Mufradat-ul-Quran - Al-Muminoon : 75
وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر رَحِمْنٰهُمْ : ہم ان پر رحم کریں وَكَشَفْنَا : اور ہم دور کردیں مَا بِهِمْ : جو ان پر مِّنْ ضُرٍّ : جو تکلیف لَّلَجُّوْا : ارے رہیں فِيْ : میں۔ پر طُغْيَانِهِمْ : اپنی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بھٹکتے رہیں
اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو تکلیفیں ان کو پہنچ رہی ہیں وہ دور کردیں تو اپنی سرکشی پر اڑے رہیں (اور) بھٹکتے (پھریں )
وَلَوْ رَحِمْنٰہُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِہِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّـــلَجُّوْا فِيْ طُغْيَانِہِمْ يَعْمَہُوْنَ۝ 75 رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، كشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] ( ک ش) الکشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں لج اللَّجَاجُ : التّمادي والعناد في تعاطي الفعل المزجور عنه، وقد لَجَّ في الأمر يَلجُّ لَجَاجاً ، قال تعالی: وَلَوْ رَحِمْناهُمْ وَكَشَفْنا ما بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ المؤمنون/ 75] ، بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] ومنه : لَجَّةُ الصّوت بفتح اللام . أي : تردّده، ولُجَّةُ البحر بالضّم : تردّد أمواجه، ولُجَّةُ اللیل : تردّد ظلامه، ويقال في كلّ واحد لَجَّ والْتَجَّ. قال : فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] منسوب إلى لجّة البحر، وما روي : ( وضع اللّجّ علی قفيّ ) ، أصله : قفاي، فقلب الألف ياء، وهو لغة فعبارة عن السّيف المتموّج ماؤه، واللَّجْلَجَةُ : التّردّد في الکلام وفي ابتلاع الطّعام، قال الشاعر : يُلَجْلِجَ مضغة فيها أنيض «5» أي : غير منضج، ورجل لَجْلَجٌ ولَجْلَاجٌ: في کلامه تردّد، وقیل : الحقّ أبلج والباطل لَجْلَجٌ. أي : لا يستقیم في قول قائله، وفي فعل فاعله بل يتردّد فيه . ( ل ج ج ) اللجاج ( مصدر ض س ) کے معنی کسی ممنوع کام کے کرنے میں بڑھتے چلے جاتے اور اس پر ضد کرنے کے ہیں اس سے فعل لج فی الامر استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ رَحِمْناهُمْ وَكَشَفْنا ما بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ المؤمنون/ 75] اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو تکلیفیں انہیں پہنچ رہی ہیں وہ دور کردیں تو اپنی سر کشی پر اڑے رہیں اور بھٹکے ( پھریں ) بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] لیکن یہ سرکشی اور نفرت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ اسی سے لجۃ الصوف مشہور ہے جس کے معنی اواز کے بار بار آنے جانے اور پلٹنے کے ہیں ۔ لجۃ البحر ( بضم اللام ) سمندر کی موجوں کا تلاطم ( ان کا بار بار آنا اور پلٹنا ) لجۃ اللیل ۔ رات کی تاریکی کا آنا جان اور سخت ہونا ۔ اور لجۃ و لجۃ میں ایک لغت لج ولج بھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] دریائے عمیق میں میں لجی بھی لجۃ البحر کی طرف منسوب ہے اور روایت اس نے میری گر دن پر تلوار رکھ دی ) میں لج کے معنی آبد ار تلوار کے ہیں اور قفی اصل میں قفای ہے الف یاء سے مبدل ہو کر یاء میں ادغام ہوگیا ہے ۔ اللجلجۃ کے معنی ہکلاپن کے ہیں اور نیز لقمہ کو بغیر چبائے منہ میں پھر انے کو بھی لجلجۃ کہتے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ( 392 ) یلجلج مضغۃ فیھا انیض یعنی منہ میں گوشت کا نیم پختہ ٹکڑا پھر ا رہا ہے ۔ رجل لجلج ہکلا رک رک کر بات کرنے والا ۔ الحق ایلج والباطل لجلج حق واضح ہے اور باطل مشتبہ یعنی کوئی شخص باطل کو نہ تو صاف طور پر بیان کرسکتا ہے اور نہ انشراح صدر کے ساتھ اسے انجام دے سکتا ہے ۔ بلکہ اس میں ہمیشہ متردور رہتا ہے ۔ طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ عمه الْعَمَهُ : التّردُّدُ في الأمر من التّحيّر . يقال : عَمَهَ فهو عَمِهٌ وعَامِهٌ «2» ، وجمعه عُمَّهٌ. قال تعالی: فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف/ 186] ، فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] ، وقال تعالی: زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل/ 4] . ( ع م ہ ) العمۃ کے معنی حیر انگی کی وجہ سے کسی کام میں تردد سے کام لینا کے ہیں ۔ عمہ ( س) صیغہ صفت فاعل عمہ وعامہ اور عامہ کی جمع عمہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف/ 186] وہ اپنی شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل/ 4] ہم نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردیئے تو وہ سرگردان ہو رہے ہیں ۔
Top