Asrar-ut-Tanzil - Al-Maaida : 101
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے لَا تَسْئَلُوْا : نہ پوچھو عَنْ : سے۔ متعلق اَشْيَآءَ : چیزیں اِنْ تُبْدَ : جو ظاہر کی جائیں لَكُمْ : تمہارے لیے تَسُؤْكُمْ : تمہیں بری لگیں وَاِنْ : اور اگر تَسْئَلُوْا : تم پوچھوگے عَنْهَا : ان کے متعلق حِيْنَ : جب يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ : نازل کیا جارہا ہے قرآن تُبْدَ لَكُمْ : ظاہر کردی جائینگی تمہارے لیے عَفَا اللّٰهُ : اللہ نے درگزر کی عَنْهَا : اس سے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
اے ایمان والو ! ان چیزوں کے بارے سوال نہ کرو جو اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر قرآن کے نازل ہوتے ہوئے ان کے بارے پوچھو گے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی اللہ نے ایسی باتوں (کو پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے اور اللہ بخشنے والے بردبار ہیں
رکوع نمبر 14 ۔ آیات 101 تا 108 ۔ اسرار و معارف : فضول سوالات کی ممانعت : انسان سیکھنے کے لیے سوال کرتا ہے اگر پوچھے گا نہیں تو عمل کیسے ممکن ہے ؟ کہ عمل کے لیے جاننا شرط ہے اور جاننے کے لیے پوچھنا پڑتا ہے لیکن فضول کرید کرنا اور غیر متعلقہ سوالات کرتے رہنا درست نہیں خصوصاً ایسی حالت میں کہ قرآن نازل ہورہا ہے آپ سوال کریں گے تو اس کا جواب ضرور آئے گا ممکن ہے تمہاری منشاء کے مطابق نہ ہو اور تمہیں بات پسند نہ آئے تو اس سے بہتر ہے کہ سوال ضرور کریں مگر جس کی ضرورت ہو اور جو بات آپ کی رہنمائی کرسکے نیز نزول قرآن کا تعلق ایک خاص زمانے سے ہے یہاں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اس کے بعد وحی کا سلسلہ ختم ہوجائے گا کہ جواب آنے کو نزول قرآن سے خاص کردیا جب نزول قرآن ختم ہوگا تو اگرچہ فضول سوال کرنا پھر بھی اچھی بات نہ ہوگی اس وقت وحی منقطع ہوچکی ہوگی۔ اور کوئی جواب نہیں آئے گا اس سے ثابت ہوا کہ آپ ﷺ کے بعد وحی کے نازل ہونے کا دعوے کرنے والا کذاب ہے۔ ہاں جو گذر چکا وہ گذر چکا اسے بھول جائیں کہ اللہ بخشنے والے اور بڑے بردبار ہیں لوگوں کو اسی کی ذات نے برداشت کر رکھا ہے ورنہ اس کے سوا کسی میں اس مخلوق کو خصوصاً آج کے دور کی انسانیت کو برداشت کرنے کی جرات کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا اور تم سے پہلے لوگوں نے اس طرح کرید کی نتیجہ یہ ہوا کہ بالآخر خود کافر ہوگئے اللہ کریم نے جو نہیں کہا تھا کرنے لگے جیسے یہ لوگ اللہ کی طرف سے کرتے ہیں حالانکہ اللہ نے کوئی بحیرہ سائبہ وصیلہ اور حام وغیرہ نہیں بنائے نہ ایسا کرنے کا حکم دیا۔ یہاں یہ عرض کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے مشائخ کے ساتھ بھی زیادہ مین و میخ نہیں نکالنا چاہئے بلکہ سیدھا معنی جو سمجھ میں آئے درست ہے اگر کرید کریں گے تو پابندیاں بڑھتی چلی جائیں گی مثلا شیخ نے فرمایا درود شریف پڑھا کرو بات ختم ۔ کوئی سا درود شریف ایک تسبیح دو تسبیح اپنی فرصت اور مزاج کے مطابق پڑھ لو ، انشاء اللہ وہی فائدہ نصیب ہوگا جس کا وعدہ ہوا۔ لیکن کونسا پڑھوں پھر ایک خاص درود مقرر ہوگیا کتنی بار روزانہ ؟ پھر ایک پابندی بڑھوالی۔ اب ان پابندیوں سے نہیں پڑھے گا تو فائدہ نہ ہوگا تو نتیجہ گمراہی کا اندیشہ ہے جیسے یہ مشرکین اب اپنی طرف سے دین گھڑ کر اس پر عمل کرتے ہیں۔ بحیرہ جس جانور کا دودھ بتوں کے نام وقف ہوجاتا تھا۔ سائبہ ، جو جانور بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیا جاتا۔ حامی ، نر اونٹ جو ایک خاص عدد مادہ سے جفتی کرچکا ہو بتوں کے لیے وقف کردیتے۔ وصیلہ ، ایسی اونٹنی جو مسلسل مادہ بچہ دے اور کوئی نر نہ جنا ہو۔ ان سب کا حکم انہوں نے اپنی طرف سے گھڑ لیا یعنی فضول سوالات کرکے پابندیاں لگوانا۔ یا از خود رسوم ایجاد کرکے انہیں اچھا تصور کرلینا یہ دونوں کام غلط اور برائی کے ہیں اور کفار کی مصیب یہ ہے کہ اپنے مذہب کو حق ثابت کرنے کے لیے اکثر اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں اور نہایت بےوقوفی کی بات ہے غضب کا شکار ہونے کے لیے کفر کیا کم تھا جو اللہ پر جھوٹ باندھنا شروع کردیا۔ معیار امانت : اور جب اللہ کے دین کی طرف دعوت دی گئی کہ آو ! سب مل کر اس بات پر عمل پیرا ہوں جو اللہ کریم نے نازل فرمائی ہے اور رسول اللہ ﷺ کا اتباع اختیار کریں تو کہتے ہیں بھئی ہم باپ دادا کی رسومات کیسے چھوڑ دیں۔ اگر ہم آج ان کی پیروی چھوڑ دیں تو اس کا معنی تو یہ ہوا کہ ہم نے انہیں بیوقوف اور جاہل سمجھ لیا۔ بھئی ! حق بات یہ ہے کہ تمہارے باپ داد کے پاس اگر اللہ کی کتاب یا نبی کی تعلیمات تھیں تو بتا دو یا یہ بتاؤ کہ اگر ان کے پاس یہ علوم تھے تو کیا ان پر عمل پیرا بھی تھے۔ یعنی مقتداء ہونے کی دو شرائط ارشاد فرما دی ہیں کہ ہر کس و ناکس اس قابل نہیں ہوتا کہ آدمی اس کے پیچھے دوڑنا شروع کردے اور نہ بھیڑ چال درست ہے کہ جدھر لوگ جا رہے ہیں ہم بھی ادھر ہی جائیں گے بلکہ سب سے پہلے تو اپنے مقصد کو معین کرنا ضروری ہے اپنا ٹارگٹ مقرر کرو کہ آپ کو کہاں جانا ہے آپ کی منزل کیا ہے ؟ جب یہ ہوجائے تو پھر تلاش کریں کہ اس منزل پر جانے والے راستے سے واقفیت کس کو ہے۔ یہ علم ہے اور پھر دیکھیں کہ راستہ تو جانتا ہے لیکن کیا خود اس کی منزل بھی وہی ہے جو میری ہے اسی طرف چل رہا ہے اگر چل کسی اور طرف رہا ہے تو اس کے پیچھے چلنے سے فائدہ نہ ہوگا۔ ہاں ! اسی طرف چل بھی رہا ہے تو پھر ٹھیک ہے اس کی پیروی اختیار کرلو کوئی حرج نہیں اور یہی تقلید کہلاتی ہے کہ ایسے نیک اور متقی و پارسا لوگ جو علوم کے بھی سمندر تھے اور عمل کی معراج پر تھے جنہوں نے ایک ایک قدم اٹھانے اور رکھنے سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی راہنمائی اور آپ کے نزوش کف پا کو تلاش کیا ان کے پیچھے اللہ کی رضا کی تلاش میں چلنا ہی ائمہ کی تقلید ہے اور بس۔ اور یہی معیار امامت قرآن نے بتایا بھی ہے نہ یہ کہ آجکل کی مروجہ لیڈری جس نے قوم اور ملک کو سوائے تباہی اور جھوٹ ، مکر و فریب اور ظلم و جور کے کچھ دیا ہی نہیں یہ بھی بہت بڑا ظلم ہے کہ جاہل اور بےعمل افراد کے پیچھے لگ کر انہیں قومی لیڈر اور راہنما بنا دیا جائے جبکہ علم اور عمل میں کھررا ہونا قیادت کی اہلیت قرار دی گئی ہے۔ اور ہر مسلمان پر مقدور بھر محنت و کوشش کرنا فرض ہے جو وہ کرسکتا ہے ضرور کرے اپنی کوشش کرنے کے بعد تم بےفکر ہو پھر اگر کوئی گمراہی سے باز نہیں آتا نہ آئے ، تم خود کو ہدایت پہ قائم رکھو اور دوسروں کی ہدایت کے لیے مقدور بھر کوشش کرتے رہو یہ تمہاری ذمہ داری ہے اس کے بعد بھی اگر کسی نے غلط راستہ ہی اپنایا تو تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ تم سب کو اللہ کے پاس لوٹ کرجانا ہے اور وہاں تمہارا ایک ایک کام اور ایک ایک کردار سامنے آجائے گا۔ وصیت۔ زندگی اور موت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اگر موت آجائے تو دو معتبر اور دیانت دار آدمیوں کے روبرو وصیت کردو اچھی بات ہے گواہ مسلمان ہوں لیکن اگر مسلمان موجود نہ ہوں تو دوسری اقوام کے سربر آوردہ اشخاص بھی گواہ بنائے جاسکتے ہیں خصوصاً اگر سفر کی حالت میں موت آجائے تو کسی کو وصی بنا دے اگر مسلمان نہیں تو غیر مسلم کو بنا کر بتا دے کہ میرے اس مال کو فلاں جگہ میرے ورثاء تک ہپنچا دو پھر سب آپس میں شرعی حصے کے مطابق تقسیم کرلیں گے اگر ایک سے زیادہ ہوں یا دو ہوں اور عادل مسلمان ہوں تو بہت بہتر ورنہ غیر مسلم بھی بنائے جاسکتے ہیں۔ یہی وصی کا معاملہ روافض نے اپنے کلمہ کا جز گھڑ لیا ہے لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ اساس ہی جھوٹ پر ہے عمار کیا ہوگی ؟ اب اگر بات میں اختلاف پیدا ہوجائے تو نماز تک گواہوں کو روک لو ، بیشک نماز ادا کرکے قسم دیں یا مدعی گواہ دے۔ شرعی حیثیت سے حقدار ثابت ہو تو ٹھیک ورنہ قسم دے اگر قسم سے انکار کردے تو مقدمہ اس کے خلاف فیصلہ ہوگا یا عدالت کی رائے کے مطابق مدعا علیہ سے قسم طلب کی جاسکتی ہے اور پوری شدت سے جسے وقت اور جگہ سے زیادہ شدت پیدا کی جاسکتی ہے مثلاً نماز کے بعد باوضو مسجد کے اندر وغیرہ اگر قسم دے تو درست ورنہ مقدمہ ہار جائے گا۔ غرض دو باتیں یہاں ارشاد فرمائی گئی ہیں کہ عند الموت اگر ہوسکے تو مرنے والا وصی مقرر کردے کسی ایسی دولت یا جائیداد کے بارے جس کا علم ورثاء کو نہ ہو کہ ان تک پہنچائے وصی کافر بھی مقرر کیا جاسکتا ہے نیز اگر ایک سے زائد ہوں تو اور اچھی بات ہے پھر بھی اگر ورثاء کو اعتراض ہو تو گواہ پیش کریں اگر یہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو وہ قسم دے اور قسم میں شدت پیدا کرنا مناسب ہے وقت اور محل کے اعتبار سے اور حق بات یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور یہ قانون یاد رکھو کہ اللہ بدکاروں کو تو ہدایت کی توفیق نہیں دیتے جب تک کوئی برائی سے باز نہ آئے اسے چھوڑ کر توبہ نہ کرے پکڑ کر زبردستی نیکی کی طرف نہیں لایا جاتا بلکہ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کی سزا کے طور پر توبہ کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے۔
Top