Al-Qurtubi - An-Naba : 23
لّٰبِثِیْنَ فِیْهَاۤ اَحْقَابًاۚ
لّٰبِثِيْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہیں فِيْهَآ : اس میں اَحْقَابًا : مدتوں
اس میں وہ مدتوں پڑے رہیں گے
لبثین فیھا احقابا۔ جب تک احقاب رہیں گے وہ آگ میں ہی رہیں گے اور احقاب ختم نہ ہوں گے جب ایک حقب ختم ہوگا تو دوسرا شروع ہوجائے گا حقب سے مراد زمانہ ہے اور احقاب سے مراد کئی زمانے ہیں، حقب کا معنی سال ہے اس کی جمع حقب آتی ہے۔ متمم بن نویرہ تمیمی نے کہا، کنا کندمانی جدیمہ حقبۃ، من الدھر حتی قیل لن یتصدعا، فلما تفرقنا کانی ومالکا، لطول اجتماع لم نبت لیلۃ معا۔ ہم دونوں ایک زمانہ جذیمہ کے دو ساتھیوں کی طرح رہے یہاں تک کہ یہ کہا گیا وہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے جب ہم جدا ہوئے گویا میں اور مالک طویل اجتماع کی وجہ سے ایک رات بھی اکٹھے نہ رہے۔ حقب قاف کے ضمہ اور سکون کے ساتھ اسی سال کا عرصہ ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے اس سے کم یاس سے زیادہ جیسا کہ بعد میں آئے گا اس کی جمع احقاب ہے آیت میں اس کا معنی ہے وہ جہنم میں آخرت کے حقب ہیں گے جن کی کوئی انتہا نہیں آخرت کا لفظ حذف کردیا گیا ہے کیونکہ سیاق کلام اس پر دلالت کرتا ہے کیونکہ کلام میں آخرت کا ذکر ہے، یہ کلام اس طرح ہے جس طرح کہا جاتا ہے، ایام الاخرہ، یعنی ایام کے بعد ایام جن کی کوئی انتہا نہیں یہ کلام تعین پر تب دلالت کرتی اگر یہ کہا جاتا ہے، پانچ احقاب یادس احقاب وغیرہ۔ اعقاب کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک حقب لمبی مدت تھی، اس کے ساتھ اس لیے گفتگو کی گئی جس کی طرف ان کے اوہام جاسکتے تھے اور لوگ اسے پہنچانتے تھے یہ ہمیشگی سے کنایہ ہے یعنی وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ ایام کی بجائے احقاب کا ذکر کیا، کیونکہ احقاب دلوں میں زیادہ ہولناکی پیدا کرتا ہے، اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے معنی قریب قریب ہے یہ ہمیشگی کا حکم مشرکین کے حق میں ہے آیت کو ان نافرمانوں پر بھی محمول کرنا ممکن ہے جو طویل زمانہ کے بعد جہنم سے نکلی گے ایک قول یہ کیا گیا ہے، احقاب سے مراد وہ وقت ہے جس میں وہ کھولتا ہوا پانی اور پیپ پئیں گے جب وہ غصہ ختم ہوجائے گا تو ان کے لیے ایک اور عذاب ہوگا اس لیے یہ ارشاد فرمایا، لبثین فیھا احقابا، لایذوقون فیھا بردا ولاشرابا، الاحمیما وغساقا۔ لبثین، یہ لبث سے اسم فاعل ہے اس کی تائید یہ قول بھی کرتا ہے کہ اس کا مصدر بعثت ہے جس طرح شراب، حمزہ اور کسائی نے لبثین الف کے بغیر پڑھا ہے یہ قرات ابوحاتم اور ابوعبید کی ہے، یہ بھی دونوں لغتیں ہیں جس طرح یہ کہا جاتا ہے رجل لابث، لبث اس طرح، طمع، طامع، اور فرہ، فارہ ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے، ھولبث بمکان کذا۔ یعنی ٹھہرنا اس کا عمل رہا، اسے تشبیہ دی گئی ہے اس چیز کے ساتھ جس کی انسان میں خلقت ہوتی ہے جس طرح حذر، فرق کیونکہ فعل کا باب عموما اس چیز کے لیے بولا جاتا ہے جن کی کسی شی میں خلقت ہو اسم فاعل میں یہ چیز نہیں ہوتی۔ حقب سے مراد اسی سال ہے یہ ابن عمر، ابن محیصن اور حضرت ابوہریرہ کا نقطہ نظر ہے، سال تین سوساٹھ دن کا ایک دن دنیا کے دنوں کے لحاظ سے ایک ہزار کا ہوگا، یہ حضرت ابن عباس کا نقطہ نظر ہے حضرت ابن عمر سے یہی مرفوع روایت ہے، حضرت ابوہریرہ نے کہا، سال تین سوساٹھ دن کا ہوگا اور ہر دن دنیا کے دنوں جیسا ہوگا، حضرت ابن عمر نے کہا، حقب سے مراد چالیس سال ہیں سدی نے کہا، ستر سال، ایک قول یہ کیا گیا ہے ایک ہزار ماہ، ابوامامہ نے سے مرفوع نقل کیا ہے بشیر بن کعب نے کہا، تین سوسال، حضرت حسن بصری نے کہا، احقاب کتنے ہیں تم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا لیکن انہوں نے ذکر کیا کہ اس سے مراد سو حقب ہیں ایک ایک حقب ستر ہزار سال ہیں ان میں سے ایک دن ان کا ایک ہزار سال کی طرح ہے، جس کو تم شمار کرتے ہو ابوامامہ نے نبی کریم سے روایت نقل کی ہے، ایک حقب تیس ہزار سال کا ہے یہ مہدوی نے ذکر کیا ہے پہلاقول ماوردی کا ہے قطرب نے کہا، اس سے مرادطویل غیر محدود زمانہ ہے، حضرت عمر بن خطاب نے کہا، نبی کریم نے ارشاد فرمایا، اللہ کی قسم جو جہنم میں داخل ہوگا وہ جہنم میں سے نہیں نکلے گا یہاں تک کہ وہ اس میں کئی زمانہ رہے گا، حقب سے مراد اسی سے زیادہ سال ہیں، سال تین سوساٹھ دن کا ہے اور اس کا ہر دن ان ہزاروں سالوں کی طرح ہے جسے تم شمار کرتے ہوتوتم میں سے کسی کو بھی اس بات پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ جہنم سے نکلے گا یہ ثعلبی نے ذکر کیا ہے قرظی نے کہا، احقاب سے مراد تنتالیس حقب ہیں، ہر حقب ستر خریف کا ہے، اور ہر خریف سات سو سال کے برابر ہے ہر سال تین سوساٹھ دنوں کے برابر ہوتا ہے اور ہر دن ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں، یہ اقوال آپس میں متعارض ہیں آیت میں ہمیشگی کا ذکر ہے جو ایسی خبر کی محتاج ہے جو عذر کو ختم کردے نبی کریم سے ایسی کوئی چیز ثابت نہیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے معنی وہی ہے جو ہم نے پہلے ذکر کیا یعنی وہ اس میں کئی زمانے رہیں گے جب بھی ایک زمناہ گزرے گا اس کے پیچھے ایک اور زمانہ آجائے گا ایک دہر گزرے گا تو دوسرا اس کے پیچھے آجائے گا یہ سلسلہ اسی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہے گا۔ ابن کیسان نے کہا : لبثین فیھا احقابا۔ کا معنی ہے جس کی کوئی انتہا نہیں گویا ابدا کا لفظ استعمال کیا ہے، ابن زید اور مقاتل نے کہا، یہ آیت اللہ تعالیٰ کے فرمان، فذوقوا فلن نزیدکم الا عذابا۔ النبا) چکھو ہم تمہارے لیے عذاب کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کریں گے یعنی عدد ختم ہوچکا اور خلود حاصل ہوگیا ہے۔ میں کہتا ہوں، یہ تعبیر بعید ہے کیونکہ وہ خبر ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، ولایدخلون الجنۃ حتی یلج الجمل فی سم الخیاط۔ الاعراف 40) وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ن کے میں داخل نہ ہوجائے جس طرح پہلے گزرا ہے یہ کفار کے حق میں ہے جہاں تک نافرمان موحدوں کا معاملہ ہے تو یہ صحیح ہے تونسخ، تخصیص کے معنی میں ہے، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
Top