Madarik-ut-Tanzil - Al-Muminoon : 75
وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر رَحِمْنٰهُمْ : ہم ان پر رحم کریں وَكَشَفْنَا : اور ہم دور کردیں مَا بِهِمْ : جو ان پر مِّنْ ضُرٍّ : جو تکلیف لَّلَجُّوْا : ارے رہیں فِيْ : میں۔ پر طُغْيَانِهِمْ : اپنی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بھٹکتے رہیں
اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو تکلیفیں ان کو پہنچ رہی ہیں وہ دور کردیں تو اپنی سرکشی پر اڑے رہیں (اور) بھٹکتے (پھریں )
کفار کی ضد کا حال : 75: وَلَوْ رَحِمْنٰھُمْ وَکَشَفْنَامَا بِہِمْ مِّنْ ضُرٍّ (اگر ہم ان پر مہربانی کردیتے اور ان کی تکلیف کو دور کردیتے) جب اللہ تعالیٰ نے کفار کو قحط کے ساتھ پکڑا تو خون اور اون سے تیار شدہ کھانا ان کو کھانا پڑا ابو سفیان رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم اور رحم کا واسطہ دیتا ہوں۔ کیا تمہارا خیال نہیں کہ تم جہان والوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہو آپ نے فرمایا کیوں نہیں اس نے کہا۔ تم نے آباء کو تلوار سے قتل کیا اور اولاد کو بھوک سے ؟ پس یہ آیت اتری : ( ذکرہ الواحدی فی اسباب النزول) مطلب یہ ہے اگر اللہ تعالیٰ یہ تکلیف ان سے دور کر دے الضر سے وہ قحط مراد ہے جس نے ان کو آلیا تھا اور وہ آپ کی رحمت سے ان کو پہنچا تھا اور وہ خوشحالی پالیں۔ لَّلَجُّوْا (تو ضرور جمے رہیں) فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ (اپنی سرکشی میں سرگرداں پھرتے رہیں گے) متردد رہیں گے۔ یعنی تو دوبارہ یہ تکبر، عداوت رسول ﷺ و عداوت مؤمنین کرنے لگیں گے اور یہ چاپلوسی وقتی ختم ہوجائے گی۔
Top