Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 75
وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر رَحِمْنٰهُمْ : ہم ان پر رحم کریں وَكَشَفْنَا : اور ہم دور کردیں مَا بِهِمْ : جو ان پر مِّنْ ضُرٍّ : جو تکلیف لَّلَجُّوْا : ارے رہیں فِيْ : میں۔ پر طُغْيَانِهِمْ : اپنی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بھٹکتے رہیں
(اور اگر ہم ان کو کسی آزمئاش میں ڈالنے کے بعد) پھر ان پر رحم کرتے اور ان کی تکلیف دور کردیتے تو وہ بدستور اپنی سرکشی ہی پر اڑے اسی طرح بھٹکتے رہتے
آنحضرت کو تسلی تاریخ کی روشنی میں اس آیت میں عربیت کے معروف اسلوب کے مطابق، شرط میں سے کچھ حصہ، بربنائے وضاحت قرینہ حذف ہے۔ اس حذف کو کھول دیجیے تو پوری بات یوں ہوگی کہ اگر ہم ان کو بطور تنبیہ کسی مصیبت میں مبتلا کرتے کہ ان کے اندر کچھ خوف خدا اور تضرح پیدا ہو، پھر ان پر رحم کرتے اور ان کی مصیبت دور کردیتے تو یہ پھر اپنی اسی سرکشی میں پڑے ہوئے اسی طرح بھٹکتے رہتے۔ مطلب یہ ہے کہ اس ذہنیت کے لوگوں کو عذاب کی نشانیاں بھی، جن کا یہ مطالبہ کرتے ہیں، کوئی نفع نہیں پہنچاتیں۔ اگر ان سے ان کی گردنوں میں ذرا خم پیدا ہوتا بھی ہے تو محض وقتی طور پر پیدا ہوتا ہے۔ مصیبت کے دن گزرتے ہیں ان کے لیڈر یہ سبق پڑھانا شروع کردیتے ہیں کہ اس طرح کے نرم و گرم حالات تو قوموں کو پیش آیا ہی کرتے ہیں، اس کو ہمارے ایمان و اخلاق سے کیا تعلق ! … یہ پیغمبر ﷺ کو تسلی دی گی ہے کہ یہ عذاب کی کوئی نشانی مانگتے ہیں تو اس کو کوئی اہمیت نہ دو۔ اس قماش کے لوگوں کو کوئی نشانی نفع نہیں پہنچاتی۔
Top