Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 172
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ
وَاِذْ
: اور جب
اَخَذَ
: لیا (نکالی)
رَبُّكَ
: تمہارا رب
مِنْ
: سے (کی)
بَنِيْٓ اٰدَمَ
: بنی آدم
مِنْ
: سے
ظُهُوْرِهِمْ
: ان کی پشت
ذُرِّيَّتَهُمْ
: ان کی اولاد
وَاَشْهَدَهُمْ
: اور گواہ بنایا ان کو
عَلٰٓي
: پر
اَنْفُسِهِمْ
: ان کی جانیں
اَلَسْتُ
: کیا نہیں ہوں میں
بِرَبِّكُمْ
: تمہارا رب
قَالُوْا
: وہ بولے
بَلٰي
: ہاں، کیوں نہیں
شَهِدْنَا
: ہم گواہ ہیں
اَنْ
: کہ (کبھی)
تَقُوْلُوْا
: تم کہو
يَوْمَ الْقِيٰمَةِ
: قیامت کے دن
اِنَّا
: بیشک ہم
كُنَّا
: تھے
عَنْ
: سے
هٰذَا
: اس
غٰفِلِيْنَ
: غافل (جمع)
اور اے نبی لوگو کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا " کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ " انہوں نے کہا " ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ " ہم تو اس بات سے بیخبر تھے "
درس نمبر 81 ایک نظر میں اس سبق کا موضوع عقیدہ توحید اور رد شرک ہے۔ اس پوری سورة میں لائے جانے والے قصوں کا موضوع بھی یہی عقیدہ توحید تھا ، اس پہلو سے کہ تمام رسولوں نے اسی عقیدے کی طرف دعوت دی تھی اور تمام رسولوں نے لوگوں کو شرک کے انجام بد سے ڈاریا تھا۔ لیکن یاد دہانی اور ڈراوے کے بعد وہ حالات پیش آئے جن سے ڈرایا گیا تھا۔ لیکن اس سبق میں توحید کے مسئلے کو ایک نئے زاوئیے سے لیا گیا ہے۔ گہرے رخ سے اس پر بات کی گئی ہے۔ انسانی فطرت کے زاویہ سے جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ انسان جب عالم ذریت میں تھا تو اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات اور بشرتی سے یہ عہد لیا تھا کہ آیا میں تمہارا رب ہوں یا نہیں ، اقرار ربوبیت کو فطرت انسانی میں ودیعت کردیا گیا اور حقیقت بھی یہ ہے کہ بشریت انسانی وجود کی گہرائیوں میں اپنے خالق اور رب کے وجود کا شعور رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد رسول کیوں آئے ہیں تو رسولوں کی آمد محض تذکیر کے لیے ہوتی ہے اور ایک رسول بشیر و نذیر کی حیثیت سے آتا ہے۔ ان لوگوں کی اصلاح کے لیے آتا ہے جو فطرت سے انحراف کرچکے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ عقیدہ توحید در اصل ایک میثاق ہے جو فطرت انسانی اور خالق فطرت کے درمیان انسان کے ابتدائی دور کے وقت سے طے شدہ ہے۔ لہذا اس عہد کے توڑنے کے لیے انسان کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔ اگرچہ تذکیر اور یاد دہانی کے لیے ان کے پاس کوئی رسول نہ آیا ہو ، لیکن یہ اللہ کی خالص رحمت اور احسان ہے کہ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے منحرفین کی اصلاح کے لیے رسولوں کو ارسال کیا اور لوگوں کو محض ان کے عقول پر نہیں چھوڑ دیا گیا کیونکہ عقل غلطی کرسکتی ہے۔ چناچہ اللہ نے رسول بھیجے تاکہ لوگوں کے لیے کوئی حجت ہی نہ رہے کہ فطرت کے تقاضے کے علاوہ اب تو رسول بھی آگئے۔ اس سبق میں مسئلہ توحید کو اس زاویہ سے لیا گیا ہے اور اس زاویہ سے کئی خطوط کھینچے گئے ہیں۔ ایک تاریخی لکیر ہے۔ اس میں ایک شخص کے تاریخی کردار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اس کا تعلق بھی تاریخ بنی اسرائیل کے ساتھ ہے۔ لیکن راجح بات یہ ہے کہ اس کا کسی خاص اور متعین واقعہ یا خاص زمان و مکان کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ یہ در اصل ایک نفسیاتی حالت کی تصویر کشی ہے جو بار بار پیش آتی رہتی ہے۔ مثلاً جس شخص کو اللہ نے علم دیا ہے تو اس علم کا تقاضا اور اس سے توقع یہی ہے۔ یہ شخص ہدایت یافتہ ہو اور حق پر قائم ہونے والا ہو۔ لیکن اچانک یہ غیر متوقع صورت حالات سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے علم کے تقاضوں سے بھاگ نکلتا ہے۔ وہ اپنے علم سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا۔ اور وہ راہ ضلالت پر اس شخص کے دوش بدوش چلتا ہے جو بالکل بےعلم ہے۔ بلکہ یہ عالم شخص اس بےعلم سے بھی زیادہ شر پسند ، گمراہ اور بدبخت ثابت ہوتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے کہ علم کو ایمان کی چاشنی نہ دی گئی ہو۔ کیونکہ ایمان کے رنگ سے ہی یہ علم کا چراغ روشن بن جاتا ہے۔ اور مسافر کے لیے روشنی کا مینار ہوتا ہے۔ ایک دوسرا خط یا دوسری لکیر ملاحظہ ہو۔ اس میں انسانی فطرت کے انحراف کا ایک دوسرا قصہ یا نمونہ بتایا گیا ہے کہ انسان کس ڈھٹائی کے ساتھ توحید کو چھوڑ کر شرک اختیار کرلیتا ہے۔ ایک شادی شدہ جوڑا ہے وہ اللہ کے سامنے دست بدعاء ہوتا ہے کہ اگر انہیں ایک صالح بچہ دیا گیا تو وہ صرف اللہ کا شکر ادا کریں گے۔ یہاں تک تو فطرت کے تقاضوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو یہ لوگ بھی خلاف توقع بچے کی پیدائش کے عمل میں دوسروں کو بھی شریک ٹھہراتے ہیں اور ان کی فطرت میں کجی آجاتی ہے۔ ایک تیسری لائن خود انسانی وجود کے اندر پائے جانے والی ادراکی قوتوں کے بارے میں ہے کہ اگر ان قوتوں کو صحیح طرح کام میں نہ لایا جائے تو ایک معقول انسان انسانیت کے مرتبہ اور مقام سے گر کر حیوانی سطح پر اتر آتا ہے اور پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جہنم کا مستحق ہو کر اس کا ایندھن بن جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی حالت یہ ہوتی کہ وہ دل رکھتے ہیں لیکن اس کے اندر جذبہ ادراک نہیں ہوتا۔ وہ آنکھیں رکھتے ہیں لیکن بینائی نہیں ہوتی ، وہ کان رکھتے ہیں لیکن سنتے ہی نہیں ہیں۔ ایسے لوگ ضلالت کے پیچھے اس طرح بھاگتے ہیں کہ نہ واپسی ہوتی ہے اور نہ واپسی کا موقع رہتا ہے۔ ایک اشاراتی لائن ہے ، ہدایت کی جاتی کہ دل و دماغ کو بیدار رکھو اور ہر معاملے میں غور و فکر کرتے رہو ، اس زمین و آسمان کے نظام مملکت کو دیکھو۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے کیا کیا پیدا کیا ہے اور پھر ہر چیز کے خاتمے کے لیے ایک وقت مقرر کردیا ہے۔ اس لیے تم رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر توجہ کرو اور غور کرو کہ اس دعوت کے حامل کو مجنون اور گمراہ کہا جاتا ہے۔ ایک لائن میں ان پر سخت تنقید لی گئی ہے اور یہ تنقید ان الہوں کے بارے میں ہے جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں۔ حالانکہ وہ جن کو پکارا جاتا ہے الہیت کی ابتدائی خصوصیات سے بھی عاری ہیں بلکہ ان میں تو زندگی کے معمولی آثار بھی ناپید ہیں۔ یہ سبق اس بات پر ختم ہوتا ہے کہ آپ کو ہدایت دی جاتی ہے کہ آپ انہیں اور ان کے خداؤں کو چیلنج دیں کہ وہ کچھ تو پکاریں۔ کہا جاتا ہے کہ آپ ان سے مکمل بائیکاٹ کا اعلان فرما دیں اور ان کے معبودوں اور عبادت سے علیحدہ ہوجائیں اور اس مولیٰ کے ہاں پناہ لیں جس کے سوا کوئی مولی نہیں۔ الذی نزل الکتب وھو یتولی الصالحین۔ میرا ناصر وہ ہے جس نے کتاب نازل کی اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اس سے پہلے سبق کے آخر میں بنی اسرائیل کے اور پہاڑ کو چھتری کرکے ان سے عہد لیا گیا تھا ، اور اس سبق کا آغاز انسانیت کے ساتھ میثاق اکبر کے ذکر سے کیا گیا جو فطرت انسانی کے ساتھ طے پایا تھا۔ یہ عہد بھی ایسے منظر کی شکل میں ہے کہ اپنی خوبصورتی اور جلالت کے اعتبار سے اس منظر سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ ۔۔۔۔ درس نمبر 81 ۔ تشریح آیات 172 تا 198 ۔ ۔۔۔ وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۭ قَالُوْا بَلٰي ڔ شَهِدْنَا ڔ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ ۔ اور اے نبی لوگو کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا " کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ " انہوں نے کہا " ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ " ہم تو اس بات سے بیخبر تھے " یہ ایک حیران کن کائناتی منظر ہے۔ ہم تک تمام زبانوں کے اندر جو تصورات منتقل ہوئے ہیں اس تصور کی کوئی مثال کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ جب انسانی تصورات اور قوائے مدرکہ اس تصور کا صحیح طرح احاطہ کرلیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ عجیب تصور ہے۔ انسانی خلیے تمام کائنات سے اخذ کرلیے گئے ہیں۔ اور ان سے اس طرح بات ہو رہی جس طرح ایک مکمل انسان سے بات ہوتی ہے اور وہ بھی ایک عقلمند انسان کی طرح بات کرتے ہیں ، کیونکہ ان میں بات کرنے کی صلاحیت تو موجود ہے۔ یہ خلیے اعتراف کرتے ہیں اور شہادت توحید دیتے ہیں اور اس عظیم میثاق پر دستخط کرتے ہیں اور ہیں وہ انسانوں کے صلب میں۔ جب انسان اس خوبصورت ، حیران کن اور منفرد منظر کو دیکھتا ہے تو وہ اپنی شخصیت کی گہرائیوں سے متاثر ہوتا ہے۔ وہ باریک خلیوں کے اندر انسانی نسل کے ذرات کو دیکھ رہا ہے جو فضا میں تیر رہے ہیں۔ ہر ذرہ اس وقت زندہ ہے اور ہر ایک میں مکمل استعداد موجود ہے ، ہر ذرے کے اندر مکمل انسانی صفات موجود ہیں صرف وہ نشوونما کی اجازت کا منتظر ہے۔ اس کائنات کی نامعلوم وسعتوں سے وہ ظہور اور شہادت کا منتظر ہے۔ یہ ذری موجودات اس میثاق کو قبول کرتی ہے۔ اگرچہ ہماری نظروں میں آنے والے عالم معلوم ہیں یہ موجود ذرہ ابھی تک منصہ شہود پر نہیں آیا۔ قرآن کریم نے اس خوبصورت ، حیران کن اور منفرد منظر کو اس عظیم حقیقت کے ذہن نشین کرانے کے لیے پیش کیا جو اس کائنات کی حقیقت میں نہایت ہی گہرائی پر موجود اور مستحکم ہے۔ یہ منظر قرآن کریم نے آج سے 1400 سو سال قبل پیش کیا۔ اس وقت انسانوں کو اس کائنات کی تخلیق کے بارے میں کچھ زیادہ سائنسی معلومات نہ تھیں۔ اس موضوع پر انسانی معلومات چند اوہام پر مشتمل تھیں۔ انسانی مزاج اور تخلیق انسانیت کے بارے میں زمانہ مابعد میں انسان نے کچھ حقائق دریافت کیے۔ چناچہ ان سائنسی انکشافات نے کہ جین کے اندر وہ تمام خصوصیات موجود ہوتی ہیں جو کسی انسان میں بعد کے ادوار میں نمودار ہوتی ہیں اور ان میں ایک مکمل فرد کی خصوصیات بھی موجود ہوتی ہیں جو بعد میں فرد کی صورت میں سامنے آتا ہے حالانکہ یہ خلیے کی شکل میں ہوتا ہے۔ ان خلیوں میں تین ہزار ملین انسانوں کا ریکارڈ محفوظ ہوتا ہے جس میں ان کی تمام خصوصیات بھی ہوتی ہیں۔ ان خلیوں کا حجم ایک مکعب سینٹی میٹر سے زیادہ نہیں ہوتا یعنی سوئی کے ناکے کے برابر اور یہ وہ معلومات ہیں کہ اگر اس وقت لوگوں کو یہ بتائی جائیں تو لوگ کہتے کہ یہ شخص مجنوں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے سچ کہا سنریہم ایاتنا فی الافاق و فی انفسہم حتی یتبین لہم انہ الحق۔ ہم عنقریب ان کو آفاق میں اور خود ان کے نفسوں میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر یہ بات ظاہر ہوجائے گی کہ یہ حق ہے۔ ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے۔ " حضور نے فرمایا تمہارے رب نے آدم کی پشت کو چھوا ، اس سے وہ تمام جرثومے برآمد ہوئے جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت تک پیدا کرنے والا تھا ، اب اللہ نے ان سے پختہ وعدہ لیا اور انہیں خود ان کے خلاف گواہ ٹھہرایا اور سوال کیا ، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ تو ان سب نے جواب دیا ہاں ! یہ روایت حضرت ابن عباس سے مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح سے مروی ہے۔ لیکن حضرت ابن عباس کی موقوف روایت زیادہ قوی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ منظر کیسے تھا ، اور اللہ نے کس طرح تمام پیدا ہونے والی مخلوقات کو نکال لیا اور ان کی گواہی خود ان کے خلاف ثبت کرلی۔ اور ان کو مخاطب کرنے کا انداز اور سوال و جواب کس طرح تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ افعال الہی کی کیفیت بھی غیوب میں سے ایک غیب ہے ، جب تک انسان کے اندر ذات باری کے ادراک ذہنی کی قوت پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک انسان کے لیے افعال الہیہ کی کفیت کا ادراک بھی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ جب کسی ماہیت کا ادراک نہیں ہوسکتا تو اس کے فروعات یعنی کیفیات کا ادراک کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ اور وہ تمام افعال جن کی نسبت اللہ کی طرف کی جاتی ہے مثلا ثم استوی الی السماء وھی دخان۔ " پھر اللہ آسمانوں پر متمکن ہوا اور یہ ایک دھواں تھا "۔ ثم استوی علی العرش " پھر عرش پر متمکن ہوا "۔ یمحوا اللہ ما یشاء و یثبت " اللہ جسے چاہتا ہے ، مٹاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ٹھہراتا ہے "۔ والسموات مطویات بیمینہ " اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے "۔ وجاء ربک والملک صفا صفا " تمہارا رب آئے گا اور فرشتے صف در صف کھڑے ہوں گے "۔ وما یکون من نجوی ثلاثۃ الا ھو رابعہم " جو تین آدمیوں کا مشور ہو ، ان کا چوتھا اللہ ہوتا ہے "۔ وغیرہ ، یہ سب آیات جو افعال الہیہ کے بارے میں وارد ہیں ، یہ افعال تو لازماً صادر ہوئے اور ہوں گے لیکن ان کی کیفیت کا ادراک مشکل ہے۔ اس لیے کہ کیفیت کا تصور بھی ماہیت کے تصور کا فرع ہوتا ہے۔ اور اللہ کی ذات ایسی ہے کہ اس جیسی کوئی ذات نہیں ہے۔ لہذا اللہ کی ماہیت اور اس کے افعال کی کیفیت کا ادراک ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اس صورت میں تشبیہ لازم آتی ہے اور اس کے مشابہ کوئی نہیں ہے۔ اللہ کے افعال کو انسانی افعال کے ذریعے سمجھنے کی جو کوشش بھی کی گئی وہ گمراہی پر منتج ہوئی ہے۔ کیونکہ اللہ اور مخلوق اللہ کی ماہیت میں فرق ہے۔ فلاسفہ اور سائنس دانوں نے انسانی افعال کے رنگ میں اللہ کے افعال کی کیفیات کو سمجھنے کی جو کوششیں کی ہیں وہ نامراد ثابت ہوئی ہیں۔ نیز اس آیت کی ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سے مراد فطرت انسانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فطرت انسانی کے اندر اعتراف ربوبیت الٰہی ودیعت کردیا ہے اور فطرتاً ایک شخص اعتراف رب کرتا ہے ، البتہ بعض خارجی عوامل اسے فطرت کی راہ مستقیم سے بد راہ کرتے ہیں۔ ابن کثیر فرماتے ہیں " سلف اور خلف کے مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے لوگوں کو توحید کی فطرت پر پیدا کیا ہے جیسا کہ اس سے قبل حضرت ابوہریرہ اور عیاض ابن حمار المجاشعی کی حدیث میں منقول ہے۔ ان سے حسن بصری نے روایت کی ہے۔ جس نے اس آیت کی تفسیر اس کے مطابق کی ہے۔ ان لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ نے آدم کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ بنی آدم کا لفظ استعمال کیا ہے اور من ظھرہ نہیں کیا بلکہ من ظہورہم " ان کی پشتوں سے " کیا ہے۔ (ذریاتہم) کے لفظ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد لوگ ہیں جو نسلاً بعد نسل اس دنیا میں مختلف زمانوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ دوسری آیت میں اللہ نے فرمایا وھو الذی جعلکم خلفاء الارض " اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہیں زمین کا خلیفہ بنایا۔ جعلکم خلفاء الارض " وہ تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے " اور دوسری آیت میں ہے کما انشاکم من ذریۃ قوم اخرین " جیسا کہ تمہیں دوسری قوم کی پشت سے پیدا کیا "۔ پھر اللہ نے فرمایا واشھدہم علی انفسہم " انہیں اپنے اوپر گواہ بنا کر پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو انہوں نے کہا ہاں ! یعنی ان کو جود میں لا کر ان سے پوچھا اور انہوں نے اسے تسلیم کیا یعنی پیدائش کے وقت۔ علماء کہتے ہیں کہ شہادت کبھی تو قولی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے قالوا شہدنا علی انفسنا و غرتہم الخیاۃ الدنیا وشہدوا علی انفسہم انہم کانوا کافرین " انہوں نے کہا ہمہ اپنے اوپر شہادت دیتے ہیں اور ان وک دنیا کی زندگی نے غرے میں ڈال دیا ہے اور انہوں نے اپنے اوپر شہادت دی کہ وہ کافر تھے " اور کبھی حالاتی شہادت ہوتی ہے مثلاً قالوا شھدنا علی انفسنا و غرتہم الحیاۃ الدنیا و شھدوا علی انفسہم انہم کانوا کافرین " مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مساجد کو تعمیر کریں۔ در آں حالیکہ وہ اپنے کفر کی شہادت دے رہے ہیں " یعنی ان حالات میں کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ اگرچہ وہ زبان سے اپنے آپ کو کافر نہیں کہتے۔ و انہ علی ذلک لشہید " اور وہ اس پر گواہ ہے " اسی طرح سوال بھی کبھی تو قولی ہوتا ہے اور کبھی حالاتی ہوتا ہے۔ واتاکم من کل ما سالتموہ " اور تمہیں وہ سب کچھ دیا جس کا تم نے سوال کیا " مفسرین کہتے ہیں کہ اگر لوگوں کو عملاً اٹھا کر ان سے اقرار لیا گیا تھا اور یہ اقرار ان کے خلاف بائنڈنگ تھا تو پھر چاہئے کہ لوگوں کو وہ یاد بھی ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ کی جانب سے اس واقعہ کی اطلاع ہی کافی ہے تو جواب یہ ہے کہ مشرکین تو اس حدیث کے ساتھ حضور اکرم کے تمام اخبار کو جھٹلاتے ہیں اور یہ ان کے خلاف حجت کے طور پر پیش کیا گیا۔ لہذا معلوم ہوا کہ اس سے مراد وہ فطرت ہے جس پر تمام انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے کہ وہ توحید کا اقرار کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد تمام انسانوں کو کہا ان تقولوا یہ نہ ہو کہ تم کہو۔ یعنی قیامت کے دن تم یہ کہہ سکو کہ ہم تو اس سے غافل تھے۔ یا یہ نہ کہو انما اشرک اباؤنا " در اصل ہمارے آباء مشرک تھے " بعض احادیث میں بھی اس فطرت کی طرف اشارہ موجود ہے۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا " ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے " (بعض روایات میں ہے کہ ملت پر پیدا ہوتا ہے " بعد میں اس کے باپ اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا عیسائی یا مجوسی جیسا کہ تمام جانوروں کے بچے صحیح سالم پیدا ہوتے ہیں۔ کیا اس میں کوئی کان کٹا ہوتا ہے ؟ صحیحین میں عیاض ابن حمار کی روایت ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بندوں کو سیدھا پیدا کیا ، اس کے بعد شیاطین آئے اور انہوں نے بندوں کو ان کو دین سے پھیر دیا اور ان پر وہ باتیں حرام کردیں جو حلال تھیں۔ ابن جریر نے اسود ابن سریع کی حدیث نقل کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں نے حضور اکرم کے ساتھ چار غزوات میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں نے جنگ کے بعد بچوں کو بھی قتل کیا۔ یہ بات رسول اللہ تک پہنچی اور یہ ان پر بہت ہی گراں گزری۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کیا حال ان لوگوں کا ، جو بچوں کو قتل کرتے ہیں۔ اس پر ایک شخص نے کہا کہ حضور کیا یہ لوگ مشرکین کے بچے نہیں ہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ تم میں سے بہتر سے بہتر لوگ بھی تو مشرکین کے بچے ہیں ، جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے وہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور وہ اس فطرت پر ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ باتیں کرنے لگتا ہے۔ اس کے بعد والدین اسے یہودی بناتے ہیں یا نصرانی۔ حسن نے کہا " اللہ تعالیٰ کے فرمان کا یہی مطلب ہے واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظھورہم ذریتہم " جب اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا " الی الی آخرہ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں اس آیت کو اپنے حقیقی معنوں میں بھی مستبعد نہیں سمجھتا ، کیونکہ جس طرح اللہ نے فرمایا ہے اسی طرح اس کا وقوع ممکن ہے " اور لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا اور انہیں خود ان پر گواہ بنایا تھا " اور کوئی بات بھی اس میں خلاف عقل نہیں ہے لیکن اوپر جن مفسرین نے اسے حالات فطرت کے معنوں میں لیا ہے وہ تفسیر بھی مستبعد نہیں ہے۔ ابن کثیر ، حسن بصری وغیرہ نے اسے اختیار کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ بہرحال یہ بات پیش نظر رہے کہ انسانی فطرت نے اللہ کے ساتھ یہ عہد کر رکھا ہے کہ وہ اللہ کو وحدہ لا شریک ٹھہرائے گی۔ حقیقت توحید انسانی فطرت میں ودیعت ہے۔ ہر بچہ جب زندگی پاتا ہے تو یہ عہد اس کی فطرت کے ساتھ آتا ہے وہ اس وقت تک اس فطرت پر قائم رہتا ہے جب تک کوئی خارجی عامل اسے اس فطرت سے پھیر نہیں دیتا۔ اور یہ خارجی عوامل انسان کی فطری استعداد کو استعمال کرتے ہیں کیونکہ اللہ نے جس طرح فطرت میں توحید و ودیعت کی ہے اسی طرح فطرت کو یہ صلاحیت بھی دی ہے کہ وہ ہدایت قبول کرے یا ضلالت۔ اور جن حالات میں بچہ پیدا ہوتا ہے وہ حالات اور ظروف احوال اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ حقیقت توحید صرف فطرت انسانی کے اندر ہی ودیعت نہیں کی گئی بلکہ نظریہ توحید اس پوری کائنات کے اندر بھی رکھا ہوا ہے کیونکہ انسانی فطرت بہرحال اس وسیع فطری نظام ہی کا ایک حصہ ہے۔ انسانی وجود اس کائنات کے وجود سے منقطع نہیں ہے۔ یہ بھی اسی قانون کے مطابق چل رہا ہے جس کے مطابق پوری کائنات چل رہی ہے۔ جس طرح یہ پوری کائنات اللہ کے احکام اور اشارات قبول کرتی ہے اسی طرح اس چھوٹے سے انسان کی فطرت بھی تکوینی اثرات کو قبول کرتی ہے۔ وہ ناموس توحید جو اس کائنات پر حکمران ہے وہ اس کائنات کی شکل و صورت میں بالکل نمایاں ہے۔ اس میں کائنات کی ہم آہنگی ، اس کے اجزاء کا باہم ربط اور تناسب ، اس پوری کائنات اور اس کے اجزاء کی حرکت کا نظام ، اس کے قوانین کا تسلسل اور پوری کائنات کا ان قوانین کے مطابق مسلسل رواں دواں ہونا اور پھر ان قلیل معلومات کے مطابق جن تک انسان اب تک پہنچ سکا ہے کہ وہ ذرات جن سے یہ کائنات مرکب ہے اور ان ذرات کی توڑ پھوڑ کے نتیجے میں نکلنے والی شعاعیں یہ سب کچھ اس کائنات کے خالق کی وحدت پر دلیل ہیں۔ اس ہمہ گیر وحدت کے راز ہائے نہفتہ کو انسان رات دن کھول رہا ہے جن سے اس کائنات کے مزاج کی وحدت معلوم ہوتی ہے ، اس کے قوانین کی یک رنگی معلوم ہوتی ہے اور یہ یک رنگی آٹومیٹک نہیں ہے بلکہ سب کچھ اللہ کی مشیت اور اس کے نظام تقدیر کے مطابق ہو رہا ہے۔ ہم بہر حال انسانی انکشافات پر بھی بھروسہ نہیں کرتے کیونکہ انسان کا علم بہرحال ظن وتخمین پر مبنی ہے۔ اور انسان کا علم یقینی علم نہیں ہے ، اس لیے کہ انسان کو جو ذرائع ادراک دئیے گئے ہیں وہ بھی یقینی نہیں ہیں اور ہم یقینا یہ نہیں معلوم کرسکتے کہ ناموس الہی کیا ہے ؟ جہاں تک انسانی علم اور ذرائع علم کا تعلق ہے انسان صرف حقیقت سے مانوس ہوسکتا ہے۔ ہمارے پاس اس کائنات کے ناموس اکبر کے بارے میں بھی حقیقی ذریعہ اطلاع اور ذریعہ علم صرف خالق کائنات کا پیغمبر ہے۔ قرآن کریم بہرحال یقینی طور پر یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات کے اندر ایک قانون توحید جاری وساری ہے۔ اور اس قانون توحید کو اللہ رب العزت نے جاری کیا ہے اور یہ کائنات اور اس کے اندر بسنے والی تمام مخلوقات صرف اسی رب واحد کی غلام ہے۔ اور اس کا فرض ہے کہ وہ رب کی بندگی کرے۔ جہاں تک ہمارے علم کا تعلق ہے تو ہم صرف اس کائنات کے جاری وساری نظام ہی کو دیکھ سکتے ہیں جو ایک قاعدے کے مطابق چل رہا ہے۔ یہ ناموس اکبر جو اس عظیم کائنات کے اندر اللہ کی مشیت اور تقدیر نے جاری کیا ہے ، یہی خود انسان کے اس چھوٹے سے وجود میں بھی جاری ہے ، کیونکہ انسان بھی اس کائنات کا ایک کارکن ہے۔ یہ بھی اپنی فطرت میں جھگڑا ہوا ہے جسے اپنی فطری حرکات کا عقلی احساس بھی ضروری نہیں ہے کہ ہو ، اس لیے وہ اپنی فطرت کے اعتبار سے ادارک رکھتا ہے اور یہ ادراک حقیقت اس کی فطرت کی گہرائیوں میں ہے اس کی ذات اس کا شعور بھی رکھتی ہے۔ وہ اس کے مطابق تصرف کرتا ہے۔ جب تک کہ خلل و فساد اس پر طاری نہ ہوجائے۔ اس خلل و فسادگی کی وجہ سے اس کا ذاتی ادراک ماند پڑجاتا ہے اور انسان عارضی حالات کے تابع ہوجاتا ہے ۔ اور اب وہ بیرونی عوامل کے مطابق چلتا ہے۔ اور اس کا اندرونی عامل اپنا کام چھوڑ دیتا ہے۔ یہ ناموس فطرت بذات خود اللہ اور بندے کے درمیان ایک عقد ہے اور یہ عقد انسان کے وجود کی گہرائیوں میں موجود ہے۔ اپنی پیدائش کے وقت سے وہ ہر خلیے میں رکھ دیا جاتا ہے اور یہ عقد آدم (علیہ السلام) کے وقت سے آج تک جاری وساری ہے۔ انسان کا ہر حلیہ ربوبیت کا اقرار کرتا ہے اور اسی اقرار اور عقد یعنی ناموس قدرت کے مطابق دنیا میں آتا ہے۔ لہذا اس فطری عقد کے بعد مزید کسی دلیل وحجت کی انسان کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چاہے یہ دلیل بلسان الحال ہو یا بلسان القول ہو۔ لہذا اب انسان کے لیے یہ بات مفید نہ ہوگی کہ وہ کہے کہ میں تو غفلت کا شکار ہوگیا تھا اور میں نے کتاب اللہ اور رسول اللہ کی تعلیمات سے لاپرواہی برتی تھی۔ یا کوئی شخص یہ بہانہ نہیں پیش کرسکتا کہ جب وہ کائنات میں وارد ہوا تو میرے آباء و اجداد اور ماحول میں شرک ہی شرک تھا اور عقیدہ توحید کی قبولیت کے لیے اس کے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا۔ لہذا وہ اپنے عقائد و اعمال کا ذمہ دار نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ نے صاف صاف وضاحت فرما دی۔
Top