Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 9
اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُرْدِفِیْنَ
اِذْ : جب تَسْتَغِيْثُوْنَ : تم فریاد کرتے تھے رَبَّكُمْ : اپنا رب فَاسْتَجَابَ : تو اس نے قبول کرلی لَكُمْ : تمہاری اَنِّىْ : کہ میں مُمِدُّكُمْ : مدد کروں گا تمہاری بِاَلْفٍ : ایک ہزار مِّنَ : سے الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے مُرْدِفِيْنَ : ایک دوسرے کے پیچھے (لگاتار)
جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کرلی (اور فرمایا کہ) (تسلی رکھو) ہم ہزار فرشتوں سے جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے جائیں گے تمہاری مدد کریں گے۔
9۔ صحیح مسلم ترمذی ‘ نسائی اور مسند امام احمد بن حنبل میں چند صحابہ کی روایتوں سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا اصل یہ ہے کہ جب آنحضرت نے مشرکین کی فوج کی ہزار آدمی اور اپنی طرف کے صرف کچھ اگلے تین سو آدمی دیکھے تو آپ کو بڑا اندیشہ ہوا اس لئے جس صبح کو مقابلہ ہونے والا تھا اس رات آپ نے تمام رات اللہ سے مدد اور فتح کی دعا بڑی عاجزی سے دعا مانگی اتنے میں ذرا آپ کو اونگھ آگئی اور پھر آپ مسکراتے ہوئے اٹھے حضرت ابوبکر ؓ سے فرمایا تم کو میں حوشخبری سناتا ہوں کہ اللہ کی مدد آن پہنچی دیکھو ایک طرف جبرئیل پانسو فرشتوں کی فوج سے اور دوسری طرف میکائیل پانسو فرشتوں کو فوج سے لشکر اسلام کے دائیں بائیں موجود ہیں فرشتے اگرچہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی اس لئے اس لڑائی میں فرشتے لڑے بھی ہیں باقی قصہ بدر کا سورة آل عمران میں گذر چکا ہے آنحضرت ﷺ کی دعا کا یہ قصہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت سے ہے۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اس بات کی صراحت کردی ہے کہ انہوں نے یہ قصہ حضرت عمر ؓ سے سنا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر یہ جو بیان ہوا تھا کہ بدر کی لڑائی میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ خود تو موجود تو موجود نہیں تھے لیکن بدر کی لڑائی کے قصوں کی ان کی روایتیں اسرائیل صحابہ کے طور پر ہوا کرتی ہے اب مسلم کی سند میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی یہ صراحت کہ انہوں نے یہ قصہ حضرت عمر ؓ سے سنا ہے اس اوپر کے بیان کی ایک مثال ہے اور اس دعا کے بعد فرشتوں کی مدد آنے کی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت جو صحیح بخاری میں ہے حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری میں اس کا یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ روایت انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو دی تھی جس کا ذکر آیت کی شان نزول کی روایتوں میں گذر چکا ہے۔ صحیح بخاری میں انس بن مالک ؓ سے اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے اور معتبر سند سے مسند امام احمد میں عبداللہ بن عمر وبن العاص ؓ سے جو روایتیں ہیں ان میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دعا کرنے والے ہر شخص کو چاہئے کہ دل لگا کر نہایت اصرار اور عاجزی سے دعا مانگے کیوں کہ اوپر دل سے جو دعا مانگی جاتی ہے وہ بارگاہ آلہی میں قبول نہیں ہوتی آیت کی شان نزول میں جو روایتیں گذریں ان کو اور ان روایتوں کو ملانے سے یہ مطلب سمجھ میں آجاتا ہے کہ بدر کی لڑائی سے پہلے آپ نے لشکر اسلام کی فتح کی دعا بڑی عاجزی اور اصرار سے اس لئے مانگی کہ آپ کی دعا رائیگاں نہ جاوے حاصل کلام یہ ہے کہ شان الہی کی پہچان میں نبی اور صدیق کے مرتبہ کا فرق اسی حالت سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اللہ کے رسول دعا کے وقت اپنی عاجزی اور اپنے اصرار سے نہیں گھبرائے بلکہ الہام آلہی کے موافق عاجزی اور اصرار کو دعا کے قبول ہونے کا سبب سمجھا ہاں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا مرتبہ نبوت سے کم تھا اس لئے وہ حضرت کی عاجزی اور آپ کے اصرار سے گھبرا گئے اس کے سوا یہاں بعضے صوفیہ نے کچھ اور باتیں جو لکھی ہیں ان کی تائید کسی صحیح حدیث سے نہیں ہوتی بدر کی لڑائی میں پہلے ہزار فرشتے آئے اور پھر دو دفعہ میں چار ہزار اور آئے غرض سب پانچ ہزار فرشتے آئے اسی واسطے اس آیت میں پہلی دفعہ کے ہزار فرشتوں کا ذکر ہے اور سورة آل عمران میں بیچ کے دفعہ کے تین ہزار اور آخری دفعہ کے پانچ ہزار کا ذکر ہے دونوں آیتوں میں کچھ اختلاف نہیں ہے۔ یہ دونوں آیتوں کی مطابقت ربیع بن انس کے قول کے موافق بیان کی گئی ہے۔ یہ ربیع بن انس حسن بصری اور قتادہ کی طرح تابعیوں میں کے قدیم مفسر ہیں صحاح ستہ میں ان کی روایتیں ہیں آیت مردفین ہزار فرشتوں کے ذکر کے بعد جو فرمایا اس ربیع بن انس کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ مردفین کا بھی وہی مطلب ہے کہ ہزار فرشتوں کے بعد اور فرشتے آئے :۔ 1 ؎ الترغیب والترہیب ج 1 ص 301۔ الترہیب عن رفع المصلی راسہ الی اسلماء الخ
Top