Tafheem-ul-Quran - Al-Muminoon : 75
وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر رَحِمْنٰهُمْ : ہم ان پر رحم کریں وَكَشَفْنَا : اور ہم دور کردیں مَا بِهِمْ : جو ان پر مِّنْ ضُرٍّ : جو تکلیف لَّلَجُّوْا : ارے رہیں فِيْ : میں۔ پر طُغْيَانِهِمْ : اپنی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بھٹکتے رہیں
اگر ہم اِن پر رحم کریں اور وہ تکلیف جس میں آج کل یہ مُبتلا ہیں ، دُور کردیں تو یہ اپنی سرکشی میں بالکل ہی بہک جائیں گے۔ 72
سورة الْمُؤْمِنُوْن 72 اشارہ ہے اس تکلیف و مصیبت کی طرف جس میں وہ قحط کی بدولت پڑے ہوئے تھے۔ اس قحط کے متعلق روایات نقل کرتے ہوئے بعض لوگوں نے دو قحطوں کے قصوں کو خلط ملط کردیا ہے جس کی وجہ سے آدمی کو یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے یا بعد کا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کے دور میں اہل مکہ کو دو مرتبہ قحط سے سابقہ پیش آیا ہے۔ ایک نبوت کے آغاز سے کچھ مدت بعد۔ دوسرا، ہجرت کے کئی سال بعد جب کہ ثمامہ بن اثال نے یمامہ سے مکہ کے طرف غلے کی بر آمد روک دی تھی۔ یہاں ذکر دوسرے قحط کا نہیں بلکہ پہلے قحط کا ہے۔ اس کے متعلق صحیحین میں ابن مسعود ؓ کی یہ روایت ہے کہ جب قریش نے نبی ﷺ کی دعوت قبول کرنے سے پیہم انکار کیا اور سخت مزاحمت شروع کردی تو حضور ﷺ نے دعا کی کہ اللھم اعنی علیہم بسبع کسبع یوسف، " خدایا، ان کے مقابلے میں میری مدد یوسف کے ہفت سالہ قحط جیسے سات برسوں سے کر "۔ چناچہ ایسا سخت قحط شروع ہوا کہ مردار تک کھانے کی نوبت آگئی۔ اس قحط کی طرف مکی سورتوں میں بکثرت اشارات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الانعم، 42 تا 44۔ الاعراف 94 تا 99۔ یونس، 11۔ 12۔ 21۔ النحل، 112۔ 113۔ الدخان 10۔ 16 مع حواشی۔
Top