Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 172
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا (نکالی) رَبُّكَ : تمہارا رب مِنْ : سے (کی) بَنِيْٓ اٰدَمَ : بنی آدم مِنْ : سے ظُهُوْرِهِمْ : ان کی پشت ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد وَاَشْهَدَهُمْ : اور گواہ بنایا ان کو عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں اَلَسْتُ : کیا نہیں ہوں میں بِرَبِّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے بَلٰي : ہاں، کیوں نہیں شَهِدْنَا : ہم گواہ ہیں اَنْ : کہ (کبھی) تَقُوْلُوْا : تم کہو يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّا : بیشک ہم كُنَّا : تھے عَنْ : سے هٰذَا : اس غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے انکی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرا لیا (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ؟ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ؟ ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے) یہ اقرار اس لیے کرایا تھا کہ قیامت کے دن کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔
آیت نمبر 172 تا 181 ترجمہ : اور یاد کرو اس وقت کو کہ تیرے رب نے جب اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا، مَنْ ظُھُوْرِھم اپنے ماقبل (من بنی آدم) سے اعادہ جار کے ساتھ بدل ہے بایں طور کہ وادی نعمان میں عرفہ کے دن بعض کو بعض کی پشت سے صلب آدم سے چیونٹی کی شکل میں نکالا نسلاً بعد نسل اس کے مطابق کہ جس طرح پیدا ہوں گے اور اپنی ربوبیت پر ان کیلئے دلائل قائم کئے اور ان کے اندر عقل کو ترتیب دیا، اور خود ان کو ان کے اوپر شاہد بنایا (اللہ) نے فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ تو سب نے جواب دیا بیشک آپ ہمارے رب ہیں اور یہ گواہ بنانے کا کام اس لئے کیا تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس توحید سے بیخبر تھے یعنی ہمیں اس کا علم نہیں تھا، یا یہ نہ کہنے لگو کی شرک تو ہم سے پہلے ہمارے آباء نے کیا تھا دونوں جگہ یاء اور تاء کے ساتھ، (یاء کی صورت میں) کفار مراد ہوں گے، اور ہم تو بعد کون کی ذریت سے پیدا ہوئے جس کی وجہ سے ہم نے ان کی اقتداء کی پھر کیا آپ ہمیں ان کے قصور کی پاداش میں سزا دیتے ہیں جو ہمارے آباء میں سے غلط کار لوگوں نے شرک کی بنیاد ڈال کر کیا مطلب یہ ہے کہ ان کو اپنی ذات پر گواہ بنانے کے بعد اس قسم کا احتجاج ممکن نہ رہے گا اور صاحب معجزہ (نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام) کی زبانی یاد دلانا خود ان کے دلوں میں یاد رہنے کے قائم مقام ہے اور ہم اسی طرح نشانیاں واضح طور پر بیان کرتے ہیں جیسا کہ ہم نے عہد الست کو بیان کیا تاکہ ان میں غور و فکر کریں تاکہ وہ کفر سے باز آجائیں اے محمد ﷺ یہود کو اس شخص کی خبر سناؤ جس کو ہم نے اپنی نشانیاں (کرامات) عطا کی تھیں تو وہ کفر کی وجہ سے ان کرامات سے نکل گیا جس طرح سانپ اپنی کینچلی سے نکل جاتا ہے اور وہ علماء بنی اسرائیل میں سے بلعم بن باعورا تھا، اس سے درخواست کی گئی کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کیلئے بددعاء کر دے اور اس کو کچھ ہدیہ بھی دیا گیا چناچہ اس نے بددعاء کردی مگر وہ بددعاء اسی پر پلٹ گئی، اور اس کی زبان نکل کر اس کے سینے پر لٹک گئی، پھر شیطان نے اس کا پیچھا کیا چناچہ اس کا پالیا اور اس کا دوست بن گیا، تو وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہوگیا، اگر