Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 9
اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُرْدِفِیْنَ
اِذْ : جب تَسْتَغِيْثُوْنَ : تم فریاد کرتے تھے رَبَّكُمْ : اپنا رب فَاسْتَجَابَ : تو اس نے قبول کرلی لَكُمْ : تمہاری اَنِّىْ : کہ میں مُمِدُّكُمْ : مدد کروں گا تمہاری بِاَلْفٍ : ایک ہزار مِّنَ : سے الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے مُرْدِفِيْنَ : ایک دوسرے کے پیچھے (لگاتار)
جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کرلی (اور فرمایا کہ) (تسلی رکھو) ہم ہزار فرشتوں سے جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے جائیں گے تمہاری مدد کریں گے۔
آیت نمبر : 9۔ 10 قولہ تعالیٰ : آیت : اذتستغیثون ربکم الاستغاثۃ کا معنی مدد اور نصرت طلب کرنا ہے۔ غوث الرجل ( اس نے آدمی کی مدد کی) کہا : واغوثاہ ( اے مدد کرنے والے) اور اس سے اسم غوث، غواث اور غواث ہیں۔ اور استغاثنی فلان فاغشتہ ( فلاں نے مجھ سے مدد طلب کی تو میں نے اس کی مدد کی) اس کا اسم الغیاث ہے، یہ جوہری سے منقول ہے۔ امام مسلم (رح) نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت نقل کی ہے آپ نے بیان فرمایا : جب غزوہ بدر کا دن تھا تو رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کی طرف دیکھا تو ہو ایک ہزار تھے اور آپ ﷺ کے اصحاب تین سو سترہ افراد تھے۔ پس حضور نبی مکرم ﷺ قبلہ شریف کی طرف متوجہ ہوئے، پھر اپنے ہاتھوں کو پھیلایا اور اپنے کریم رب کی بارگاہ میں التجاء کرنے لگے : ” اے اللہ ! میرے لیے وہ وعدہ پورا فرما جو تو نے میرے ساتھ فرمایا ہے (صحیح مسلم، کتاب الجہاد، جلد 2، صفحہ 93) ، اے اللہ ! تو مجھے وہ عطا فرما جو تو نے میرے ساتھ وعدہ فرمایا ہے۔ اے اللہ ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی “۔ پس آپ ﷺ اپنے دست مبارک پھیلا کر اور قبلہ رو ہو کر مسلسل اپنے رب کریم کی بارگاہ میں التجا کرتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے کندھوں سے آپ کی چادر گر گئی۔ پس حضرت ابوبکر صدیق ؓ آگے بڑھے، انہوں نے آپ کی چادر مبارک اٹھائی اور آپ کے کندھوں پر ڈال دی، پھر پیچھے کی جانب سے آپ کو تھام لیا اور عرض کی : یا نبی اللہ ! ﷺ آپ کا اپنے رب کی بارگاہ میں مناجات کرنا اور التجا کرنا آپ کے لیے کافی ہے، یقینا وہ عنقریب آپ کو عطا فرمائے گا جس کے بارے اس نے آپ سے وعدہ فرمایا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آیت : اذتستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملئکۃ مردفین پس اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ساتھ آپ ﷺ کی امداد فرمائی۔ اور حضرت عمر ؓ نے آگے پوری حدیث ذکر کی (مسند امام احمد، حدیث نمبر 208) ۔ مردفین دال کے فتحہ کے ساتھ حضرت نافع (رح) کی قراءت ہے۔ اور باقیوں نے دال کے کسرہ کے ساتھ اسم فاعل کے صیغہ قرار دیا ہے بمعنی متتابعین ( یعنی لگاتار، پے در پے) ہے، یکے بعد دیگرے جماعت آتی رہی اور یہ دکھائی دینے میں زیادہ خوفناک ہے۔ اور دال کے فتحہ کے ساتھ مردفین مفعول مالم یسم فاعلہ کی بنا پر ہے، کیونکہ وہ لوگ جنہوں نے بدر کے دن جنگ لڑی ان کے لیے ایک ہزار فرشتے پرے در پے لائے گئے، یعنی کفار کے مقابلے میں ان کی مدد کے لیے ایک ہزار فرشتے ان کی طرف نازل کیے گئے۔ پس مردفین دال کے فتحہ کے ساتھ الف ( ہزار) کی صفت ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ممدکم میں ضمیر منصوب سے حال ہے ( تقدیر کلام اس طرح ہوگی) ممدکم فی حال اردافکم بالف من الملائکۃ ( میں تمہاری مدد کرنے والا ہوں اس حال میں کہ ایک ہزار فرشتے پے در پے تمہارے پاس آنے والے ہیں) اور یہ حضرت مجاہد (رح) کا مذہب ہے۔ اور ابو عبیدہ نے بیان کیا ہے کہ ردفنی اور اردفنی دونوں کا معنی ایک ہے۔ اور ابو عبید نے اردف بمعنی ردف ہونے کا انکار کیا ہے۔ انہوں نے اللہ عزوجل کے اس ارشاد کی وجہ سے یہ کہا ہے : آیت : تتبعھا الرادفۃ (النازعات) یہاں المردفۃ نہیں کہا۔ نحاس اور مکی وغیرہما نے کہا ہے : دال کو مکسور پڑھنا اولیٰ ہے، کیونکہ اہل تاویل اسی قراءت پر تفسیر بیان کرتے ہیں، یعنی اردف بعضھم بعضا ( ان میں سے بعض بعض کے ردیف بنے، پیچھے آئے) اس لیے کہ اس میں فتحہ کا معنی موجود ہے جیسا کہ ابو عبیدہ نے بیان کیا ہے۔ اور اس لیے کہ اکثرقراء اسی پر ہیں۔ سیبویہ نے کہا ہے : بعض نے اسے مردفین را کے فتحہ اور دال کے تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور بعض نے مردفین را کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اور بعض نے را کے ضمہ کے ساتھ مردفین پڑھا ہے۔ ان تینوں قراءتوں میں دال مکسور اور مشدد ہے۔ پس سیبویہ کے نزدیک یہ پہلی قراءت میں یہ اصل میں مرتدفین ہے، پھر تا کہو دال میں ادغام کردیا گیا ہے اور اسی کی حرکت را کو دے دی گئی ہے تاکہ دو ساکن جمع نہ ہوجائیں۔ اور دوسری قراءت میں التقائے ساکنین کی وجہ سے را کو کسرہ دیا گیا ہے اور تیسری میں میم کے ضمہ کی اتباع کرتے ہوئے را کو ضمہ دیا گیا ہے، جیسا کہ آپ کہتے ہیں : ردو ردو ردیا ھذا۔ جعفر بن محمد اور عاصم جحدری نے بآلف پڑھا ہے یہ الف کی جمع ہے، جیسا کہ فلس کی جمع افلس ہے۔ اور ان دونوں سے بالف بھی منقول ہے۔ اور ملائکہ کے نازل ہونے، ان کے نشان لگانے اور ان کے قتال کرنے کا ذکر سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ اور قول باری تعالیٰ : آیت : وما جعلہ اللہ الا بشری ( آل عمران : 126) کی بحث بھی اس میں پہلے بیان ہوچکی ہے۔ اور مراد امداد ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ مراد ارداف (ردیف بنانا، پے در پے بھیجنا ہو۔ آیت : وما النصر الا من عند اللہ ( آل عمران : 126) اس میں اس پر متنبہ کیا ہے کہ مدد اور نصرت اللہ تعالیٰ عزوجل کی طرف سے تھی نہ کہ ملائکہ کی طرف سے، یعنی اگر وہ آپ کی مدد نہ فرماتا تو فرشتوں کی کثیر تعدا کے ساتھ بھی نفع حاصل نہ ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مدد و نصرت تلوار کے ساتھ بھی ہوتی ہے اور کبھی حجت و دلیل کے ساتھ ہوتی ہے۔
Top