پن اور بےخوفی آجاتی اور ایسا نہ ہوتا تنبیہ و صلاح وتدارک کی مصلحتوں کے سراسر منافی ہوتا اس لئے ان کی قانونی سزا تو اللہ تعالیٰ نے دائمی عقاب مقرر فرمائی لیکن آخر کار ان کی نجات کو اپنی مشیت اور علم و مصلحت کے سپرد فرما کر ان کو ایک گونہ اپنے سے ناامید بھی نہ ہونے دیا اور امید و پیہم کی حالت میں رکھ کر اپنے سامنے جھکنے اور محبت کرنے کا جذبہ بھی پیدا کردیا اور یہ اس باب میں وہ عظیم الشان اصلاح ہے جس کو ایک طرف عیسائیوں نے کفارہ کی اور دوسری طرف ہندو مذہب نے کرم کی تعلیم دے کر غارت کردیا تھا۔ عیسائیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مصلوب ہو کر جی اٹھنے پر ایمان لانے سے تمام گناہ دفعتاً معاف ہوجاتے ہیں۔ اس تعلیم نے اعمال کو غیر ضروری چیز ٹھہرا دیا تھا ۔ اس کے برخلاف ہندو مذہب نے خدا کو اتنا بےاختیار ٹھہرایا کہ اعمال بد کے نتائج جن کو کرم کہتے ہیں خدا چاہے بھی تو معاف نہیں ہو سکتے۔ اسلام نے آکر ترازو کے ان دونوں پلوں کو بربار کردیا۔ ایک طرف فرمایا : (کل نفس بما کسبت رھینۃ) ” ہر نفس اپنے عمل کے ہاتھ میں گرو ہے “ (المدثر : 83) اور دوسری طرف فرمایا : (یغفر لمن یشآء و یعذب من یشآء) (المائدہ : 81) ” اللہ جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے عذاب دے “ یعنی قانوناً ہر انسان اپنے عمل کے نتائج کا یقینا پابند ہے مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت اس قانون کے باوجود جو چاہے کرسکتی ہے جس طرح اس دنیا کا حال ہے کہ اگر اللہ کے بنائے ہوئے قانون یہاں جاری ہیں ، جن کو آپ قانون فطرت کہتے ہیں مگر بایں ہمہ اس کا حکم اور اس کی خواہش اور مصلحت ان پر بھی کم ہے اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے ، اس تعلیم نے ایک طرف اعمال کو غیر ضروری ہونے سے بچالیا اور دوسری طرف اللہ کی قدرت تام اور رحمت عام کا دروازہ بھی کھلا رکھا۔ عذاب طویل کا سبب ؟ بعض کم فہم یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انسان کا گناہ تو ایک لمحہ کا کام ہے پھر اس کا عاقب اتنا طویل کیوں رکھا گیا ، سال دو سال یا عمر بھر کے گناہ کی سزا صد ہا اور ہزار رہا سال کے عقاب سے دینا مناسب نہیں حالانکہ یہ لوگ اگر دنیاوی واقعات ہی پر غور کرتے تو وہ ان کی تسکین کے لئے کافی ہوتے۔ دنیا کے ہر بڑے سے بڑا قانونی گناہ ایک لمحہ میں انجام پا جاتا ہے ، چوری ، عمل خلاف قانون یا کسی کو قتل کرتے کتنی دیر لگتی ہے ؟ مگر اس کے معاوضہ میں سالہا سال کی قید ہم خود اپنی عدالت گاہوں میں تجویز کرتے ہیں اور اس کو خلاف عقل نہیں کہتے۔ دوسری صحیح تر مثال یہ ہے کہ انسان کو دیکھو کہ ذرا سی جسمانی بد پرہیزی اور اصول صحت کی معمولی سی غلطی کی پاداش میں و کبھی ہفتوں ، مہینوں بلکہ سالہا سال بیمار ہوتا ہے اور مدت دراز میں جا کر کہیں ان چند لمحوں کی غلطی کی تلافی کر پاتا ہے اور کبھی اس معمولی غلطی کی بدولت عمر بھر اس کے روک میں مبتلا رہتا ہے اور آخر میں جان دے دیتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ گناہ اور اس کی تلافی کی مدت میں یکسانی نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ غلطی کی مدت کے مقابلہ میں اس کی تلافی کی مدت صدہا اور ہزارہا گنا زیادہ ہوتی ہے کیونکہ طبیعت پر جو اثر پڑجاتا ہے اس کی تلافی کی مدت غلطی نوعیت ، طبیعت کی صلاحیت اور خلاق عالم کی مصلحت کی بنا پر مختلف ہوتی ہے اسی لئے عاقب طویل سے رہائی یا شفا یابی کی مدت بھی ہر گنہگار کے لئے یکساں نہیں ہو سکتی۔ واللہ اعلم بحقیقۃ الحالہ۔ مشرک و کافر کا آخر انجام : اگر یہ صحیح ہے کہ بالآخر ایک دن جہنم کی آگ سرد ہوجائے گی تو کیا اہل کفر و شرک بھی اپنے گناہوں سے پاک ہو کر رحم و کرم کے سزا وار ہوجائیں گے ؟ جواب یہ ہے کہ : قرآن پاک میں اس کی تصریح موجود ہے کہ شرک و کفر کا گناہ معاف نہ ہوگا یعنی اس کے اخروی نتائج کی پاداش ضروری ہے اور یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ شرک و کفر کی جزاء و دوام عذاب اور خلود نار (خلدین فیھا ابداً ) ہے۔ یعنی جب تک دوزخ قائم ہے اس سے ان کو نجات نہیں مل سکتی مگر جب حسب مشیت الٰہی وہ دن آئے کہ وہ دوزخ کی مدت حیات ختم ہوجائے تو اس وقت عجب نہیں کہ ان کو بھی ان سے رہنمائی مل سکے۔ چنانچہ مشرکین و کافرین کے ذکر میں اللہ فرماتا ہے : (الانعام : 821) ” فرمائے گا دوزخ کی آگ تمہارا ٹھکانا ہے اس میں ہمیشہ رہو گے مگر یہ کہ جو چاہے اللہ ! بیشک تیرا پروردگار حکمت اور علم والا ہے۔ “ اس آیت کا آخری ٹکڑا خاص طور سے غور کے قابل ہے۔ فرمایا ” تیرا رب حکمت اور علم والا ہے “ اس موقع پر اللہ کے لئے خاص طور سے غور کے قابل ہے۔ فرمایا ” تیرا رب حکمت اور علم والا ہے “ اس موقع پر اللہ کے لئے خاص طور سے (رب) کا لفظ لانا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس کی شان ربوبیت اگر چاہے گی اور اس کے غیر محدود علم و حکمت کا اقتضا ہوگا تو دوزخ کے خاتمہ پر ان کو رہائی مل سکے گی۔ لیکن اس میں شک ہے کہ آیا اس کے بعد بھی وہ جنت میں داخل ہو سکیں گے کیونکہ حضرت عیسیٰ لعیہ السلام کی زبان سے قرآن پاک میں یہ تصریح الٰہی ہے : (المائدہ : 27) ” یہ کہ بیشک اللہ کا جو شریک بنائے گا تو اللہ نے اسپر جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ “ نیز ایک اور آیت میں ہے : (آیت ) (اعراف : 04) ” بیشک جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان کے ماننے سے غرور کیا تو ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے تا آنکہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہوجائے۔ “ الغرض اللہ کے اعلان کردہ قانون جزاء کا اقتضاء تو یہی ہے کہ گو دوزخ کے عذاب کا خاتمہ ہوجانے پر بھی جنت کے احاطہ میں ان کا گزر نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کا دائرہ بہت وسیع ہے ، جیسا کہ خود اس نے اہل دوزخ کی نسبت کہا ہے کہ : (آیت) (ھود : 701) ” وہ سدا دوزخ میں رہیں گے لیکن تیرا رب جو چاہے بیشک تیرا رب جو چاہے کر گزرتا ہے۔ “ اس دائرہ کی وسعت کو کون کم کرسکتا ہے کیونکہ اپنی رحمت کی وسعت کی نسبت اس کا اعلان یہ ہے : (آیت) (الاعراف : 651) ” اور میری رحمت ہر شے کو اپنی گنجائش میں لئے ہے۔ “ اس رحمت عام کی وسعت سے آسمان و زمین کا کون سا گوشہ محروم ہے ؟ اس سے بڑھ کر یہ کہ پیغمبر کے جھٹلانے والوں کی نسبت اللہ فرماتا ہے : (آیت) (الانعام : 841) ” تو (اے پیغمبر ﷺ اگر وہ تجھ کو جھٹلائیں تو کہہ دے کہ تمہارا پروردگار وسیع رحمت والا ہے اور اس کا عذاب گنہگار دل سے لوٹایا نہیں جاسکتا ۔ “ یعنی کسی دوسرے میں یہ طاقتن ہیں کہ اس کے بھیجے ہوئے عذاب کو گنہگاروں کے سر سے ٹال دے لیکن خود اس کی رحمت بڑی وسیع ہے وہ چاہے تو ان کو دنیا ہی میں ہدایت دے کر جنت نصیب کرے یا آخرت میں عذاب دینے کے بعد درگزر کر دے اور اس کی اصلی رحمت کا محل وہی ہے جہاں کسی دوسرے رحمت کا وجود نہ ہوگا ، فرمایا : (الانعام : 61) ” جس سے اس دن عذاب ہٹایا گیا تو اللہ نے اس پر رحم کیا۔ “ صحیح بخاری و مسلم و ترمذی میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر مومن کو معلوم ہو کہ اللہ کے پاس کتنا عقاب ہے تو وہ جنت سے مایوس ہوجائے اور کافر کو یہ معلوم ہو کہ اس کی رحمت کتنی وسیع ہے تو وہ بھی جنت سے ناامید نہ ہو۔ سعدی شیرازی نے غالبا ً اسی حقیقت کو اپنے ان دو اشعار میں ادا کیا ہے۔ بہ تہدید اگر برکشد تیغ حکم بما نند کرد بیاں صم و بکم دگر در دہد یک صلائے کرم عزازیل گوید نصیبے کرم خود اس رحمٰن و رحیم کا جس کی بادشاہی آسمان و زمین کو محیط ہے ۔ یہ ارشاد ہے کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ (آیت) (المائدہ : 81) ” جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جس کو چاہے عذاب دیتا ہے اور آسمانوں کی اور زمین کی اور ان کے بیچ کی بادشاہی اللہ کے لئے ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ “ لیکن اس کی یہ مشیت جیسا کہ اس نے (الانعام رکوع 51) میں فرمایا ہے اس کی وسیع حکمت و مصلحت پر مبنی ہے ، وہ جو چاہے کرسکتا ہے مگر کرتا وہی ہے جو اس کی مصلحت و حکمت کا تقاضا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ اس بات میں کچھ اور کہنا حد سے آگے بڑھنا ہے کہ جس کی تصریح خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی اس کی تصریح کا حق کسی کو کیا ہے اس لئے مشرک و کافر کے آخر انجام کے سوال کا جواب صرف مشیت الٰہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : (آیت) (الانعام : 921) ” ’ وزخ تمہارا ٹھکانا ہے اس میں سدا رہو گے لیکن جو چاہئے اللہ بیشک تیرا پروردگار حکمت والا اور علم والا ہے۔ “ خیال رہے کہ اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ ہم اہل دوزخ کی ترجمانی کر رہے ہیں اور ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دوزخ میں انجاماً کوئی ایک شخص بھی نہیں رہے گا اور اجاڑ و ویران ہوجائے گی۔ دوزخ کی اجاڑ ہونے اور ویران ہونے کا مفہوم سمجھنے کے لئے آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک گھر میں جب بیسیوں لوگ رہ رہے ہوں اور ان میں سے دو تین یا چار پانچ ہی رہ جائیں تو کیا اس کو اجاڑ اور ویران گھر نہیں کہا جاتا ؟ کیوں نہیں یہ تو روزہ مرہ زندگی میں ایک تجربہ کی بات ہے کہ بیسیویں آدمیوں میں سے ایک دو تین ہی چلے جائیں تو گھر ویران ہوجاتا ہے اور ہم نے اپنے کئی گھر ویران ہوتے دیکھے ہیں۔ ہم صرف یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ گناہگاروں کی بہت اقسام ہیں اور ان کا دوزخ جانا بھی محقق ہے لیکن واں سے بہت سی اقسام کا نکلنا ثابت ہے اگرچہ وہ ہزارہا سال کے بعد ہی کیوں نہ ہو کیوں نہ ہو اور صرف ایک قسم انسانوں کی ایسی ہے جو شکل و صورت کے لحاظ سے تو انسان ہی ہوں گے لیکن ان کی اصلیت انسانوں کی سی نہیں بلکہ اس ایندھن کی سی ہوگی جس کو جلانے کے لئے ہر ایک آدمی بغیر کسی حیل و حجت تیار ہوجاتا ہے اور کبھی کسی کو اس بات کا خیال تک نہیں آیا کہ میں ان اوپلوں کو اور گھاس پھوس کو اور ان تنکوں و نکوں کو کیوں جلانے کے لئے جمع کر رہا ہوں بلکہ اس کوڑے کرکٹ کو جلا دینا ہی ہر آدمی کو اچھا اور بھلا لگتا ہے اور ہر آدمی محسوس کرتا ہے کہ اس کا اس طرح جمع ہو کر پڑا رہنا کسی حال میں بہتر نہیں ہے۔ اس لئے و لوگ جن کی صورت حال اس طرح کی ہوگی وہ دوزخ میں پڑے جلتے اور سڑتے رہیں گے لیکن ان نفوس کے واں رہنے کے باوجود وہ اجاڑ اجاڑ اور ویران ہی نظر آئے گی اور اس طرح دوزخ میں ہمیشہ رہنے والے فقط کافر نہیں بلکہ وہ کافر ہونے کے ساتھ مشرک بھی ہوں گے جو بای رہ جائیں گے اور ظاہر ہے کہ جب وہ باقی رہے تو دوزخ کا باقی رہنا خود بخود ثابت ہوگیا اگرچہ وہ سیکٹر (Condense) کر کتنی ہی کم کردی جائے گی اور یہ بات مندرجہ ذیل آیات کریمات سے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ یاد رہے کہ ان آیات میں جہاں جہاں بھی ظلم کا لفظ ہے اس سے مراد شرک ہی ہے۔ ظلم کی کئی اقسام ہیں لیکن سب اقسام میں سے وہ ظلم ناقابل معافی ہے جس کا دوسرا نام اسلام میں شرک رکھا گیا ہے۔ اس کی تشریح آیات درج ذیل سے ہوتی ہے : (1) (آیت) (الاحزاب : 46 ، 56) ” بیشک اللہ نے کافروں پر لعنت کی اور ان کے لئے وہ آگ مہیا کی جس میں وہ ہمیشہ سدا پڑے رہیں ۔ “ (2) (الجن : 32) ” اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرماین کرے گا تو اس کے لئے جہنم کی آگ ہے وہ اس میں ہمیشہ سدا پڑے رہیں۔ “ (3) (آیت) (النساء : 961) ” بیشک جنہوں نے کفر کیا اور حد سے آگے بڑھے ، نہیں ہے کہ اللہ ان کو بخشے اور نہ یہ کہ ان کو راہ دکھائے لیکن جہنم کی راہ اس میں وہ ہمیشہ سدا پڑے رہیں۔ “ ان آیات سے معلوم ہوا کہ ان پر ہمیشہ عذاب ہوگا اور جب عذاب ہمیشہ ہوگا تو عذاب کی جگہ یعنی دوزخ بھی ہمیشہ قائم رہے گی۔ ان آیات کے علاوہ اور بھی دوسری آیات ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ کا عذاب کفار سے کبھی دور نہ ہوگا۔ (1) (آیت) (المائدہ : 63 ، 73) ” بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ، اگر بالفرض ان کے پاس ساری دنیا کا خزانہ ہو اور اتنا ہی اس کے ساتھ اور تاکہ وہ اس کو فدیہ دے کر قیامت کے دن کے عذاب سے چھٹ جائیں تو ان سے یہ فدیہ قبول نہ کیا جائے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے چاہیں گے کہ دوزخ سے نکل جائیں اور وہ اس سے نہیں نکل سکیں گے اور ان کے لئے قائم رہنے والا عذاب ہے۔ (2) (وما ھم بخار جین من النار ) (البقرہ : 761) ” و دوزخ سے نکل نہیں سکیں گے۔ “ (3) (فالیوم لایخرجون منھا ولا یستعتبون ) (الجاثیہ : 53) ” تو آج اس (دوزخ) سے وہ نہیں نکالے جائیں گے اور نہ ان کا عذر سنا جائے گا۔ “ (4) الا ان الظالمین فی عذاب مقیم ) (الشوری : 54) ” ہاں کافر اور مشرک قائم رہنے والے عذاب میں ہوں گے۔ “ ظلم کا اطلاق قرآن مجید میں شرک پر کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اہل شرک کا عذاب قائم رہے گا۔ (5) (آیت) (البقرہ : 161 ، 261) ” بیشک جنہوں نے کفر کیا اور اسی کفر کی حالت میں مر گئے ان پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور آدمی میں کی سب کی لعنت ہے۔ اس میں وہ سدا رہیں گے ، ان کے عذاب میں کمی نہیں کی جائے گی اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی۔ “ (6) (فاطر : 63) ” اور ان کے لئے جنہوں نے کفر کیا جہنم کی آگ ہے نہ تو ان کا فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں اور نہ سزا میں کچھ کمی کی جائے گی۔ “ شرک و کفر والوں کی مغفرت کسی حال میں نہ ہوگی ، فرمایا : (7) (النساء : 911) ” بیشک اللہ اس کو معاف نہ کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے۔ “ (8) (محمد : 43) ” بلاشبہ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستہ سے روکا اور اسی کفر کی حالت میں وہ مر گئے تو ان کو ہرگز معاف نہ کیا جائے گا۔ “ ان کے لئے جنت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہے۔ (9) (المائدہ : 37) ” یقینا جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ “ (01) (آیت) (الاعراف : 04) ” بیشک جنہوں نے ہمارے حکموں کو جھٹلایا اور ان کے ماننے سے سرکشی کی ، ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے نہ جائیں گے اور نہ جنت میں وہ داخل ہوں گے تا آنکہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں گھس جائے۔ “ (11) (آل عمران : 671) ” اور اے پیغمبر ﷺ تجھے وہ لوگ جو کفر میں جلدی کرتے ہیں غم میں نہ ڈالیں ، وہ ہرگز اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، اللہ چاہتا ہے کہ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہ بنائے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ “ اس قسم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ مرتے دم تک شرک و کفر میں ‘ مبتلا رہے اور توبہ نہیں کی ، ان کا گنا بخشا نہ جائے گا اور وہ جنت میں کبھی داخل نہ ہو سکیں گے بلکہ ہمیشہ دوزخ کے عذاب میں پڑے رہیں گے ، جہاں نہ ان کے عذاب میں کبھی تخفیف ہوگی اور نہ ان کو موت آئے گی۔
Top