Asrar-ut-Tanzil - Al-Ghaafir : 172
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا (نکالی) رَبُّكَ : تمہارا رب مِنْ : سے (کی) بَنِيْٓ اٰدَمَ : بنی آدم مِنْ : سے ظُهُوْرِهِمْ : ان کی پشت ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد وَاَشْهَدَهُمْ : اور گواہ بنایا ان کو عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں اَلَسْتُ : کیا نہیں ہوں میں بِرَبِّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے بَلٰي : ہاں، کیوں نہیں شَهِدْنَا : ہم گواہ ہیں اَنْ : کہ (کبھی) تَقُوْلُوْا : تم کہو يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّا : بیشک ہم كُنَّا : تھے عَنْ : سے هٰذَا : اس غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
اور جب آپ کے پروردگار نے بنی آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور اس سے خود ان کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ؟ کہنے لگے کیوں نہیں ! ہم (اس بات کے) گواہ ہیں (کہ آپ ہمارے پروردگار ہیں) کہیں قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہیں
رکوع نمبر 22 ۔ آیات 172 ۔ تا۔ 181 اسرار و معارف : اور جہاں تک دینی شعور کا تعلق ہے تو وہ ازل ہی سے انسان میں ودیعت فرما دیا گیا تھا پہلی بات تو یہ ہے کہ ارواح عالم امر سے متعلق ہے اور یہ عالم تخلیق سے بلند تر براہ راست صفات باری سے متعلق ہے پھر ارواح کو پیدا فرما کر یونہی چھوڑ نہیں دیا گیا بلکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے پھر ان کی اولاد در اولاد کی پشت سے قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد آدم کو نکال کر یکجا جمع فرما دیا اور ان سے خطاب فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو سب نے کہا کہ بیشک اے اللہ تو ہی ہمارا رب ہے اور سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم نہ صرف اقرار کرتے ہیں بلکہ ہم اس بات کے گواہ بھی ہیں اور یوں وہ خود اپنی جانوں کے بھی گواہ قرار پائے۔ عہد الست ارواح سے یا بدن سے بھی تھا۔ یعنی تکبر یہ ہے کہ اپنی رائے کو سب سے حتی کہ احکام شریعہ سے بھی بالا سمجھے تو اس کا یقینی نتیجہ فساد ہے محض اچھے کپڑے پہننا یا اچھا گھر اور اچھی گاڑی اگر حلال ذرائع سے نصیب ہو اور دکھاوے کے لیے نہ ہو ضرورت کے لیے ہو تو یہ بھی شکر ادا کرنے کا ایک انداز ہے لیکن اگر ذاتی نمائش کے لیے ہو تو تکبر شمار ہوگا اور دونوں صورتوں میں نتائج الگ الگ برآمد ہوں گے اور حق یہ ہے کہ عاقبت و آخرت کی سرفرازی انہی لوگوں کے لیے ہے جو دنیا میں پورے خلوص کے ساتھ اللہ کی اطاعت کا راستہ اختیار کرتے ہیں جو بھی نیک عمل کے ساتھ میدان حشر میں حاضر ہوگا وہ اپنے اعمال کی نسبت بہت زیادہ صلہ پائے گا اور جو اپنے ساتھ گناہ اور برائیاں لائے گا وہ یقینا انہی برائیوں کا بدلہ پائے گا کہ وہی کچھ وہ کرکے لایا ہوگا۔ اقرار ربوبیت اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ جس عظیم ذات نے آپ پر قرآن کی تبلیغ اور اس پر عمل فرض کیا ہے اور جس کی وجہ سے آپ کو ہجرت کرنا پڑی وہ آپ کو اپنے شہر عزیز میں یعنی مکہ مکرمہ میں واپس لائے گا یہ ہجرت کے موقع پر نازل ہونے والی آیت فتح مکہ کی نوید بھی سنا رہی ہے اور یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ قرآن کریم پر عمل اور اس کے غلبہ کے لیے کوشش کی جائے تو بفضل اللہ فتح نصیب ہوتی ہے اور ایسی جماعت کبھی شکست سے دوچار نہیں ہوتی۔ اور ان سے کہ دیجئے کہ بھلائی اور برائی کا معیار یہ لوگ نہیں بلکہ اللہ کی پسند ہے لہذا وہ خوب جانتا ہے کہ کون حق پر ہے اور کون گمراہی میں پڑا ہوا ہے۔ بھلا آپ کو کیا خبر تھی کہ آپ کو یہ عظ مت رسالت نصیب ہوگی اور اللہ کی آخری کتاب آپ پر نازل ہوگی یہ تو سب اللہ کی رحمت ہے اور اس کا بےپناہ احسان ہے لہذا آپ کفار کی پرواہ نہ کیجیے ایسا نہ ہو کہ یہ آپ کو رواداری کے نام پر آپ کو اللہ کے احکام کی تبلیغ سے روکنے کی کوشش کریں بلکہ علی الاعلان اللہ کی طرف دعوت دیجیے اور کبھی ان مشرکین کا ساتھ مت دیجیے۔ اے مخاطب اللہ کے برابر کسی سے امید وابستہ نہ کر اور نہ کسی کو پکار اس لیے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی اس کا مستحق نہیں۔ اور سوائے ذات باری کے ہر شے مخلوق اور فانی ہے صرف اللہ کا حکم سب پر جاری ہے اور سب اس کے سامنے جوابدہ ہیں۔ بیوی کو پیدا فرمایا وہ قادر مطلق حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرح ان کی زوجہ محترمہ حضرت حوا کو بھی تو مٹی سے پیدا کرسکتا تھا اور پھر ہمیشہ ساری انسانیت کو بھی اسی طرح پیدا کرنے پہ قادر تھا مگر اس نے کوئی علیحدہ وجود پیدا کرنا پسند نہیں فرمایا بلکہ اسی ایک وجود سے دوسرے کو تخلیق اور پھر ان دونوں کو مزید افرادِ انسانیت کے پیدا کرنے کا سبب بنا دیا اور اس سے طرح سے مرد و عورت کو جہاں میں پھیلا دیا۔ رنگ مختلف ہوسکتے ہیں زبان کا فرق ہوسکتا ہے قد و قامت جدا جدا ممکن ہے مگر اصل سب کی ایک ہے اور تمام افرادِ انسانیت ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ ایک بدن کے اجزا ہیں اس لیے انہیں محبت ہی زیب دیتی ہے اور ایک دوسرے کے حقوق کی نگہداشت کی امید کی جاسکتی ہے۔ کہ ایک درخت کی شاخیں اور پتے آپس میں دشمن نہیں ہوتے بلکہ اگر شاخیں الجھ جائیں تو چھاؤں اور گھنی ہوجاتی ہے ایسے ہی افراد انسانیت میں اگر اختلاف یا الجھاؤ پیدا ہو تو انسانیت کی بہتر کے لیے سایہ مزید گھنا کرنے کے لیے تو ہوسکتا ہے تباہی کا تصور انسانیت کے منافی ہے جب ہی تو اسلام نے کافر تک کے حقوق مقرر فرما دئیے ہیں اور اس پر بھی ظلم و زیادتی کرنے کی اجازت نہیں دی چہ جائیکہ مومن ایک دوسرے پر یا مرد اپنی بیویوں پر ورثاء اپنے یتیم عزیزوں پر زیادتی کریں تو یہ بات ہرگز ہرگز اللہ کریم کو پسند نہیں۔ یاد دلایا کہ جب تمہیں اپنا حق طلب کرنا ہو تو کیا نہیں کہتے ہو کہ اللہ سے ڈرو اور میرا حق ادا کردو یا قریبی رشتے کا واسطہ دیتے ہو کہ دیکھو آپس میں تو یہ بات زیب نہیں دیتی ، فرمایا یہ درست ہے مگر جب تمہاری اپنی باری آئے تب بھی تو خیال رکھو کہ اللہ کریم سب کا رب ہے اور رشتہ داری میں سب کی اصل ایک فرد ہے پھر رب جلیل ہمارے ہر حال کو دیکھ رہا ہے کیفیات باطنی تک اس سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ سو نہ صرف طلب حقوق میں بلکہ ادائے فرائض میں بھی اس کا خیال رکھو۔ یتیموں سے برتاؤ : اور یتیم بچوں کو تو تمہاری ذاتی توجہ کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ان کی طرف سے تو کوئی مطالبہ کرنے والا بھی نہیں۔ انہیں ان کے اموال سے ہرگز محروم نہ کرو اور حرام کو حلال سے نہ بدبو یا برے کو اچھے مال سے تبدیل نہ کرو۔ دونوں صورتیں مفسرین نے تحریر فرمائی ہیں کہ تمہارے پاس جو مال ہے حلال اور جائز اس میں مال یتیم ناجائز طور پر شامل کرکے اسے خراب نہ کردیا کرو ان کے مال میں کوئی اچھی چیز لباس برتن جانور وغیرہ ہو تو اس کی جگہ کمتر شامل کردیا جائے اور وہ لے لیا جائے جیسا کہ عموماً قبل اسلام لوگوں کا وطیرہ تھا تو ایسا ہرگز نہ کرو کہ یہ بہت بڑا وبال ہے اور بہت سخت گناہ ہے کہ جرم تو ہے ہی مگر اس پر جو غضب مرتب ہوتا ہے اور جس قدر رحمت باری سے محرومی ہوتی ہے وہ دوسرے جرائم کی نسبت سے بہت زیادہ ہوتی ہے اگرچہ مال بلوغت پہ لوٹایا جاتا ہے اور بعد بلوغت تو کوئی بھی یتیم نہیں رہتا۔ مگر یہاں چونکہ یتیم ہی کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ فرمایا کہ یتیموں کو ان کا مال لوٹا دو ۔ احادیث مبارکہ میں صلہ رحمی یعنی رشتہ داری کے حقوق کا خیال رکھنے کی فضیلت اور آپس میں محبت سے رہنا پھر اس بھائی چارے کو وسعت دے کر پوری انسانیت کی بہتری اور بھلائی کے لیے سرگرم عمل ہونا ہی کمال انسانیت ہے ایسے لوگ ہی اللہ کریم کے پسندیدہ لوگ ہیں جن کی محبت سے دوسروں کو آرام پہنچے اور جو خود انسانیت پر بوجھ ہیں وہ اللہ کے پسندیدہ بندے ہرگز نہیں ہوسکتے خصوصاً دوسروں کے مال پر نگاہ رکھنے والے لوگ تو کسی تعریف کے ہرگز مستحق نہیں۔ صورت ہو اور تم ان کے حقوق کی نگہداشت نہ کرسکو تو یتیم لڑکیوں سے شادی ہی نہ کرو بلکہ جو عورتیں نکاح میں حلال ہیں ان میں سے دو تین یا چار تک بیک وقت نکاح کرسکتے ہو مگر خیال رہے کہ ان سب کے حقوق کا خیال رکھنا پڑے گا یہ نہ ہو کہ نکاح تو کرلیا مگر کسی ایک کو تو محبوبہ بنا لیا اور دوسری بیویوں کی پرواہ نہ کی بلکہ سب کے حقوق برابر ہوں گے اور اختیار امور میں کسی کی حق تلفی جائز نہ ہوگی اگر یہ مشکل نظر آئے تو پھر ایک ہی بیوی رکھو یا باندی جو تمہاری ملکیت ہے۔ سو اس طرح امید ہے کہ خطا سے بچ جاؤ گے۔ تعدد ازواج : تعدد ازواج اسلام نے شروع نہیں کیا بلکہ قبل اسلام اس کا بہت زیادہ رواج تھا اور دنیا کی تمام قوموں میں بھی اور سب مذاہب میں بھی اسے جائز سمجھا جاتا تھا۔ نہ صرف عرب بلکہ ایران مصر ، بابل اور ہندوستان سب میں یہ رسم موجود تھی ہندوؤں کا اوتار کرشن سینکڑوں بیویاں رکھتا تھا اور آج بھی ویدوں سے غیر محدود تعدد ازواج ثابت ہے یہی حال وسط ایشیائی اقوام کا تھا اور پیرس و روم کی تاریخ دیکھئے نیز اس کی ضرورت و افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اکثر اقوام میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ مرد جنگوں وغیرہ میں کام آجاتے ہیں اور عورتیں ایسی صورت میں رہ جاتی ہیں کہ انہیں کسی آسرے کی ضرورت ہوتی ہے نیز عورت کی ذات کے مختلف تقاضے ایسے ہیں جن سے مرد آزاد ہے۔ سو اس طرح سے اگر متعدد عورتوں سے نکاح کی اجازت نہ ہوگی۔ تو دوسری صورت زنا ہے جو معاشرے میں پھیل جائے گا۔ جس کا عملی ثبوت مغرب کا معاشرہ پیش کر رہا ہے کہ اپنے متقدمین کے خلاف تعدد ازواج پر پابندی لگا دی مگر بغیر نکاح عورت کے ساتھ مراسم رکھنے میں کوئی پابندی نہیں یعنی نکاح کرنے کی اجازت نہیں داشتہ رکھ سکتے ہو۔ یہ سب صورتیں ناپسندیدہ تھیں کہ لوگ نکاح تو بہت زیادہ کرلیتے پھر ان کی پرواہ نہ کرتے تھے اور دوسری صورت میں زنا کے جرم کے علاوہ داشتہ کے کوئی حقوق بھی تو نہیں اسلام نے اس پہلو کی شاندار اصلاح فرمائی کہ تعدد ازواج کو چار تک کا پابند کردیا۔ کہ بیک وقت کوئی بھی مسلمان چار سے زائد بیویاں نہیں رکھ سکتا۔ چناچہ احادیث و سیرت میں موجود ہے کہ بعض صحابہ جب مسلمان ہوئے تو قبل اسلام ان کے نکاح میں دس یا آٹھ یا پانچ عورتیں تھیں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ چار رکھ لو جو چاہو اور باقی کو طلاق دے کر آزاد کردو یعنی ایک اصلاح تو یہ فرمائی کہ چار کی حد مقرر فرما دی پھر پوری تاکید سے سب بیویوں کے حقوق برابر قرار دئیے اور مساوات کی بہت زیادہ تاکید فرمائی۔ خلاف ورزی پر اللہ کریم کی سخت ناراضگی کا خوف دلایا۔ نیز شروع میں ہی ، ما طاب ، کہہ کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ جو عورت حلال ہو اور تمہیں پسند بھی ہو۔ کہ اس پسند کو حقوق کی نگہداشت میں بہت دخل ہوگا تو جب چاروں پسندیدہ ہوں گی تو مساوات اور آسان ہوجائے گی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ دلی چاہت کسی سے کم زیادہ ہو مگر عملی طور پر سب برابر ہوں اگر یہ مشکل نظر آئے جیسا کہ واقعی ہے تو پھر صرف ایک بیوی سے گذارہ کرو۔ یا لونڈی جو تمہاری ملکیت ہے اور بغیر نکاح کے حلال ہے یاد رہے کہ آج کے زمانہ میں وہ شرائط نہیں پائی جاتیں جو باندی کے لیے مقرر ہیں اس لیے کسی عورت کو خرید کر یا باندی بنا کر رکھنا جائز نہیں۔ اس شرط کی اور صورت کیا ہے یہ علیحدہ موضوع ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں۔ عورت پر اسلام کا احسان : اسلام نے حقوق نسواں کا علم اس دور میں بلند فرمایا جس دور میں عورت محض ایک کھلونا تھی جسے زندہ درگور تک کردیا جاتا تھا جس کی عزت و ناموس سر بازار نیلام ہوتی تھی حتی کہ بیویوں کو ملکیت سمجھا جاتا تھا اور مال کے ساتھ اولاد میں تقسیم بھی ہوتی تھیں۔ مغرب و مشرق ہر جگہ عورت تباہ حال تھی۔ کہ اسلام نے اس کا حق نہ صرف مقرر فرمایا بلکہ معاشرے میں اسے مناسب مقام دلوایا اور حدود مقرر فرما دیں۔ تب اقوام عالم میں یہ رسوا تھی اور اب اقوام عالم میں عیاشی کا ذریعہ اور اشتہار کی زینت بنی ہوئی ہے۔ مشرق ہو یا مغرب سوائے اسلام کے کسی معاشرے میں عورت کا نہ حال ہے اور نہ مستقبل عزت و ناموس نام کی کوئی شئے اس کے پاس نہیں۔ اس کے باوجود اسلام کے تعددازواج کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پھر حیرت ہوتی ہے کہ ناموس رسالت یپہ حملے کئے جاتے ہیں اور اعتراض ہوتے ہیں۔ کفار سے تو گلہ نہیں خود مسلمان کی سمجھ میں بھی پتھر پڑگئے۔ ایک صاحب جو لندن سے چند دن کے لیے تشریف لائے تھے فرمانے لگے کہ ہمارے مولوی کو آپ ﷺ کی زندگی کا یہ پہلو بیان ہی نہیں کرنا چاہئے۔ سبحان اللہ ! انہیں یہ شعور نہیں کہ نبی معصوم ﷺ کی زندگی پاک کا یہ پہلو کس قدر روش اور درخشندہ تھا کہ مشرکین مکہ اور یہود عرب بھی اس پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ یہ حضور اکرم ﷺ کو اپنے اوپر قیاس کرتے ہیں ذرا دیکھیں کہ آپ ﷺ نے پچیس برس کنوارے پن میں گزارے اور پھر حضرت خدیجہ ؓ سے نکاح ہوا جو عمر میں آپ ﷺ سے بڑی تھیں پچیس برس حضور ﷺ کے ان کے ساتھ بسر ہوئے جو مثالی زندگی تھی جسے رب جلیل نے نبوت کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے باقی سارے نکاح پچاس سال کی عمر شریف کے بعد ہوئے جب عنفوان شباب گذر چکا تھا ان کی وفات کے بعد حضرت سودہ ؓ سے نکاح ہوا اور چار سال وہ تنہا رہیں عمر شریف چون سال تھیں جب 2 ھ میں عائشۃ الصدیق ؓ رخصت ہو کر آئیں۔ ایک سال بعد حضرت حفصہ ؓ کا نکاح ہوا پھر حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ کا جو ڈیڑھ سال بعد فوت ہوگئیں۔ 4 ھ میں ام سلمی ؓ اور 5 ھ میں زینب بنت جحش ؓ اس وقت عمر شریف اٹھاون برس تھی تب تک صرف چار ازواجِ مطہرات تھیں زاں بعد 6 ھ میں حضرت جویریہ اور 7 ھ میں ام حبیبہ ؓ حضرت صفیہ ؓ اور اسی سال حضرت میمونہ ؓ غرض عمر شریف کے چون برس ایک بیوی کے ساتھ بسر ہوئے اٹھاون برس کی عمر شریف تک چار چار اور اس کے بعد پانچ ازواج مطہرات جمع ہوئیں جن کا نکاح اطہر میں آنا جہاں حضور اکرم ﷺ کی خانگی زندگی کو امت تک پہنچانے کا ذریعہ تھا وہاں سیاسی اعتبار سے ریاست اسلام کو اس قدر فتوحات دینے کا سبب بنا جو سینکڑوں جنگوں سے حاصل ہونا ممکن نہ تھا۔ حضرت ام سلمہ ؓ اولاد ساتھ لائیں تو عملی زندگی میں یتیموں کی پرورش کا انداز سمجھ میں آیا۔ حضرت جویریہ ؓ کا نکاح ان کے پورے قبیلہ کی آزادی کا سبب بنا ام حبیبہ ؓ سے نکاح نے اہل مکہ کی کمر توڑ دی کہ ان کے سردار ابوسفیان کی بیٹی تھی۔ غرض جہاں تک تقدس ذات اور عصمت کا تعلق ہے تو وہ اعتراض تو مشرک بھی نہ کرسکے ہاں حضور اکرم ﷺ کی انفرادی خصوصیات بھی تھیں جیسے وصل کے روزے رات کی نمازیں آپ ﷺ کی جائیداد پر احکام وراثت کا نہ ہونا جسم اطہر کا شب معراج عرش عظیم تک جانا آپ ﷺ کی ازواج کا آپ کا آپ ﷺ کے وصال مبارک کے بعد کسی کے نکاح میں نہ آنا اسی طرح سے ان خوش نصیب خواتین کا اس عظمت سے سرفراز ہونا عطائے الہی ہے جہاں تک معترضین کا تعلق ہے ان کے منہ میں خاک ڈالنے کے لیے ذرا عمر شریف کا تجزیہ اور ان نکاحوں کے سیاسی فوائدجو ریاست اسلامی کو حاصل ہوئے اور دینی تعلیم مسلمانوں کے لیے نگاہ میں رہے اور پھر اللہ کریم کا ارشاد کہ ، لایحل لک النساء من بعد۔ یعنی اب ان کے علاوہ آپ کوئی نکاح نہیں کرسکتے یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ یہ ان خوش قسمت خواتین پر بھی اللہ تعالیٰ کا انعام تھا امت مرحومہ پر بھی احسان تھا اور ریاست اسلامی کے ساتھ ساتھ کفار تک کو ان کے فوائد محروم نہ رکھا کاش مسلمان اس پر معذرت کی بجائے اس موضوع کو پڑھیں کہ ان کے دل صاف ہوں اور انہیں اس پر فخر ہو نہ کہ ندامت۔ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ العزیز کا رسالہ ، کثرت ازواج لصاحب المعراف ، بھی بہت فائدہ مند ہے۔ دعوت حق : نیز ساری مخلوق تو گمراہ بھی نہیں بلکہ ایسی جماعت بھی ہے کہ حق کی دعوت دیتی ہے یعنی نہ صرف خود حق پر قائم ہیں ساتھ دوسروں کو بھی حق کی طرف بلاتے ہیں ۔ کے طور پر پیش فرمایا ہے باقی سارے نکاح پچاس سال کی عمر شریف کے بعد ہوئے جب عنفوان شباب گذر چکا تھا ان کی وفات کے بعد حضرت سودہ ؓ سے نکاح ہوا اور چار سال وہ تنہا رہیں عمر شریف چون سال تھیں جب 2 ھ میں عائشۃ الصدیق ؓ رخصت ہو کر آئیں۔ ایک سال بعد حضرت حفصہ ؓ کا نکاح ہوا پھر حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ کا جو ڈیڑھ سال بعد فوت ہوگئیں۔ 4 ھ میں ام سلمی ؓ اور 5 ھ میں زینب بنت جحش ؓ اس وقت عمر شریف اٹھاون برس تھی تب تک صرف چار ازواجِ مطہرات تھیں زاں بعد 6 ھ میں حضرت جویریہ اور 7 ھ میں ام حبیبہ ؓ حضرت صفیہ ؓ اور اسی سال حضرت میمونہ ؓ غرض عمر شریف کے چون برس ایک بیوی کے ساتھ بسر ہوئے اٹھاون برس کی عمر شریف تک چار چار اور اس کے بعد پانچ ازواج مطہرات جمع ہوئیں ۔ اور پیر تک اور حکمران سے لے کر عام کاشتکارو دکاندار تک ہر کوئی ذاتی خواہشات اور ذاتی لالچ اور نفع کے شکنجہ میں جکڑا ہوا ہے اس لیے سب تشتت و افتراق اور باہمی رنجش و نااتفاق کا شکار ہیں اللہ کرے کہ ہم پھر سے حق پرستی اختیار کرکے دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکیں۔
Top