Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 172
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا (نکالی) رَبُّكَ : تمہارا رب مِنْ : سے (کی) بَنِيْٓ اٰدَمَ : بنی آدم مِنْ : سے ظُهُوْرِهِمْ : ان کی پشت ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد وَاَشْهَدَهُمْ : اور گواہ بنایا ان کو عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں اَلَسْتُ : کیا نہیں ہوں میں بِرَبِّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے بَلٰي : ہاں، کیوں نہیں شَهِدْنَا : ہم گواہ ہیں اَنْ : کہ (کبھی) تَقُوْلُوْا : تم کہو يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّا : بیشک ہم كُنَّا : تھے عَنْ : سے هٰذَا : اس غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا اور انہیں ان کی جانوں پر گواہ بنایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا ہاں آپ ہمارے رب ہیں، ہم نے اقرار کرلیا، کبی تم قیامت کے دن کہنے لگو کہ بیشک ہم اس سے غافل تھے
(1) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذا اخذ ربک من بنی ادم “ کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا فرمایا اور اس سے وعدہ لیا کہ وہ اس کے رب ہیں اور اس کی مدت زندگی اس کا رزق اور اس کی مصیبت لکھ دی پھر اس کی اولاد کو اس کی پیٹھ سے چیونٹی کی مانند نکالا اور ان سے بھی وعدہ لیا کہ وہ ان کے بھی رب ہیں اور ان کی مدت ان کے رزق اور ان کے مصائب کو لکھ دیا۔ عہد الست کا تذکرہ (2) امام ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذ اخذ ربک من بنی ادم “ کے بارے میں فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا فرمایا تو ان کی اولاد کو ان کی پشت میں سے چیونٹیوں کی مانند نکالا پھر ان کو ان کے ناموں کے ساتھ پکارا اور فرمایا یہ فلاں بیٹا فلاں کا ہے اور یہ اس طرح اور اس طرح عمل کرے گا اور یہ فلاں بیٹا فلاں کا ہے اور یہ اس طرح اور اس طرح عمل کرے گا۔ پھر ان کو اپنے ہاتھ سے دو مٹھیوں میں پکڑا اور فرمایا یہ لوگ جنت میں ہوں گے اور یہ لوگ دوزخ میں ہوں گے۔ (3) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور الالکائی نے سننہ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا فرمایا پھر اس کی اولاد کو اس کی پیٹھ میں سے چیونٹی کی مانند نکالا۔ اور ان سے فرمایا تمہارا رب کون ہے ؟ انہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے پھر ان کو ان کی پیٹھ میں دوبارہ لوٹا دیا یہاں تک کہ قیامت قائم ہونے تک وہ سب پیدا ہوں گے جن سے میثاق لیا گیا نہ ان میں زیادتی کی جائے گی اور نہ ان میں کمی کی جائے گی یہاں تک کہ قیامت قائم ہوگی۔ (4) امام ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب آدم کو دحنا کی زمین پر اتارا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور اس سے تمام ارواح کو نکالا کہ جس کو وہ پیدا کرنے والے تھے قیامت کے دن تک پھر فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں سب نے کہا ہاں (آپ ہمارے رب ہیں) اس دن قلم خشک ہوگیا جو قیامت کے دن تک ہونے والا ہے۔ (5) امام عبد الرزاق اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اس کی پیٹھ میں سے قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد کو نکالا۔ اور ان سے وعدہ لیا کہ وہ ان کا رب ہے اور وہ اس کی اطاعت کریں گے۔ اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کو اس طرح جواب دیا کہ جب کسی کافر اور کسی دوسرے سے یہ سوال کیا جاتا ہے تیرا رب کون ہے تو وہ یہی کہتا ہے اللہ یعنی میرا رب ہے۔ (6) امام ابن شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے عبد العزیز عمر و ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذ اخذ ربک من بنی ادم “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو اس طرح نکالا جیسے سر سے کنگھی نکالی جاتی ہے۔ (7) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن منذر نے کتاب الرد علی الجھیمیہ میں اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کی پشت سے اس کی اولاد کو نکالا گویا کہ وہ پانی کی موج میں آنے والی چیونٹیاں ہیں۔ (8) امام عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنا دایاں ہاتھ آدم کے کندھے پر رکھا تو اس میں سے موتیوں کی طرح چمکتی ہوئی اولاد ہتھیلی میں نکلی تو فرمایا یہ جنت کے لئے ہے اور دوسرا ہاتھ ان کے بائیں کندھے پر مارا تو اس میں کوئلہ کی طرح سیاہ اولاد نکلی اور فرمایا یہ آگ کے لئے ہے اس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ لفظ آیت ” ولقد ذرانا لجھنم کثیرا من الجن والانس “۔ (9) امام عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور آپ اس وقت بطن نعمان میں تھے جو عرفہ کی جانب کی طرف ایک وادی ہے۔ اور اس میں سے ہر روح کو نکالا جو وہ پیدا کرنے والے تھے قیامت کے دن تک پھر ان سے وعدہ لیا اور یہ آیت تلاوت کی لفظ آیت ” ان یقولوا یوم القیمۃ “ اس طرح یا کے ساتھ آپ نے اس آیت کو پڑھا۔ (10) امام ابو الشیخ نے عبد الکریم بن ابی امیہ (رح) سے روایت کیا کہ اس کی پیٹھ میں سے چیونٹی کی طرح (مخلوق کو) نکالا۔ (11) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ روحوں سے اقرار کیا ایمان لانے اور اس کی معرفت کا اپنے جسموں کو پیدا کرنے سے پہلے۔ (12) امام ابن ابی شیبہ نے محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے روحوں کو پیدا فرمایا جسموں کو پیدا کرنے سے پہلے اور ان سے میثاق لیا۔ اولاد آدم سے عہد کس طرح لیا (13) امام ابن عبد البر نے تمہید میں سدی کی طریق سے ابو مالک اور ابو صالح سے روایت کیا اور انہوں نے ابن عباس اور مرۃ الہمدانی سے روایت کیا اور انہوں نے ابن مسعود اور بعض صحابہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظھورھم ذریتھم “ کے بارے میں فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو جنت سے نکالا تو آسمان سے نیچے اتارنے سے پہلے ان کی پشت کی داہنی جانب پر ہاتھ پھیرا اور اس میں سے موتیوں کی طرح چمکتی ہوئی اولاد کو چیونٹیوں کی مانند نکالا اور ان سے فرمایا میری رحمت سے جنت میں داخل ہوجاؤ پھر ان کی پشت کی بائیں جانب پر ہاتھ پھیرا اور اس میں سے سیاہ رنگ کی اولاد کو چیونٹیوں کی مانند نکالا اور فرمایا دوزخ میں داخل ہوجاؤ اور مجھ کو کوئی پرواہ نہیں۔ اس لئے فرمایا دائیں طرف اور بائیں طرف والے پھر ان سے وعدہ لیتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” الست بربکم، قالوا بلی “ ایک جماعت نے خوشی اور رضا مندی سے اقرار کیا۔ اور ایک جماعت نے تفیہ کے طور پر بغیر رضا مندی کے (اقرار کیا) تو اس پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا لفظ آیت ” شھدنا، ان تقولوا یوم القیمۃ انا کنا عن ھذا غفلین (172) او تقولوا انما اشرک اباؤنا من قبل “ اور صحابہ کرام ؓ نے فرمایا کہ آدم کی اولاد میں کوئی ایک ایسا نہیں ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ کو پہچانتا ہے کہ وہ اس کا رب ہے اسی کو اللہ عزوجل نے فرمایا لفظ آیت ” ولہ اسلم من فی السموت والارض طوعا وکرھا “ (عمران آیت 83) اور فرمایا لفظ آیت ” فللہ الحجۃ البالغۃ، فلوشاء لھدکم اجمعین “ (الانعام 149) یعنی پختہ عہد لینے کا دن۔ (14) امام ابن جریر نے اہل مدینہ میں سے ایک آدمی ابو محمد (رح) سے روایت بیان کی ہے کہ میں نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” واذاخذ ربک من بنی ادم من ظھورھم ذریتھم “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس طرح پوچھا تھا جیسے تو نے مجھ سے پوچھا ہے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا پھر اس میں اپنی روح میں سے پھونکا پھر ان کو بٹھا کر اپنے داہنے ہاتھ کو ان کی پشت پر پھیرا اور اس سے اولاد کو نکالا اور پھر فرمایا یہ اولاد ہے کہ ان کو میں نے آگ کے لئے پیدا کیا یہ وہ عمل کرتے رہیں گے جو میں نے چاہے پھر میں ان کا خاتمہ ان کے اعمال پر کروں گا اور ان کو دوزخ میں داخل کردوں گا۔ (15) امام عبد بن حمید، عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے زوائد المسند میں، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ، ابن منذہ نے کتاب الرد علی الجہیمیۃ میں، لالکائی، ابن مردویہ، بیہقی نے الاسماء والصفات میں اور ابن عساکر نے تاریخ میں ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ( ” واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظھورھم ذریتھم “ (سے لے کر) ” بما فعل المبطلون “ تک) کے بارے میں فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ان کی تمام اولادوں کو نکالا تو روھوں کو ان کی صورتوں میں رکھا پھر ان کو بولنے کی قوت عطا فرمائی چناچہ انہوں نے گفتگو کی پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد و میثاق لیا اور فرمایا لفظ آیت ” واشھدھم علی انفسھم، الست بربکم، قالوا بلی “ پھر فرمایا میں گواہ بناتا ہوں تم پر سات آسمانوں کو، اور میں گواہ بناتا ہوں تم پر تمہارے باپ آدم کو لفظ آیت ” ان تقولوا یوم القیمۃ “ (تاکہ قیامت کے دن یہ نہ کہو) ہم کو اس بارے میں کوئی علم نہیں۔ تم جان لو کہ میرے علاوہ کوئی معبود نہیں، میرے علاوہ کوئی رب نہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ عنقریب میں تمہارے پاس اپنے نبیوں کو بھیجوں گا۔ تم کو میرا عہد و میثاق یاد دلائیں گے اور میں تم پو اپنی کتابوں کو نازل کروں گا انہوں نے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ بلاشبہ تو ہمارا رب اور ہمارا معبود ہے تیرے علاوہ کوئی رب نہیں اور تیرے علاوہ ہمارا کوئی معبود نہیں۔ تو ان سب نے اقرار کیا اور تم کو ان پر بلند کیا گیا اور ان کی طرف دیکھ رہے تھے انہوں نے امیر کو اور گریب کو حسین و جمیل صورت والوں کو اور اس کے علاوہ دوسرے افراد کو دیکھا آدم نے عرض کیا اے میرے رب یہ کیوں نہ مساوات قائم کی اپنے بندوں کے درمیان فرمایا میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ میرا شکر کریں اور آپ نے انبیاء کو دیکھا ان میں وہ چراگوں کی طرح منور اور روشن تھے اور ان سے نبوت اور رسالت کے بارے میں خصوصی علیحدہ میثاق لیا گیا کہ وہ تبلیغ کریں اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے لفظ آیت ” واذ اخذنا من النبین میثاقھم “ (الاحزاب آیت 7) اور فرمایا لفظ آیت ” فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا “ اور اسی کے بارے میں فرمایا لفظ آیت ” وما وجدنا لاکثرھم من عھد، وان وجدنا اکثرھم لفسقین “ (الاعراف آیت 102) اور اسی کے بارے میں فرمایا لفظ آیت ” فما کانوا لیؤمنوا بما کذبوا من قبل “ (الاعراف آیت 101) فرمایا کہ اس دن اللہ کے علم میں تھا کہ کون اس کے ذریعہ جھوٹ بولے گا اور کون اس کی تصدیق کرے گا اور عیسیٰ کی روح بھی ان ارواح میں موجود تھی کہ جس سے اللہ تعالیٰ نے عہد و میثاق لیا تھا آدم کے زمانہ میں اور اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کو مریم کی طرف بھیجا آدمی کی صورت میں پس وہ اس کے سامنے ایک تندرست انسان کی صورت میں ظاہر ہوا اور حضرت ابی نے فرمایا وہ روح حضرت مریم (علیہا السلام) کے منہ سے ان کے اندر داخل ہوئی۔ (16) امام مالک نے مؤطا میں، احمد بن حمید، بخاری نے تاریخ میں، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن حبان، الآحری نے شریعۃ میں، ابو الشیخ، حاکم، ابن مردویہ، لالکائی، بیہقی نے الاسماء والصفات میں (امام ترمذی نے اس کو حسن بھی کہا ہے) مسلم بن یسار جہنی (رح) سے اور انہوں نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ اس آیت ” واذا اخذ ربک من بنی ادم من ظھورھم ذریتھم “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا فرمایا پھر اپنے داہنے ہاتھ کو ان کی پیٹھ پر پھیرا اور اس میں سے اولاد کو نکالا اور فرمایا میں نے ان کو جنت کے لئے پیدا کیا ہے اور جنت والے عمل کریں گے اور یہ دوزخ والے عمل کریں گے ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر عمل کس لئے ہے فرمایا بلاشبہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو جنت کے لئے پیدا فرماتا ہے تو اس سے جنت والوں کے اعمال کراتا ہے یہاں تک کہ وہ جنت والوں کے اعمال پر مرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرما دیتے ہیں اور جب کسی بندہ کو دوزخ کے لئے پیدا فرماتا ہے پھر اس سے دوزخ والوں کے اعمال کراتا ہے یہاں تک کہ وہ دوزخ کے اعمال پر مرتا ہے پھر اس کو اللہ تعالیٰ دوزخ میں داخل فرما دیتے ہیں۔ (17) امام احمد، نسائی، ابن جریر، ابن مردویہ، حاکم (اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں اور حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد سے عرفہ کے دن نعمان مقام پر وعدہ لیا اور اس کی پشت سے ہر اولاد کو نکالا اور ان کے آگے ان کو پھیلا دیا چیونٹیوں کی مانند پھر ان سے یہ کہہ کر کلام فرمایا لفظ آیت ” الست بربکم، قالوا بلی، شھدنا “ سے لے کر ” المبطلون “ تک۔ (18) امام ابن جریر اور ابن منذر نے کتاب الرد علی الجھیمیۃ میں عبد اللہ بن عمر و ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لفظ آیت ” واذاخذ ربک من بنی ادم من ظھورھم ذریتھم “ فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کی پشت سے اولاد کو اس طرح نکالا جیسے سر سے کنگھی نکالی جاتی ہے۔ اور ان سے فرمایا لفظ آیت ” الست بربکم، قالوا بلی “ تو فرشتوں نے کہا ” شھدنا، ان تقولوا یوم القیمۃ انا کنا عن ھذا غفلین “۔ قیامت پیدا ہونے والی تمام روحوں سے عید (19) امام ابن حاتم، ابن منذر، ابو الشیخ نے عظمۃ میں اور ابن عساکر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب آدم کو پیدا فرمایا تو اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے وہ تمام روحیں باہر آئیں جن کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک پیدا فرمایا تھا۔ پھر اس کو پسلیوں میں سے ایک پسلی کو اکھیڑا اور اس میں سے حوا کو پیدا فرمایا پھر ان سے عہد لیا (یعنی فرمایا) لفظ آیت ” الست بربکم قالوا بلی “ پھر آدم کی اولاد میں سے ہر روح نے اس کا نور اپنے چہرے پر کھینچا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسی آزمائش میں ڈال دیا جو اس کے لئے لکھ دی کہ وہ اس کو دنیا میں طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کر دے گا۔ پھر ان کو آدم کے سامنے پیش کیا اور فرمایا اے آدم یہ تیری اولاد ہے اور اس میں جزام والے، برص والے، اندھے اور دوسری قسم کی بیماریوں والے بھی تھے۔ آدم (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے رب میری اولاد کے ساتھ آپ نے ایسا کیوں فرمایا تاکہ وہ میری نعمتوں کا شکر ادا کریں۔ آدم (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے رب ! یہ کون لوگ ہیں جن کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ لوگوں میں ظاہر کئے گئے ہیں نور سے ؟ فرمایا تیری اولاد میں سے انبیاء ہیں۔ پھر عرض کیا یہ کون ہے کہ میں اس کو دیکھ رہا ہوں کہ ان میں سے اس کا نور تمام لوگوں سے بڑھ کر ظاہر ہے ؟ فرمایا یہ داؤد ہیں جو آخری امتوں میں سے ہوں گے۔ عرض کیا اے میرے رب اس کی عمر کتنی بنائی ہے ؟ فرمایا ساٹھ سال۔ عرض کیا اے میرے رب میری عمر کتنی بنائی ہے ؟ فرمایا اتنی اور اتنی عرض کیا اے میرے رب میری عمر میں سے چالیس سال اس کی عمر میں زیادہ کردیں یہاں تک کہ اس کی عمر سو سال ہوجائے فرمایا کیا تو ایسا کرے گا اے آدم ؟ عرض کیا ہاں اے میرے رب۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس کو لکھ دیا جائے اور اس کی مہر لگا دی جائے۔ پھر فرمایا بلاشبہ ہم نے لکھ کر مہریں لگا دی ہے۔ اور ہم پھر تبدیل نہیں کریں گے۔ عرض کیا اے میرے رب ایسا کر دیجئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا جب موت کا فرشتہ آدم کے پاس آیا تاکہ ان کی روح کو قبض کرے تو فرمایا اے ملک الموت تیرا کیا ارادہ ہے۔ انہوں نے کہا میں آپ کی روح قبض کرنے کا ارادہ کرتا ہوں فرمایا کیا میری مدت میں سے چالیس سال باقی نہیں ہیں۔ فرشتے نے کہا کیا آپ نے اپنے بیٹے داؤد کو نہیں دی تھی فرمایا نہیں ابوہریرہ ؓ فرمایا کرتے تھے آدم بھول گئے اور ان کی اولاد بھی بھول گئیں اور آدم نے انکار کیا اور ان کی اولاد نے بھی انکار کیا۔ (20) امام ابن جریر نے جویبر (رح) سے روایت کیا کہ ضحاک بن مزاحم کا چھ دن کا بیٹا مرگیا انہوں نے فرمایا جب میں نے اپنے بیٹے کو لحد میں رکھا تو اس کا چہرہ ظاہر کردیا اور اس کی گرہ کھول دی بلاشبہ میرے بیٹے کو بٹھایا جائے گا اور اس سے سوال کیا جائے گا۔ میں نے کہا کس چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا فرمایا اس اقرار کے بارے میں جو اس نے آدم کی صلب میں اقرار کیا تھا۔ ابن عباس ؓ نے مجھ سے بیان فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور اس میں سے تمام ارواح کو نکالا جس کو قیامت کے دن تک پیدا کرنا منظور تھا پھر ان سے اقرار کیا کہ وہ اس کی عبادت کریں گے اور کسی چیز کے ساتھ اس کو شریک نہیں بنائیں گے اور ان کے لئے رزق کی کفالت اٹھالی پھر ان کو اس کی پشت میں لوٹا دیا پس ہرگز قیامت قائم نہ ہوگی۔ یہاں تک کہ وہ ان تمام کو پیدا فرمائے گا جن سے اس دن اقرار لیا گیا تھا جس شخص نے ان میں سے دوسرے میثاق کا ادراک کرلیا اور اسے پورا کردیا تو اے پہلا میثاق نفع دے گا اور جس شخص نے دوسرا میثاق کا ارادہ کیا اور اس کا اقرار نہ کیا اسے پہلے میثاق نے کوئی نفع نہیں دیا اور جو شخص چھوٹا بچہ ہونے کی حالت میں مرگیا دوسرے میثاق کے پانے سے پہلے تو وہ اپنے پہلے میثاق کے مطابق فطرت پر فوت ہوگیا۔ (21) امام عبد بن حمید نے سلمان (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم کو پیدا فرمایا تو اس کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور اس میں سے ساری روحوں کو نکالا جو قیامت کے دن تک پیدا ہونے والی ہے پھر ان کی عمریں اور رزق اور اعمال اور شکایت اور سخاوت لکھ دی پس جسے سعادت کا علم ہوا اس نے خیر اور مجلس خیر کو اختیار کیا جسے شقاوت کا علم ہو اس نے بڑے اعمال اور بڑی مجالس کو اختیار کیا۔ (22) امام عبد بن حمید، حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں، ابو الشیخ نے عظمہ میں اور ابن مردویہ نے ابو امامہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا اور اس کو قضا فیصلہ فرمایا اور انہوں نے میثاق لیا اور اس کا عرش پانی پر تھا پھر دائیں والوں کو داہنے ہاتھ سے پکڑا اور بائیں والوں کو اپنے دوسرے ہاتھ سے پکڑا اور رحمن کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں پھر فرمایا اے داہنی طرف والو انہوں نے اللہ تعالیٰ کو جواب دیتے ہوئے کہا اے ہمارے رب لبیک وسعدیک فرمایا لفظ آیت ” الست بربکم، قالوا بلی “ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو انہوں نے کہا کیوں نہیں آپ ہمارے رب ہیں۔ پھر فرمایا اے بائیں ہاتھ والو انہوں نے اللہ تعالیٰ کو جواب دیتے ہوئے کہا اے ہمارے رب لبیک وسعدیک فرمایا لفظ آیت ” الست بربکم، قالوا بلی “ پھر ان میں سے بعض آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا اے میرے رب تو نے کیوں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا فرمایا لفظ آیت ” ولہم اعمال من دون ذلک ہم لہا عملون “ (المؤمنون آیت 63) پھر فرمایا ” ان تقولوا یوم القیمۃ انا کنا عن ھذا غفلین “ پھر ان کو آدم کی پشت میں لوٹا دیا جنت والے اس کے لائق ہیں اور دوزخ والے اس کے لائق ہیں ایک کہنے والے نے کہا یا رسول اللہ پھر اعمال کیا ہیں فرمایا ہر قوم اپنے مراتب اور درجات کے لئے کام کرتی ہے، عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا تو ہم محنت کریں گے۔ (23) امام عبد بن حمید، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا فرمایا تو ان کی پشت پا ہاتھ پھیرا اور اس کی پشت میں سے وہ روحیں نکل پڑیں جس کو قیامت کے دن تک اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد میں سے پیدا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر انسان کی آنکھوں کے درمیان نور کی چمک رکھ دی پھر اس کو آدم کے سامنے پیش کیا پوچھا اے میرے رب ! یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ لوگ تیری اولاد ہیں ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا اس کی آنکھوں کے درمیان کی چمک نے ان کو تعجب میں ڈال دیا پوچھا اے میرے رب یہ کون ہے فرمایا تیری اولاد میں سے آخری امتوں میں سے ایک آدمی ہے جس کو داؤد کہا جائے گا پوچھا اے میرے رب اس کی کتنی عمر رکھی ؟ فرمایا ساٹھ سال عرض کیا اے میرے رب میری عمر میں سے چالیس سال اس کے لئے زیادہ کردیں، جب آدم کی عمر پوری ہوگئی تو ملک الموت آئے آدم نے فرمایا کیا میری عمر میں سے چالیس سال باقی نہیں ہیں ملک الموت نے کہا کیا آپ نے داؤد کو نہ دئیے تھے فرمایا انہوں نے انکار کیا اور ان کی اولاد نے بھی انکار کیا اور وہ بھول گئے تو ان کی اولاد بھی بھول گئی۔ (24) امام ابن ابی الدنیا نے کتاب الشکر میں، ابو الشیخ اور بیہقی نے شعب میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا فرمایا تو ان کی دائیں جانب سے جنت والوں کو نکالا اور ان کی بائیں جانب سے دوزخ والوں کو نکالا تو وہ سب زمین پر رینگنے لگے۔ ان میں اندھے، بہرے، برص کی بیماری والے، اپاہج اور قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہونے والے تھے۔ آدم نے فرمایا اے میرے رب آپ نے میری اولادوں کو ایک جیسا کیوں نہیں کیا ؟ فرمایا اے آدم میں نے ارادہ کیا کہ میرا شکر کیا جائے پھر اللہ تعالیٰ نے ان سب کو آپ کی پشت میں لوٹا دیا۔ (25) امام عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے الشعب میں قتادہ (رح) اور حسن ؓ دونوں حضرات سے روایت کیا جب آدم پر ان کی اولاد کو پیش کیا گیا تو انہوں نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت والا دیکھا، عرض کیا اے میرے رب آپ نے ان کے درمیان برابری کو کیوں نہیں رکھا ؟ فرمایا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ وہ میرا شکر کریں فضل والا اپنی فضیلت کو دیکھے گا تو وہ میری یعریف کرے گا اور میرا شکر کرے گا۔ بکر (رح) سے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ اولاد آدم کی تقسیم جنت و جہنم کی طرف (26) امام ابن جریر، بزار، طبرانی الاجری نے شریعۃ میں، ابن مردویہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں حشام بن حکیم ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا کیا اعمال کو دیکھا جائے گا یا حتمی فیصلہ ہوچکا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد کو ان کی پشتوں سے پکڑا پھر ان کو ان کے نفسوں پر گواہ بنایا پھر ان کو اپنی ہتھیلیوں میں تقسیم کردیا اور فرمایا یہ لوگ جنت میں ہوں گے اور یہ لوگ دوزخ میں ہوں گے جنت والوں کے لئے جنت والوں کے اعمال آسان کئے جاتے ہیں اور دوزخ والوں کے لئے دوزخ کے لئے دوزخ والوں کے اعمال آسان کئے جاتے ہیں۔ (27) امام طبرانی اور ابن مردویہ نے معاویہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد کو ان کی پشت میں سے نکالا یہاں تک کہ زمین کو بھر دیا اور وہ اس طرح تھے کہ آپ نے اپنے دست مبارک کو دوسرے سے ملا دیا۔ (28) امام حکیم ترمذی نے نوادرا لاصول میں اور ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے سوال کیا تو مشرکین کی اولاد مجھ کو عطا کردی گئی جنت والوں کی خدمت کے لئے اس وجہ سے کہ انہوں نے شرک میں سے نہیں پایا جو ان کے آباؤ اجداد نے پایا تھا۔ اور وہ پہلے میثاق میں شامل تھے۔ (29) امام احمد، بخاوی اور مسلم نے انس ؓ سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن دوزخ والوں میں سے ایک آدمی سے کہا جائے گا تو بتا اگر زمین پر موجود ہر چیز تیری ہوجائے تو اس کے عوض اسے قربان کر دے گا ؟ اب وہ کہے گا ہاں اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔ میں نے تو اس سے بھی زیادہ آسان چیز کا تجھ سے ارادہ کیا تھا کہ جب تو اپنے باپ آدم کی پیٹھ میں تھا تو میں نے تجھ سے یہ وعدہ لیا تھا کہ تو میرے ساتھ شریک نہیں کرے گا تو نے انکار کیا اور میرے ساتھ شریک ٹھہراتا رہا۔ (30) امام ابن ابی شیبہ اور ابن جریر نے علی بن حسین ؓ سے روایت کی ہے کہ وہ (عورتوں سے) عزل کیا کرتے تھے (کہ منی کو عورت کو فرج میں نہیں گرنے دیتے تھے) جماع کے وقت اور اس آیت ” واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظھورھم ذریتھم “ کی تاویل کرتے تھے۔ تدبیر تقدیر پر غالب نہیں آسکتی (31) امام سعید بن منصور اور ابن مردویہ نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو عزل کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے فرمایا تم پر لازم نہیں ہے کہ تم نہ کرو اگر وہ ان میں سے ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے میثاق لیا تو وہ چٹان پر بھی ہو تو اس میں روح پھونک دی جائے گی۔ (32) امام احمد اور ابن ابی حاتم نے انس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عزل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا اگر وہ پانی ایسا ہے کہ اس سے لڑکا (پیدا) ہونا ہے اور وہ کسی چٹان میں ڈال دیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس میں سے وہ نکال لے گا جو اس نے مقرر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ضرور پیدا کریں گے اس جان کو کیونکہ وہی اس کا خالق ہے۔ (33) امام عبد الرزاق نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ عزل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ نے میثاق لیا ہوا ہے کسی آدمی کی صلب سے پیدا ہونے والے نفس سے پھر وہ اسے کسی چٹان پر گرا دے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور چٹان سے نکال لائے گا اگر تو چاہے تو عزل کر اور اگر تو چاہے تو عزل نہ کر۔ (34) امام عبد الرزاق نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا ہے کہ لوگ کہتے تھے وہ نطفہ جس کا اللہ تعالیٰ نے اس سے بچہ (پیدا کرنے کا) ارادہ فرما لیا ہے اگر وہ کسی چٹان پر بھی گرجائے تو اللہ تعالیٰ اس سے ضرور بچے کو پیدا فرمائے گا۔ (35) امام عبد الرزاق نے مصنف میں اور ابو الشیخ نے فاطمہ بنے حسین ؓ سے روایت کیا جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد سے میثاق لیا تو اس کو رکن (یعنی حجر اسود) میں رکھ دیا پس حجر اسود کا بوسہ لینا اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرنے میں سے ہے۔ (36) امام ابو الشیخ نے جعفر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ میں ابو محمد بن علی (رح) کے ساتھ تھا۔ ان کو ایک آدمی نے کہا اے ابو جعفر اس رکن کو کب پیدا کیا گیا تو انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا فرمایا تو آدم کی اولاد سے فرمایا لفظ آیت ” الست بربکم، قالوا بلی “ تو سب نے اقرار کیا اور ایک نہر کو جاری کیا گیا جو سمندر سے زیادہ میٹھی اور مکھن سے زیادہ نرم تھی پھر قلم کو حکم فرمایا اس نے اس نہر سے روشنائی لی تو قلم نے ان کا اقرار اور قیامت کے دن تک ہونے والے سارے واقعات لکھ دئیے پھر اس کتاب کو یہ پتھر نگل گیا پس یہ چومنا جس کو تو دیکھتا ہے یہ ان کے اقرار کے مطابق معاہدہ ہے جو انہوں نے اقرار کیا تھا۔ (37) امام ابن جریر اور ابو شلیخ نے ابن عباس ؓ سیروایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کی پیٹھ پر ضرب لگائی تو ہر وہ جان نکل آئی جو جنت کے لئے پیدا کی گئی تھی انتہائی صاف سفید رنگ میں اور فرمایا یہ لوگ جنت کے لئے ہیں اور ہر وہ جان نکل آئی جو دوزخ کے لئے پیدا کی گئی تھی سیاہ رنگ میں اور فرمایا یہ لوگ دوزخ والے ہیں ہم رائی کے دانے کی مثل چھوٹی چیونٹی کی صورت میں تھے فرمایا اے اللہ کے بندو اللہ کا کہنا مانو اے اللہ کے بندو اللہ کی اطاعت کرو انہوں نے کہا اے اللہ ہم حاضر ہیں ہم نے تیری اطاعت کی اے اللہ ہم نے تیری اطاعت کی اے اللہ ہم نے آپ کی اطاعت کی اور یہ وہی الفاظ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو مناسک حج میں بطور تلبیہ عطا فرمائے۔ یعنی ” لبیک الہم لبیک “ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنے ساتھ ایمان لانے کا وعدہ لیا یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے امر کا اقرار کرنے کا اور اس کی معرفت کا عہد لیا۔ (38) امام جندی نے فضائل مکہ میں ابو الحسن القطان نے طوالت میں، حاکم اور بیہقی نے شعب الایمان میں (بیہقی نے اس کو ضعیف بھی کہا ہے) ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے عمر بن خطاب ؓ کے ساتھ حج کیا جب طواف میں داخل ہوئے تو حجر اسود کا بوسہ لیا ار فرمایا بیشک میں جانتا ہیوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ تو نقصان دے سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھ کو بوسہ نہ دیتا پھر اس کو بوسہ دیا۔ علی بن ابی طالب ؓ نے ان سے فرمایئا اے امیر المؤمنین، بیشک یہ نقصان بھی دیتا ہے اور نفع بھی دیتا ہے پوچھا کیسے ؟ فرمایا یہ کتاب اللہ سے ثابت ہے پوچھا یہ اللہ کی کتاب میں کہاں ہے ؟ علی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” واذ اخذ ربک بنی ادم من ظھورھم ذریتھم “ سے لے کر ” بلی “ تک۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا فرمایا اور اولاد آدم سے وعدے اور اقرار لئے اور اس بات کو سفید کاغذ پر لکھ دیا اور اس پتھر کو دو آنکھیں اور زبان تھی اس سے فرمایا اپنے منہ کو کھول اس نے اپنا منہ کھولا اور اس کاغذ کو لقمہ بنا لیا اور کہا میں قیامت کے دن اس شخص کی گواہی دوں گا جس نے پورا کیا وعدہ کو اور بیشک میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن حجر اسود کو لایا جائے گا اور اس کی تیز زبان ہوگی۔ گواہی دے گا اس شخص کے لئے جس نے توحید کے ساتھ اس کا بوسہ لیا تھا۔ اور یہ ہے امیر المؤمنین (کہ پتھر) نقصان دے گا اور نفع دے گا۔ عمر ؓ نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ اس قوم میں میں زندہ ہوں کہ تو ان میں نہ ہو اے ابو الحسن۔ (39) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذاخذ ربک “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو اپنی ہتھیلی میں لیا گویا کہ وہ اولین و آخرین کے گوشت کے ٹکڑے ہیں پھر ان کو الٹ پلٹ کیا اپنے ہاتھ میں دو یا تین مرتبہ وہ اپنے ہاتھ کو الٹتے پلٹتے جب تک اللہ نے چاہا اس میں سے پھر ان کو ان کے باپوں کی صلبوں میں لوٹا دیا یہاں تک کہ ان کو قرنا بعد قرنا نکالا پھر اس کے بعد فرمایا ” وما وجدنا لاکثرہم من عھد “ (الاعراف آیت 103) پھر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ” یایھا الذین امنوا واذکروا نعمۃ اللہ علیکم ومیثاقہ الذی واثقکم بہ “ (المائدہ آیت 7) (40) امام بیہقی نے الاسماء والصفات میں عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا فرمایا تو اس کو جھاڑ دیا (جیسے) توشہ دان کو جھاڑنا پھر اس سے کیڑوں کی مثل اولاد نیچے کرگئی پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے دو قبضے بھرے جو دائیں ہتھیلی میں تھے اور فرمایا یہ جنتی ہے۔ جو دوسری ہتھیلی میں تھے ان کے لئے فرمایا کہ یہ جہنم میں ہوں گے۔ (41) امام ابن سعد اور احمد نے عبد الرحمن بن قتادہ سلمی (رح) سے روایت کی ہے کہ جو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے تھے کہ انہوں نے رسول الہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا فرمایا پھر مخلوق کو اس کی پشت میں سے نکالا اور فرمایا یہ لوگ جنت میں ہوں گے اور مجھ کو کوئی پرواہ نہیں۔ اور یہ لوگ دوزخ میں ہوں گے اور مجھ کو کوئی پرواہ نہیں۔ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ پھر ہم عمل کس لئے کریں ؟ فرمایا تقدیر کے مطابق عمل کرتے رہو۔ (42) امام احمد بزار اور طبرانی نے ابو درداء ؓ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا جب ان کو پیدا فرمایا تو اس کے داہنے کندھے پر ہاتھ مارا۔ تو اس میں سے سفید اولاد نکلی گویا کہ وہ چونٹیاں ہیں اور اس کے بائیں کندھے پر ہاتھ مارا تو اس میں سے کالی اولاد نکلی گویا کہ وہ کوئلہ ہیں پھر ان دائیں ہاتھ والوں کے بارے میں فرمایا یہ جنت کے لئے ہیں اور مجھ کو کوئی پرواہ نہیں پھر بائیں کندھے والوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ جہنم کے لئے ہیں اور مجھ کو کوئی پرواہ نہیں۔ (43) امام براز، طبرانی الاجری اور ابن مردویہ نے ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کے پیدا ہونے کے دن ان کی پشت میں سے دو مٹھی بھری تو واقع ہوگئی ہر پاکیزہ (مخلوق) ان کے دائیں ہاتھ میں اور ہر ناپاک چیز ان کے دوسرے ہاتھ میں پھر فرمایا یہ لوگ جنت والے ہیں اور مجھ کو کوئی پرواہ نہیں اور یہ لوگ دوزخ والے ہیں اور مجھ کو کوئی پرواہ نہیں۔ پھر ان کو آدم کی پشت میں لوٹا دیا وہ اس وقت سے اب تک پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ (44) امام بزار، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے دو مٹھیوں کے بارے میں فرمایا یہ جنت میں ہوں گے اور مجھ کو کوئی پرواہ نہیں۔ (45) امام بزار اور طبرانی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے دو مٹھیوں کے بارے میں فرمایا یہ اس جنت کے لئے ہیں اور یہ اس دوزخ کے لئے ہیں لوگ علیحدہ ہوگئے اور وہ تقدیر میں اختلاف نہیں رکھتے۔ (46) امام حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں، آجری نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا فرمایا تو آدم کے داہنے حصہ پر ہاتھ مارا۔ تو اس میں سے چیونٹیوں کی مانند اولاد نکلی اور فرمایا اے آدم یہ تیری اولاد جنت والوں میں سے ہے پھر آدم کے بائیں حصہ پر ہاتھ مارا تو اس میں سے کوئلے کی طرح (کالی) اولاد نکلی۔ پھر فرمایا یہ تیری اولاد ہے دوزخ والوں میں سے۔ اللہ تعالیٰ کی دو مٹھی میں سے میں کس میں ہوں ؟ (47) امام احمد نے ابو نصر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کے اصحاب میں سے ایک آدمی تھا جس کو ابو عبید کہا جاتا تھا اس کے دوست ان کی عیادت کے لئے آئے تو وہ رو رہے تھے انہوں نے کہا کس چیز نے تجھ کو رلایا ؟ کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے داہنے ہاتھ سے ایک مٹھی بھری اور دوسرے ہاتھ سے دوسری مٹھی بھری اور فرمایا یہ اس کے لئے ہیں اور یہ اس دوزخ کے لئے ہیں اور مجھ کو کوئی پرواہ نہیں میں نہیں جانتا کہ میں کونسی مٹھی میں ہوں ؟ (48) امام ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایک مٹھی بھری اور فرمایا یہ جنت کے لئے ہیں میری رحمت کے ساتھ اور ایک اور مٹھی بھری اور فرمایا یہ لوگ دوزخ کے لئے ہیں اور مجھ کو کوئی پرواہ نہیں۔ (49) امام عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس دن آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا اس دن آپ کی پشت سے (ساری) مخلوق کو نکالا جو قیامت کے دن تک ہونے والی تھی اور ان کو چیونٹی کی مانند نکالا پھر فرمایا لفظ آیت ” الست بربکم، قالوا بلی “ فرشتوں نے کہا ہم بھی گواہی دیتے ہیں پھر اپنے دائیں ہاتھ سے ایک مٹھی بھری اور فرمایا یہ لوگ جنت میں ہوں گے پھر دوسری مٹھی بھری اور فرمایا یہ لوگ آگ میں ہوں گے اور مجھ کو کوئی پرواہ نہیں۔ (50) امام ابن منذر اور ابو الشیخ نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان تقولوا یوم القیمۃ انا کنا عن ھذا غفلین “ یعنی اس میثاق کے متعلق ہے جو ان سے لیا گیا ” او تقولوا انما اشرک اباؤنا “ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اولاد آدم میں سے یہ کہنے کی طاقت نہیں رکھتا ” وکنا ذریۃ من بعدھم، افتہلکنا “ کے ہمارے آباؤ اجداد نے شرک کیا اور انہوں نے میثاق کو توڑ دیا اور ہم تو ان کے بعد ان کی اولاد تھے تو کیا تو ہمارے آباء کے گناہوں اور ان کے شرک کے سبب ہلاک کرتا ہے جو باطل پرستوں نے کیا تھا۔
Top