Tafseer-al-Kitaab - Al-A'raaf : 172
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا (نکالی) رَبُّكَ : تمہارا رب مِنْ : سے (کی) بَنِيْٓ اٰدَمَ : بنی آدم مِنْ : سے ظُهُوْرِهِمْ : ان کی پشت ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد وَاَشْهَدَهُمْ : اور گواہ بنایا ان کو عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں اَلَسْتُ : کیا نہیں ہوں میں بِرَبِّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے بَلٰي : ہاں، کیوں نہیں شَهِدْنَا : ہم گواہ ہیں اَنْ : کہ (کبھی) تَقُوْلُوْا : تم کہو يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّا : بیشک ہم كُنَّا : تھے عَنْ : سے هٰذَا : اس غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
اور (اے پیغمبر، ان لوگوں کو وہ وقت بھی یاد دلاؤ) جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسلوں کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بنایا (اور ان سے پوچھا تھا) کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے جواب دیا، ہاں ہم (اس بات کے) گواہ ہیں۔ (یہ ہم نے اس لئے کیا کہ) قیامت کے دن کہیں تم یہ نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس بات سے بیخبر تھے
[66] اس آیت کی تفسیر میں جلیل القدر صحابی اور امام القرآ ابی بن کعب فرماتے ہیں : '' اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں ترتیب دے کر انہیں انسانی صورت اور گویائی عطا کی، پھر ان سے عہد و میثاق لیا اور انہیں آپ اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے عرض کیا ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین و آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھہراتا ہوں تاکہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا۔ خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو تم کو یہ عہد و میثاق جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو، یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا، اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے، آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں، آپ کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے اور نہ معبود، اس آیت میں وہ غرض بیان کی گئی ہے جس کے لئے ازل میں پوری نسل آدم سے اقرار لیا گیا تھا اور وہ یہ ہے کہ انسانوں میں جو لوگ اللہ سے بغاوت اختیار کریں وہ اپنے اس جرم کے پوری طرح ذمہ دار قرار پائیں اور انہیں اپنی صفائی میں نہ تو لاعلمی کا عذر پیش کرنے کا موقع ملے اور نہ وہ سابق نسلوں پر اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈال کر خود بری الذمہ ہو سکیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ازلی میثاق فی الواقع عمل میں آیا بھی تھا تو کیا اس کی یاد ہمارے شعور اور حافظہ میں محفوظ ہے ؟ اگر نہیں تو پھر اس کو ہمارے خلاف حجت کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس میثاق کا نقش انسان کے شعور اور حافظہ میں رہنے دیا جاتا تو انسان کا دنیا کی امتحان گاہ میں بھیجا جانا سرے سے فضول ہوتا کیونکہ اس کے بعد تو اس آزمائش و امتحان کے کوئی معنی باقی نہ رہ جاتے لہذا اس نقش کو شعور و حافظہ میں تو تازہ نہیں رکھا گیا لیکن وہ تحت الشعور میں یقینا محفوظ ہے۔ اس کا حال وہی ہے جو ہمارے تمام دوسرے تحت الشعوری اور وجدانی علوم کا حال ہے۔ تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاملات کے تمام شعبوں میں انسان سے آج تک جو کچھ بھی ظہور میں آیا ہے وہ سب درحقیقت انسان کے اندر بالقوۃ (Potential) موجود تھا۔ خارجی محرکات اور داخلی تحریکات نے مل جل کر اگر کچھ کیا ہے تو صرف اتنا کہ جو کچھ بالقوۃ تھا اسے بالفعل کردیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی چیز بھی جو انسان کے اندر بالقوۃ موجود نہ ہو تعلیم و تربیت، ماحولی تاثیر اور داخلی تحریک سے پیدا نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح یہ سب موثرات اگر اپنا تمام زور بھی صرف کردیں تو ان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ان میں سے جو انسان کے اندر بالقوۃ موجود ہیں کسی چیز کو قطعی طور پر محو کردیں وہ زیادہ سے زیادہ صرف یہ کرسکتے ہیں کہ اسے اصل فطرت سے منحرف کردیں لیکن وہ چیز تمام تحریفات کے باوجود موجود رہے گی۔ ظہور میں آنے کے لئے زور لگاتی رہے گی اور خارجی اپیل کا جواب دینے کے لئے مستعد رہے گی۔ یہ معاملہ تمام تحت الشعوری اور وجدانی علوم کے ساتھ عام ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ ٹھیک ٹھیک یہی کیفیت اس وجدانی علم کی بھی ہے جو ہمیں کائنات میں اپنی حقیقی حیثیت اور خالق کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں حاصل ہے اس کے موجود ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے ہر دور میں ابھرتا رہا ہے اور کبھی دنیا کی کوئی طاقت اسے محو کردینے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ اس کو ابھرنے اور ظہور میں آنے اور عملی صورت اختیار کرنے کے لئے ایک خارجی اپیل کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے، چناچہ انبیاء (علیہم السلام) یہی خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ اسی لئے قرآن میں ان کو مذکر (یاد دلانے والے) اور ان کے کام کو تذکیر (یاد دہانی) کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انبیاء انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتے بلکہ اسی چیز کو ابھارتے اور تازہ کرتے ہیں جو اس کے اندر پہلے سے موجود تھی نفس انسانی کی طرف سے اس تذکیر کا جواب بصورت لبیک ملنا، اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ اندرفی الواقع کوئی علم چھپا ہوا تھا جو اپنے پکارنے والے کی آواز پہچان کر جواب دینے کے لئے ابھر آیا۔
Top