Mutaliya-e-Quran - At-Taghaabun : 7
زَعَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا١ؕ قُلْ بَلٰى وَ رَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ١ؕ وَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ
زَعَمَ : دعوی کیا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا اَنْ لَّنْ : کہ ہرگز نہ يُّبْعَثُوْا : اٹھائے جائیں گے قُلْ : کہہ دیجئے بَلٰى وَرَبِّيْ : کیوں نہیں ، میرے رب کی قسم لَتُبْعَثُنَّ : البتہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ : پھر البتہ تم ضرور بتائے جاؤ گے بِمَا عَمِلْتُمْ : ساتھ اس کے جو تم نے عمل کیے وَذٰلِكَ : اور یہ بات عَلَي : پر اللّٰهِ يَسِيْرٌ : اللہ (پر) بہت آسان ہے
منکرین نے بڑے دعوے سے کہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ان سے کہو "نہیں، میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر ضرور تمہیں بتایا جائے گا کہ تم نے (دنیا میں) کیا کچھ کیا ہے، اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے"
[زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوْٓا : یقینی جانا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا ] [ان لَّنْ يُّبْعَثُوْا : کہ وہ ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ] [قُلْ بَلٰى: آپ کہیے کیوں نہیں ] [وَرَبِيْ : میرے رب کی قسم ] [لَتُبْعَثُنَّ : تم لوگ لازماً اٹھائے جائو گے ] [ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ : پھر تم لوگوں کو لازماً باخبر کیا جائے گا ] [بِمَا عَمِلْتم : اس سے جو تم نے عمل کیا ] [وَذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ: اور یہ اللہ پر آسان ہے ] نوٹ۔ 1: زیر مطالعہ آیت۔ 7 ۔ میں یہ تیسرا مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا ہے کہ اپنے رب کی قسم کھا کر لوگوں سے کہو کہ ضرور ایسا ہو کر رہے گا۔ پہلے سورة یونس کی آیت۔ 53 ۔ میں سورة سبا کی آیت۔ 3 ۔ میں اور اب اس آیت میں۔ سوال یہ ہے کہ ایک منکر آخرت کے لیے اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ اسے آخرت کی خبر قسم کھا کردیں کیا قسم کھائے بغیر دیں۔ وہ جب نہیں مانتا تو اس بنا پر کیسے مان لے گا کہ آپ قسم کھا کر اس سے یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مخاطب وہ لوگ تھے جو اپنے علم اور تجربہ کی بنا پر یہ بات خوب جانتے تھے کہ انھوں نے کبھی عمر بھر جھوٹ نہیں بولا۔ اس لیے خواہ زبان سے وہ آپ کے خلاف کیسے بھی بہتان گھڑتے رہے ہوں اپنے دل میں وہ یہ تصور نہیں کرسکتے تھے کہ ایسا سچا انسان کبھی خدا کی قسم کھا کر وہ بات کہہ سکتا ہے جس کے برحق ہونے کا اسے یقین نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ نبی کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالاتر ہے۔ نبی کی اصلی حیثیت یہ نہیں ہے کہ عقلی استدلال سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہو کہ آخرت ہونی چاہیے۔ بلکہ اس کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ آخرت ہوگی اور یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ وہ ضرور ہو کر رہے گی۔ اس لیے ایک نبی ہی قسم کھا کر یہ بات کہہ سکتا ہے اور ایک فلسفی اس پر قسم نہیں کھا سکتا۔ فلسفی اگر صحیح الفکر فلسفی ہو تو وہ ” ہونا چاہیے “ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ” ہے اور یقینا ہے “ کہنا صرف نبی کا کام ہے۔ (تفہیم القرآن)
Top