Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 7
زَعَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا١ؕ قُلْ بَلٰى وَ رَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ١ؕ وَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ
زَعَمَ : دعوی کیا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا اَنْ لَّنْ : کہ ہرگز نہ يُّبْعَثُوْا : اٹھائے جائیں گے قُلْ : کہہ دیجئے بَلٰى وَرَبِّيْ : کیوں نہیں ، میرے رب کی قسم لَتُبْعَثُنَّ : البتہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ : پھر البتہ تم ضرور بتائے جاؤ گے بِمَا عَمِلْتُمْ : ساتھ اس کے جو تم نے عمل کیے وَذٰلِكَ : اور یہ بات عَلَي : پر اللّٰهِ يَسِيْرٌ : اللہ (پر) بہت آسان ہے
جو لوگ کافر ہیں انکا اعتقاد ہے کہ وہ (دوبارہ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے کہہ دو کہ ہاں ہاں میرے پروردگار کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ کے پھر جو جو کام تم کرتے رہے ہو وہ تمہیں بتائے دیں گے اور یہ (بات) خدا کو آسان ہے۔
(64:7) زعم ماضی واحد مذکر غائب زعم (باب نصر) مصدر۔ زعم اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن مجید میں یہ لفظ ہمیشہ اسی موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہو چناچہ فرمایا۔ زعم الذین کفروا (64:7 آیت ہذا) کفاریہ زعم کرتے ہیں اور بل زعمتم (18:48) مگر تم یہ خیال کرتے ہو۔ اور اسی مادہ (زع م) سے زعامۃ سے ب کا صلہ کے ساتھ بمعنی مال وغیرہ کا ضامن بننا بھی ہے۔ چناچہ قرآن مجید میں آیا ہے :۔ وانا بہ زعم (12:72) اور میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ ان لن یبعثوا : ان مخففہ ہے ان سے۔ بےشک۔ لن یبعثوا مضارع منفی مجہول تاکید یہ لن۔ ان کو (ہرگز موت کے بعد دوبارہ زندہ کرکے) اٹھایا نہیں جائے گا۔ بعث (باب فتح) مصدر سے۔ قل : ای قل لہم یارسول اللہ ﷺ ۔ بلی وربی لتبعثن : بلی کا استعمال دو جگہ پر ہوتا ہے۔ (1) ایک تو نفی ما قبل کی تردید کے لئے جیسا کہ آیت زیر غور میں ہے۔ زعم الذین کفروا ان لن یبعثوا قل بلی وربی لتبعثن (کافروں کا خیال ہے یا وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہرگز وہ نہیں اٹھائے جائیں گے تو کہہ دے کیوں نہیں قسم ہے میرے رب کی تمہیں ضرور اٹھایا جائے گا۔ (2) دوسرے یہ کہ اس استفہام کے جواب میں آئے جو نفی پر واقع ہو۔ جیسے :۔ (1) استفہام حقیقی جیسے الیس زید بقائم (کیا زید کھڑا نہیں) اور جواب میں کہا جاوے بلی۔ (2) استفہام توبیخی، جیسے ایحسب الانسان الن نجمع عظامہ ۔ بلی قادرین علی ان نسوی بنانہ (75:403) کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم ہرگز اس کی ہڈیاں جمع نہیں کریں گے۔ کیوں نہیں بلکہ ہم قدرت رکھتے ہیں کہ اس کی پور پور درست کردیں۔ (3) یا استفہام تقریری ہو۔ جیسے الست بربکم قالوا بلی شھدنا (7:172) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا ہاں ! (تو ہی ہے) ہم گواہ ہیں (نیز ملاحظہ ہو 3:76) وربی : واؤ حرف جر ہے لیکن یہاں بطور واؤ قسم مستعمل ہے۔ یہ صرف اسم ظاہر پر آتا ہے۔ جیسے واللہ (خدا کی قسم) والتین (قسم ہے انجیر کی) ۔ ربی مضاف مضاف الیہ۔ میرا رب وربی (مجھے) اپنے رب کی قسم۔ فائدہ : بعث بعد الموت پر قرآن مجید میں رب کی قسم تین دفعہ کھائی گئی ہے :۔ (1) آیت ہذا : قل بلی وربی (64:7) (2) ویستبئونک احق ھو قل ای وربی انہ لحق ۔ (10:53) اور تم سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا یہ سچ ہے کہہ دو ہاں خدا کی قسم سچ ہے۔ (3) وقال الذین کفروا لاتاتینا الساعۃ قل بلی وربی لتاتینکم (34:3) اور کافر کہتے ہیں کہ قیامت (کی گھڑی) ہم پر نہیں آئے گی۔ کہہ دو ! کیوں نہیں (آئے گی) میرے رب کی قسم وہ تم پر ضرور آکر رہے گی۔ لتبعثن مضارع مجہول بلام تاکید و نون ثقیلہ جمع مذکر حاضر۔ بعث (باب فتح) مصدر بمعنی بیدار کرنا۔ زندہ کرنا۔ مردہ کو زندہ کرکے دوبارہ اٹھانا۔ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے ۔ یہ جواب قسم ہے۔ (وربی کے جواب میں) ثم لتنبؤن : ثم تراخی فی الوقت کے لئے ہے۔ بمعنی پھر۔ ازاں بعد۔ لتنبئون مضارع مجہول بلام تاکید و نون ثقیلہ۔ صیغہ جمع حاضر۔ تمہیں بتایا جائے گا۔ تمہیں خبر دی جائے گی۔ تنبئۃ (تفعیل) مصدر۔ بمعنی آگاہ کرنا ۔ خبر دینا۔ بتلانا۔ یعنی تمہارے اعمال کا محاسبہ ہوگا اور ان پر جزا و سزا ملے گی۔ یہ جملہ بعث بعد الموت کی تاکید کے لئے آیا ہے۔ وذلک علی اللہ یسیر : واؤ عاطفہ ، ذلک : یعنی یہ دوبارہ زندہ کرکے اٹھانا اور اعمال کا محاسبہ کرنا۔ یسیر : صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر۔ ی س ر مادہ۔ آسان ۔ سہل، ذلک مبتدائ۔ یسیر اس کی خبر۔ علی اللہ متعلق خبر۔
Top