Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 172
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا (نکالی) رَبُّكَ : تمہارا رب مِنْ : سے (کی) بَنِيْٓ اٰدَمَ : بنی آدم مِنْ : سے ظُهُوْرِهِمْ : ان کی پشت ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد وَاَشْهَدَهُمْ : اور گواہ بنایا ان کو عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں اَلَسْتُ : کیا نہیں ہوں میں بِرَبِّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے بَلٰي : ہاں، کیوں نہیں شَهِدْنَا : ہم گواہ ہیں اَنْ : کہ (کبھی) تَقُوْلُوْا : تم کہو يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّا : بیشک ہم كُنَّا : تھے عَنْ : سے هٰذَا : اس غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
اور (اس واقعہ کا ذکر کیجیے) جب آپ کے پروردگار نے نکالا اولاد آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ان کی نسل کو پیدا کیا اور خود انہی کو انکی جانوں پر گواہ کیا،248 ۔ (اور کہا) کہ کیا میں تمہارا پروردگا نہیں ہوں ؟ بولے ضرور ہیں ہم گواہی دیتے ہیں (یہ اس لیے ہوا) کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس سے بیخبر تھے،249 ۔
248 ۔ (بقدر ضرورت انہیں سمجھ عطا کرکے) واقعہ عالم ارواح کا بیان ہورہا ہے۔ اوپر ذکر بنی اسرائیل کے میثاق توحید کا تھا۔ اور اس سے پہلے بھی بنی اسرائیل کو بار بار ان کا میثاق توحید یاد دلایا جاچکا ہے۔ اس پر سوال ہوسکتا تھا کہ اسرائیلی میثاق دنیا کی غیر اسرائیلی آبادی کے لیے کیونکر حجت بن سکتا ہے ؟ اب بیان اس کا ہورہا ہے کہ توحید کا عہد تو ساری نسل انسانی سے لیا جا چکا ہے اور توحید شناسی، توحید پرستی انسان کی فطرت میں راسخ کی جا چکی، اور بشر کی سرشت میں رچی جاچکی ہے۔ فطرت اگر مسخ نہیں ہوچکی ہے تو ایک خالق و رازق ومربی کا اعتراف ہر فطرت سلیم کا جزو ہے۔ ھی عامۃ لجمیع الناس لان کل احد یعلم انہ کان طفلا فغذی وربی وان لہ مدبرا وخالقا (قرطبی) (آیت) ” من ظھورھم ذریتھم “۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب پہلے پشت آدم (علیہ السلام) سے نسل آدم وجود میں آچکی ہے۔ من ظھورھم ترکیب میں من بنی ادم سے بدل اشتمال ہے۔ بدل اشتمال من قولہ من بنی ادم والفاظ الایۃ تقتضی ان الا خذانھا کان من بنی ادم۔ (قرطبی) 249 ۔ (اور ہم پر اس کی ذمہ داری ہی نہیں عاید ہوتی) (آیت) ” عن ھذا “۔ یعنی اس عقیدۂ ربوبیت اور عقیدۂ توحید سے (آیت) ” شھدنا “۔ یہ قول بلی کے تسلسل میں ذریت آدم ہی کی زبان سے ہے۔ شھدنا من بقیۃ کلام الذریۃ (کبیر) قال ابن عباس وابی بن کعب قولہ شھدنا ھو من قول بنی ادم (قرطبی) معنی یہ ہوئے کہ اعتراف توحید ان کے دل میں اتر گیا اور یہ نقش ان کی فطرت میں جم گیا۔ اے نصب لھم دلائل ربوبیتہ ورکب فی عقولھم مایدعوھم الی الاقرار بھا حتی صاروا بمنزلۃ من قیل لھم الست بربکم قالوا بلی فنزل تمکینھم من العلم بھا وتمکنھم منہ بمنزلۃ الاشھاد والاعتراف علی طریق التمثیل (بیضاوی) ایک قول یہ بھی نقل ہوا ہے کہ (آیت) ” شھدنا “۔ کلام باری تعالیٰ ہے اور بلی کا تتمہ نہیں بلکہ مستقل عبارت ہے یعنی بنی آدم کے اس میثاق توحید پر حق تعالیٰ کی شہادت۔ ھو خبر من اللہ عن نفسہ وملائکتہ (ابن جریر عن السدی) وقد قیل ان قولہ شھدنا من قول اللہ تعالیٰ والملائکۃ والمعنی فشھدنا علی اقرارکم قالہ ابومالک وروی عن السدی ایضا (قرطبی) (آیت) ” قالوا بلی “۔ یہ اقرار خالق گویا ان پر واجب ہوگیا ہے۔ اے ان ذالک واجب علیھم (قرطبی) (آیت) ” ان تقولوا “۔ یعنی تاکہ کہیں یہ نہ کہنے لگو۔ ای کراھۃ ان تقولوا (بیضاوی)
Top