Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 75
وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر رَحِمْنٰهُمْ : ہم ان پر رحم کریں وَكَشَفْنَا : اور ہم دور کردیں مَا بِهِمْ : جو ان پر مِّنْ ضُرٍّ : جو تکلیف لَّلَجُّوْا : ارے رہیں فِيْ : میں۔ پر طُغْيَانِهِمْ : اپنی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بھٹکتے رہیں
اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو تکلیفیں ان کو پہنچ رہی ہیں، وہ دور کردیں تو اپنی سرکشی پر اڑے رہیں (اور) بھٹکتے (پھریں)
ولو رحمنہم وکشفنا مابہم من ضر للجوا فی طغیانہم یعمہون۔ اور اگر ہم ان پر مہربانی کردیتے اور ان کو جو تکلیف ہے اس کو دور کردیتے تب بھی یہ لوگ اپنی گمراہی میں بھٹکتے سرگرداں پھرتے رہتے۔ ضُرٍّ (دکھ) یعنی وہ عذاب جس میں خوشحال لوگوں کو مبتلا کیا گیا تھا خواہ اس سے مراد جنگ بدر میں مارا جانا ہو۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے یا قحط مراد ہو ‘ جیسا کہ ضحاک کا قول ہے ‘ یہ دونوں قول اوپر ذکر کردیئے گئے ہیں۔ لَّلَجُّوْاتب بھی یہ اڑے رہیں۔ دشمنی پر جمے رہیں۔ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یعنی اپنے غرور اور حد سے بڑھے ہوئے کفر اور رسول اللہ ﷺ : کی دشمنی میں مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان پر رحم نہیں کیا اور اگر مہربانی کر کے ان کے دکھ کو دور کردیتے تب بھی یہ کفر پر اڑے رہتے اور اپنی گمراہی میں سرگرداں پھرتے رہتے۔ نسائی اور حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ابو سفیان نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا ‘ محمد ﷺ میں تم کو اللہ کا اور قرابت داری کا واسطہ دیتا ہوں (کہ اس مصیبت کو دور کرنے کی دعا کر دو ) اب تو ہم اون اور خون بھی کھانے لگے (بھوک سے انتہائی مجبور ہوگئے) اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top