Ashraf-ul-Hawashi - Al-Muminoon : 75
وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر رَحِمْنٰهُمْ : ہم ان پر رحم کریں وَكَشَفْنَا : اور ہم دور کردیں مَا بِهِمْ : جو ان پر مِّنْ ضُرٍّ : جو تکلیف لَّلَجُّوْا : ارے رہیں فِيْ : میں۔ پر طُغْيَانِهِمْ : اپنی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بھٹکتے رہیں
اگر ہم ان پر رحم کریں اور ان کو جو تکلیف ہے وہ دور کردیں3 تو اور اپنی شرارت پر جم کر بھکٹتے پھریں4
3 ۔ اور قرآن بھی ان کے فہم میں اتار دیں۔ یہاں ” ضر “ سے مراد ہے اس قحط کی تکلیف جس میں قریش آنحضرت ﷺ کی بددعا سے مبتلا ہوئے تھے۔ اس قحط کا متعدد روایات میں ذکر آیا ہے صحیحین میں ہے کہ جب قریش کی سرکشی حد سے بڑھ گئی تو نبی ﷺ نے ان کے حق میں بددعا فرمائی : اللھم اعنی علیھم بسبع کسبع یوسف۔ اے اللہ ! میری ان کے مقابلہ میں ایسے ہفت سالہ قحط سے مدد فرما۔ جیسا قحط یوسف ( علیہ السلام) کے زمانہ میں پڑا تھا۔ (شوکانی) 4 ۔ کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے جو مصیبت ٹلتی ہے اپنے ہی حسن انتظام سے ٹلتی ہے۔ خدا کا اس کے ٹالنے میں کوئی احسان نہیں ہے۔ (وحیدی)
Top