Jawahir-ul-Quran - Al-Anfaal : 9
اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُرْدِفِیْنَ
اِذْ : جب تَسْتَغِيْثُوْنَ : تم فریاد کرتے تھے رَبَّكُمْ : اپنا رب فَاسْتَجَابَ : تو اس نے قبول کرلی لَكُمْ : تمہاری اَنِّىْ : کہ میں مُمِدُّكُمْ : مدد کروں گا تمہاری بِاَلْفٍ : ایک ہزار مِّنَ : سے الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے مُرْدِفِيْنَ : ایک دوسرے کے پیچھے (لگاتار)
جب تم کو لگے فریاد کرنے8 اپنے رب سے تو وہ پہنچا تمہاری فریاد کو9 کہ میں مدد کو بھیجوں گا تمہارے لیے ہزار فرشتے لگاتار آنے والے
8: یہ تیسری علت ہے جب مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ اب مشرک فوج سے مقابلہ ناگزیر ہوگیا ہے تو اب اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر امداد و نصرت کے لیے دعائیں کرنے لگے خود حضور ﷺ نے انتہائی تضرع اور زاری سے دعا کی۔ آپ قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر عرض کی، بارے خدایا اپنا وعدہ فتح و نصرت پورا فرما۔ اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پر تیری خالص عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا آپ نے اس قدر طویل دعا مانگی کہ آپ کی چادر کندھوں سے گر پڑی حضرت ابوبکر چادر آپ کے کندھوں پر ڈالتے اور کہتے یارسول اللہ دعا کافی ہوگئی اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔ (قرطبی وغیرہ) ۔ 9: یعنی اللہ نے تمہاری دعا قبول کرلی اور اسباب کے طور پر تمہاری مدد کے لیے فرشتوں کی فوج نازل کردی۔ “ اِنِّیْ ” سے پہلے حرف جار مقدر ہے “ اي بانی ” (روح) یا اس سے پہلے “ اخبرکم ” فعل محذوف ہے۔ یہاں ایک ہزار فرشتوں کے نزول کا ذکر ہے چونکہ مشرکین کی تعداد ایک ہزار تھی اس لیے ایک ہزار فرشتوں کا آنا بھی حتمی طور پر بیان کیا گیا۔ اس کی مزید تحقیق سورة آل عمران کی تفسیر میں ص 177 پر حاشیہ 191، 192 میں ملاحظہ فرمائیں۔ “ مُرْدِفِیْن ” یعنی فرشتے جن کے پیچھے ایک دوسری جماعت آرہی ہو۔ فرشتگان کہ از پس خود جماعت دیگر آوردند (فتح الرحمن) ۔
Top