Fi-Zilal-al-Quran - Al-Anfaal : 9
اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُرْدِفِیْنَ
اِذْ : جب تَسْتَغِيْثُوْنَ : تم فریاد کرتے تھے رَبَّكُمْ : اپنا رب فَاسْتَجَابَ : تو اس نے قبول کرلی لَكُمْ : تمہاری اَنِّىْ : کہ میں مُمِدُّكُمْ : مدد کروں گا تمہاری بِاَلْفٍ : ایک ہزار مِّنَ : سے الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے مُرْدِفِيْنَ : ایک دوسرے کے پیچھے (لگاتار)
اور وہ موقع جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے ، جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں
تفسیر آیات 9 تا 14: اب سیاق کلام میں اس فیصلہ کن جنگ کے مناظر میں سے ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔ اس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جماعت مسلمہ کا حال کیسا تھا ، اور اللہ نے ان کے لیے کیسی تدابیر اختیار کیں اور اللہ کی تائید و نصرت ان کو محض مشیت الہیہ اور تائید ایزدی کی وجہ سے نصیب ہوئی۔ قرآن کریم کا بےمثال انداز بیان اس معرکے کے مشاہدات ، تاثرات ، واقعات ، پریشانیوں اور امیدوں کو نہایت ہی دقت سے قلم بند کرتا ہے اس طرح کہ قاری گویا اپنے اپ کو اس معرکے کے اندر محسوس کرے مگر قرآنی تبصرے کے ساتھ ، تاکہ وہ حقائق کو بدر سے وسیع تر دائرے میں سمجھیں۔ جزیرۃ العرب سے بھی ان کی نظر وسیع بلکہ ان کا نقطہ نظر پوری کائنات سے بھی زیادہ وسیع ہو۔ اس بیان میں اب اس معرکے کا پس منظر ملاء اعلی تک وسیع ہوجاتا ہے۔ اب یہ معرکہ یوم بدر سے بھی آگے ، پوری انسانی تاریخ سے بھی آگے بڑھ کر ، پوری دنیاوی زندگی کے دائرے سے بھی وسیع تر دار آخرت تک پہنچ جاتا ہے اور اس پیش منظر میں جماعت مسلمہ کو یہ شعور دیا جاتا ہے کہ اللہ کے ہاں اس کی کیا قدروقیمت ہے ، اس کے اعمال کس قدر اہم ہیں اور اس کی اقامت دین کی جدو جہد اور حرکت کس قدر مقدس ہے۔ یہ ایک معرکہ ہے جو اللہ کے امر اور اس کی مشیت کے مطابق چل رہا ہے۔ اللہ کا نظام قضا و قدر اور اس کی تدبیر خود کر رہا ہے۔ اللہ کے خاص دستے اس میں شریک ہیں۔ اس معرکے میں حرکت الابزن کے مناظر اور اس کی خطرناکیاں اور اس کی کامیابیاں قرآنی عبارات میں صاف نظر آرہی ہیں۔ یہ ایک زندہ منظر ہے اور یوں نظر آتا ہے کہ شاید یہ نظر ابھی آنکھوں کے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس معرکے میں اہل ایمان کی فریاد کی تھی ؟ امام احمد حضرت عمر ابن الخطاب سے روایت کرتے ہیں ، جب بدر کا واقعہ درپیش ہوا ، تو نبی ﷺ نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا کہ وہ تین سو سے کچھ اوپر ہیں اور جب کفار کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک ہزار سے کچھ اوپر ہیں تو حضور ﷺ نے قبلہ کی طرف چہرہ مبارک پھیرا ، آپ چادر اور تہہ بند اوڑھے ہوئے تھے اور کہا : اے اللہ آپ نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کردیجیے۔ اے اللہ اگر آج آپ نے اہل اسلام کے اس گروہ کو ہلاک کردیا تو پھر دنیا میں کبھی تیری بندگی نہ ہوگی " کہتے ہیں آپ اللہ کے سامنے اسی طرح فریاد کرتے رہے اور پکارتے رہے ، یہاں تک کہ آپ کے کاندھوں سے چادر گرگئی۔ حضرت ابوبکر آئے ، انہوں نے چادر کو پکڑا اور اسے اپنی جگہ پر رکھ دیا اور پیچھے سے اسے پکڑے رکھا اور اس کے بعد آپ نے کہا " اے اللہ کے نبی ، بس اللہ کے سامنے آپ کی یہ فریاد کافی ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ اس پر اللہ نے یہ آیات نازل کیں۔ "إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ (9): اور وہ موقع جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں " یوم بدر میں فرشتوں کی تعداد اور ان کے طریقہ جنگ کے بارے میں متعدد اور مفصل روایات وارد ہیں۔ اور ان میں بتایا گیا ہے کہ وہ اہل ایمان کو کیا کہتے تھے اور کس طرح ان کو جرات دلاتے تھے اور کفار کو کیا کہتے تھے اور کس طرح انہیں شرمندہ کرتے تھے۔ لیکن ظلال القرآن میں ہمارا جو طریقہ ہے ، اس کے مطابق ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں کیونکہ یہ معاملہ عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے بارے میں قرآن و سنت کی نصوص واضح ہیں۔ یہاں قرآنی آیات بالکل واضح ہیں۔ مثلاً : "إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ (9): اور وہ موقع جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں "۔ یہ تو تھی ان کی تعداد۔ اور ان کا طریقہ جنگ یہ تھا : "إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الأعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ (12): اور وہ وقت جب کہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ، تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو ، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں ، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ " یہ تھا ان کا عملی کام۔ اس سے مزید تفصیلات کی سرے سے ضرورت نہیں ہے کیونکہ آیت اپنے مفہوم میں واضح ہے۔ ہمیں اس قدر یقین کرلینا چاہیے کہ اس معرکے میں اللہ نے مسلمانوں کو اپنے حال پر نہ چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ تعداد و اسباب کے اعتبار سے بہت کم تھے اور جس طرح قرآن کریم کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے ، اسی انداز سے فرشتوں نے اس جنگ میں شرکت کی۔ امام بخاری باب ثہود الملائکہ بدر میں کہتے ہیں : ابن اسحاق سے ، جریر سے ، یحییٰ ابن سعید سے ، معاز ابن رفاعہ ابن رافع الرزقی سے ، اس کے باپ سے (اور یہ اہل بدر میں سے تھے) کہتے ہیں کہ جبرئیل نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا تم اہل بدر کے بارے میں کیا خیال کرتے ہو ، آپ نے فرمایا " ہم ان کو افضل المسلمین سمجھتے ہیں۔ تو جبرئیل نے کہا اسی طرح ہم فرشتوں میں سے جو بدری تھے ، ان کو افضل سمجھتے ہیں۔ (بخاری)
Top