Anwar-ul-Bayan - Al-Anfaal : 9
اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُرْدِفِیْنَ
اِذْ : جب تَسْتَغِيْثُوْنَ : تم فریاد کرتے تھے رَبَّكُمْ : اپنا رب فَاسْتَجَابَ : تو اس نے قبول کرلی لَكُمْ : تمہاری اَنِّىْ : کہ میں مُمِدُّكُمْ : مدد کروں گا تمہاری بِاَلْفٍ : ایک ہزار مِّنَ : سے الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے مُرْدِفِيْنَ : ایک دوسرے کے پیچھے (لگاتار)
جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے سو اس نے تمہاری دعا قبول فرمائی کہ میں ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کروں گا جو مسلسل آتے رہیں گے
غزوۂ بدر کے موقعہ پر رسول ﷺ کا دعا میں مشغول رہنا اور آپ کی دعا قبول ہونا قریش مکہ اپنے لشکر اور ساز و سامان اور گانے والی عورتیں لے کر بدر پہنچ گئے۔ یہ لوگ مکہ مکرمہ سے آئے تھے۔ آنحضرت سرور عالم ﷺ بھی مدینہ منورہ سے روانہ ہو کر چند دن میں بدر پہنچ گئے۔ راستہ میں متعدد مراحل میں قیام فرمایا اور حضرت صحابہ سے مشورہ کیا جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔ صاحب روح المعانی ص 172 ج 9 میں بحوالہ مسلم و ابو داؤد و ترمذی حضرت ابن عباس ؓ سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عمر بن الخطاب ؓ نے بتایا کہ بدر کے دن نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ پر نظر ڈالی تو یہ حضرات تین سو دس سے کچھ اوپر تھے (ان حضرات کی مشہور تعداد 313 ہے جیسا کہ صحیح بخاری ص 564 میں ذکر ہے) اور مشرکین پر نظر ڈالی تو وہ ایک ہزار سے کچھ زیادہ تھے آپ نے قبلہ کی طرف رخ کیا پھر ہاتھ پھیلا کر اپنے پروردگار سے خوب زور دار دعا کرتے رہے دعاء کے الفاظ یہ ہیں اللّٰھُمَّ اَنْجِزْلِیْ مَا وَعَدْتَّنِی اَللّٰھُمَّ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَد فِی الْاَرْضِ (اے اللہ آپ نے جو مجھ سے وعدہ فرمایا ہے پورا فرمائیے اے اللہ اگر مسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین میں آپ کی عبادت نہ کی جائے گی) ۔ مطلب یہ تھا کہ یہ اہل اسلام کی مختصر سی جماعت ہے اگر یہ ہلاک ہوگئے تو جو ان کے پیچھے مدینہ منورہ میں رہ گئے ان میں بھی کمزوری آجائے گی اور ایمان و اسلام کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا پھر آپ کی عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ آپ نے یہ بات نیاز کے انداز میں بار گاہ الٰہی میں عرض کردی ورنہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اگر کوئی بھی نہ کرے اور کبھی بھی نہ کرے تو اس بےنیاز وحدہٗ لا شریک کو کوئی ضرر یا نقصان نہیں پہنچ سکتا (وہ کسی کی عبادت کا محتاج نہیں) آپ قبلہ رخ ہو کر ہاتھ پھیلائے ہوئے برابر اس دعاء میں مشغول رہے یہاں تک کہ آپ کی چادر بھی آپ ﷺ کے کاندھوں سے گرگئی۔ حضرت ابوبکر ؓ حاضر خدمت ہوئے اور آپ کی چادر لے کر آپ کے مونڈھوں پر ڈال دی پھر آپ سے چھٹ گئے اور عرض کیا یا نبی اللہ ! بس کیجیے آپ نے جو اپنے رب سے بہت زور دار دعا کی ہے یہ کافی ہوگئی۔ بیشک آپ کا رب وعدہ پورا فرمائے گا۔ اس پر یہ آیت (فَاسْتَجَابَ لَکُمْ ) نازل ہوئی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری دعا قبول فرمائی اور ایک ہزار فرشتوں کے ذریعے مدد کرنے کا وعدہ فرمایا جو مسلسل آگے رہیں گے، لفظ مردفین کا ایک معنی تو وہی ہے جو ہم نے ابھی لکھا (کہ مسلسل آتے رہیں گے) اور اس لفظ کے دوسرے معانی بھی مفسرین نے بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر فرشتے کے پیچھے ایک ایک فرشتہ ہوگا۔ (و ھو قریب من الاول) فرشتوں کا نازل ہونا اور مومنین کے قلوب کو اطمینان ہونا صاحب روح المعانی نے بحوالہ ابن جریر حضرت علی ؓ سے نقل کیا ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) ہزار فرشتوں کو لے کر نازل ہوئے جو نبی اکرم ﷺ کے داہنی طرف تھے اور اسی جانب حضرت ابوبکر ؓ بھی تھے اور میکائیل (علیہ السلام) ہزار فرشتوں کو لے کر نازل ہوئے جو نبی اکرم ﷺ کے بائیں طرف تھے اور میں بھی اسی جانب تھا۔ سورۂ آل عمران میں تین ہزار اور پانچ ہزار فرشتوں کا ذکر ہے حضرت قتادہ نے فرمایا کہ اولاً ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ مدد کی، پھر تین ہزار فرشتے آئے پھر اللہ تعالیٰ نے پانچ ہزار کی تعداد پوری فرما دی۔ پھر فرمایا (وَ مَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشْرٰی وَلِتَطْمَءِنَّ بِہٖ قُلُوْبُکُمْ ) (آل عمران) (فرشتوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو امداد فرمائی یہ محض اس لیے ہے کہ تم لوگوں کو بشارت ہو اور تمہارے دلوں کو اطمینان ہو) فرشتوں کی آمد کی پیشگی خبر ایک بہت بڑی خوشخبری تھی جس سے دلوں کو سکون ہوگیا، طبعی طور پر انسان کو اسباب کے ذریعہ تسلی ہوجاتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسباب کے طور پر فرشتوں کو بھیج دیا گیا۔
Top