Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 9
اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُرْدِفِیْنَ
اِذْ : جب تَسْتَغِيْثُوْنَ : تم فریاد کرتے تھے رَبَّكُمْ : اپنا رب فَاسْتَجَابَ : تو اس نے قبول کرلی لَكُمْ : تمہاری اَنِّىْ : کہ میں مُمِدُّكُمْ : مدد کروں گا تمہاری بِاَلْفٍ : ایک ہزار مِّنَ : سے الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے مُرْدِفِيْنَ : ایک دوسرے کے پیچھے (لگاتار)
اور یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سنی کہ میں ایک ہزار فرشتے تمہاری کمک پر بھیجنے والا ہوں جن کے پرے کے بعد پرے نمودار ہوں گے
آیات 9 تا 19 کا مضمون : آگے اللہ تعالیٰ نے اپنی ان غیبی تائیدات کا حوالہ دیا ہے جو اس موقع پر مسلمانوں کی مدد اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ظاہر ہوئیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور اسلام کے مستقبل پر ان کا ایمان و اعتماد مضبوط ہو۔ اوپر کے ٹکڑے میں جن کمزور لوگوں کا ذکر آیا تھا ظاہر ہے کہ وہ مسلمانوں کی جماعتی اصلاح ہی کے نقطہ نطر سے آیا تھا، اب گویا اسی مقصد کے تحت ان باتوں کی یاد دہانی کی جا رہی ہے جن کی یاد داشت آگے کے مراحل میں کام آنے والی تھی۔ مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ کفار قریش کو بھی مخاطب کر کے تنبیہ کردی گئی کہ یہ چپت جو تمہیں لگی ہے یہ تو تمہید ہے، تمہاری روش اگر یہی رہی تو آگے اس سے سخت دنوں کا انتظار کرو، تم نے اس جنگ کے نتیجے کو حق و باطل کو معیار ٹھہرایا تھا تو اس کا نتیجہ تمہارے سامنے آگیا، اب بھی تمہاری آنکھیں نہ کھلیں، تم نے پھر شرارت کی تو یاد رکھو ہم کہیں چلے نہیں گئے ہیں۔ کثرت تعداد و وسائل کا سارا گھمنڈ دھرا رہ جائے گا اور تم پھر منہ کی کھاؤ گے، اہل ایمان کے پہلو پر ہم ہیں۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمائیے۔ اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ۔ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ ، فَاسْتَجَابَ لَكُمْ کی تفصیل ہے اور فاعل کا صیغہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کی قطعیت کے اظہار کے لیے ہے۔ ارداف کے معنی توالی، یعنی یکے بعد دیگرے ظاہر ہونے کے ہیں۔ یہ اس سب سے پہلی تائید الٰہی کا بیان ہے جو اس موقع پر ظاہر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد اس جنگ میں بہت تھوڑی تھی یعنی کل 313 اور وہ بےسروسامان بھی تھے۔ ادھر کفار ایک ہزار کے قریب تھے اور ہر قسم کے اسلحہ سے لیس اور سروسامان سے بھپور۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو واحد سہارا خدا ہی کی تائید ہو کا ہوسکتا تھا چناچہ ایک ایک شخص سراپا عجز و نیاز اور یکسر دعا و فریاد بنا ہوا تھا۔ ان دعاؤں کی نوعیت کا اندازہ کرنے کے لیے خود سرور عالم کی اس دعا کو پڑھ لینا کافی ہے جس کے الفاظ احادیث میں وارد ہوئے ہیں ظاہر ہے کہ جب نہتے مسلمانوں نے اپنے دل نکال کر اپنے رب کے سامنے رکھ دیے ہوں گے تو یہ دعائیں قبولیت سے کیسے محروم رہ سکتی تھیں۔ چناچہ یہ قبول ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت نازل ہوئی کہ تم ہراساں نہ ہو، میں تمہاری کمک کے لیے ہزار فرشتے نازل کرنے والا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ تم ہزار کافروں کی کیا پروا کرتے ہو، تمہارے جلو میں تو ہزار فرشتے ہوں گے۔ ان فرشتوں کے ظہور کی شکل یہ بتائی کہ ان کے دستے کے بعد دستے اور پرے کے بعد پرے نمایاں ہوں گے۔ میدانِ جنگ میں لڑنے والوں کی یہ سائیکالوجی ملحوظ رہے کہ جن کی حمایت میں کمک کے بعد کمک آرہی ہو ان کا حوصلہ ہر کمک پر دونا ہوتا ہے اور اسی اعتبار سے حریف کے اعصاب ڈھیلے پڑتے جاتے ہیں۔ یہ مضمون آل عمران کی آیات 125۔ 126 میں بھی گزر چکا ہے۔ ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجیے۔
Top