Baseerat-e-Quran - Al-Anfaal : 9
اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُرْدِفِیْنَ
اِذْ : جب تَسْتَغِيْثُوْنَ : تم فریاد کرتے تھے رَبَّكُمْ : اپنا رب فَاسْتَجَابَ : تو اس نے قبول کرلی لَكُمْ : تمہاری اَنِّىْ : کہ میں مُمِدُّكُمْ : مدد کروں گا تمہاری بِاَلْفٍ : ایک ہزار مِّنَ : سے الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے مُرْدِفِيْنَ : ایک دوسرے کے پیچھے (لگاتار)
اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کر ہے تھے پھر اس نے تمہاری فریاد سن کر کہا کہ میں تمہاری ایسے ایک ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا جو مسلسل ( پے در پے) چلے آئیں گے۔
لغات القرآن۔ تستغیثون۔ تم فریاد کرتے ہو۔ استجاب۔ جواب دیا۔ قبول کیا۔ ممد۔ مدد کرنے والا۔ الف۔ ہزار۔ مردفین۔ ایک کے بعد دوسرے کا آنا۔ لگاتار آنا۔ بشری۔ خوش خبری۔ لتطمئن۔ تاکہ مطمئن ہوجائیں۔ عزیز۔ زبردست۔ اللہ کی صفت ہے۔ یغشی۔ وہ چھا جاتا ہے۔ النعاس۔ اونگھ (نیند اور جاگنے کی درمیانی حالت) ۔ لیطھرکم۔ تاکہ وہ تمہیں پاک کردے۔ یذھب۔ وہ لے جاتا ہے۔ وہ جاتا ہے۔ رجز الشیطن۔ شیطان کی گندگی۔ لیربط۔ تاکہ وہ باندھ دے۔ یثبت۔ جما دیتا ہے۔ الاقدام۔ (قدم) قدم۔ ثبتوا۔ تم جما دو ۔ القی۔ میں ڈال دوں گا۔ الرعب۔ ہیبت۔ ڈر۔ اضربوا۔ مارو۔ سزا دو ۔ فوق۔ اوپر۔ الاعناق۔ (عنق) ۔ گردنیں۔ بنان۔ انگلیوں کے پورے۔ جوڑ جوڑ۔ شاقوا۔ نافرمانی کی۔ جھگڑا کیا۔ تشریح : یہاں پے در پے تین واقعات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے جو رہتی دنیا تک اپنے اندر اہم سبق رکھتے ہیں۔ (1) پہلا واقعہ یہ ہے کہ جب نبی مکرم ﷺ نے بد رکی جنگ سے پہلے دونوں فوجوں کا جائزہ لیا تو آپ نے نہایت عاجزی اور انکساری سے اللہ کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ آپ نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اس کو جلد پورا کر دیجئے کیونکہ اگر مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت فنا ہوگئی تو پھر زمین میں آپ کی عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ اللہ نے آپ کی دعا کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لئے ایک ہزار فرشتے اس طرح بھیجوں گا جو مسلسل آتے رہے گے یہ بھی فرما دیا کہ یہ ایک خوشخبری ہے تاکہ مسلمانوں کو یقین ہوجائے کہ غیب کی مدد ان کے شامل حال ہے اور فتح یقینی ہے۔ (2) دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر نیند اور جاگنے کی درمیانی کیفیت اطمینان و سکون کی ” اونگھ “ طاری کردی۔ یہ ایک ایسی ہلکی سی اونگھ تھی کہ جب صحابہ کرام ؓ کی آنکھ کھلی تو وہ بالکل تازہ دم اور پرسکون تھے۔ دوسری طرف کفار مکہ نے آتے ہی سب سے پہلے میدان جنگ کے لئے اس علاقہ کا انتخاب کیا جہاں پانی تھا اور مسلمان جو پہاڑی کی طرف تھے وہ پانی سے محروم تھے۔ اللہ نے کرم فرمایا کہ تیز بارش برساد دی جس سے کفار کا میدان کیچڑ ہی کیچڑ ہوگیا جس میں چلنا پھرنا بھی دشوار ہوگیا تھا اور جو علاقہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ ؓ کے پاس تھا اس کی ریت دب گئی، پانی کا ذخیرہ کرلیا گیا۔ صحابہ کرام ؓ خوب نہا کر دھو کر تازہ دم ہوگئے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست سے مراد غسل کی حاجت بھی ہوسکتی ہے اور وہ خوف و ہر اس کی کیفیت بھی ہوسکتی ہے جس میں بعض صحابہ ؓ پریشان تھے۔ (3) تیسرا واقعہ وہ ہے جس کا تعلق پردہ غیب سے ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ اہل ایمان جو تیر چلائیں اس کو نشانے پر لگا دو اور یہ نشانے کا فروں کی گردنوں اور جوڑ جوڑ پر لگیں اور مزید کرم یہ فرمایا کہ تمام فرشتوں سے ارشاد ہوا کہ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں اللہ نے یہ بھی فرما دیا کہ میں بہت جلد کافروں کے دلوں میں ایسی ہیبت اور رعب ڈال دوں گا کہ جس سے اللہ اور اس کے رسول کے دشمن شدید کرب میں مبتلا ہوجائیں گے اور اپنی حماقتوں کی آگ میں جلتے رہیں گے۔ ان آیات کا مطلب ایک ہی ہے کہ وہ عوامل جو ہمیں بہت زبردست اور دل ہلا دینے والے نظر آتے ہیں ان سے خوف کھانا اور پریشان ہونا بیکار ہے زیادہ اہم عوامل وہ ہیں جو نظر نہیں آتے مثلاً اللہ کی غیبی مدد فرشتوں کی آمد، بشارت، نندا، بارش، کفار کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ان سب چیزوں کا تعلق غیب سے ہے۔ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
Top