ہم چاہتے تو ان آیات کی بدولت اسے اعلیٰ درجات پر فائز کردیتے اس طریقہ پر کہ اس کو عمل کی توفیق عطا کردیتے، مگر وہ پستی، یعنی دنیا کی طرف جھک کر رہ گیا، اور اس کی طرف مائل ہوگیا اور خواہشات کی طرف بلانے میں اپنی خواہش کی پیروی کی تو ہم نے بھی اس کو پست (ذلیل) کردیا، تو اس کی مثال اس کتے جیسے ہوگئی کہ اگر تو دھتکار کے ذریعہ اس پر سختی کرے تو زبان لٹکائے رہے، اور اگر تو چھوڑ دے تب بھی زبان لٹکائے رہے، کتے کے علاوہ کسی جانور میں یہ خاصیت نہیں ہے اور دونوں شرطیہ جملے حال ہیں یعنی لاھثاً ذلیلا، حال یہ کہ وہ زبان لٹکائے ہرحال میں ذلیل ہے اور مقصد پستی اور ذلت میں تشبیہ دینا ہے (اور) قرینہ فاء ہے جو کہ مشعر ہے اپنے مابعد کے ماقبل پر جو کہ دنیا کی طرف میلان اور خواہش کی اتباع ہے، مرتب ہونے کی وجہ سے اس کے قول ذلک المثل کے قرینہ سے، یہ مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، تو آپ یہود کو قصے سنائیے تاکہ ان میں غور و فکر کریں اور ایمان لے آئیں، اور ان لوگوں کی مثال جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا بری مثال ہے، وہ لوگ تکذیب کی وجہ سے اپنا ہی نقصان کرتے ہیں اللہ جس کو ہدایت کرتا ہے وہی ہدایت یافتہ ہے، اور کس کو بےراہ کرے وہی زیاں کاروں میں سے ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے بہت سے جن و انس کو جہنم کیلئے پیدا کیا ہے ان کے ایسے قلوب ہیں کہ ان سے حق کو سمجھتے نہیں ہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل کو عبرت کی نظر سے دیکھتے نہیں ہیں، اور ان کے کان ہیں مگر ان کے ذریعہ وہ آیات کو اور نصیحتوں کو تدبر اور نصیحت کیلئے سنتے نہیں ہیں یہ لوگ نہ سمجھنے اور نہ دیکھنے اور نہ سننے میں جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں اسلئے کہ جانور اپنے منافع کو طلب کرتا ہے اور مضرت رساں چیزوں سے (دور) بھاگتا ہے، اور یہ لوگو تو عناد کی وجہ سے جہنم کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں اور اللہ کے ننانویں اچھے اچھے نام ہیں جو حدیث میں وارد ہوئے ہیں، حُسْنیٰ اَحْسَنُ کی مؤنث ہے، لہٰذا اس کو ان ہی ناموں سے پکارو اور ان کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں کجروی اختیار کرتے ہیں یہ الْحَدَ اور لَحَدَ سے مشتق ہے اس طور پر کہ انہوں نے اللہ کے ناموں سے اپنے معبودوں کے نام بنالئے ہیں، مثلاً لات، اللہ سے اور العزّٰی، عزیز سے اور منات مَنّان سے عنقریب آخرت میں وہ اس کا بدلہ پا کر رہیں گے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں، یہ حکم جہاد کے حکم سے پہلے کا ہے، اور ہماری مخلوق میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو حق کے مطابق ہدایت اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتی ہے اور وہ محمد ﷺ کی امت ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : بَدَلُ اشتمالٍ مما قبلہ، یعنی من ظھورھم، بنی آدَمَ سے بدل الاشتمال ہے، یہ قول کو اشی کی اتباع میں ہے، صاحب کشاف نے کہا ہے کہ بدل البعض عن الکل ہے، اور یہی ظاہر ہے، جیسا کہ ضربت زیداً ظھرَہ، اس کو کسی نے بدل الاشتمال نہیں کہا ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی ” وَاذِا اَخَذَ ربُّکَ من ظھور بنی آدم “۔ قولہ : مِنْ صُلْبِ بَعْضٍ مَنْ صُلْبِ آدَمَ ، من صلب بعض موصوف ہے اور من صلب آدم صفت ہے، یعنی نکالا ذریت کو صلب بعض سے جو کہ صلب آدم ہے۔ قولہ : نسلاً بعد نسلٍ ، یعنی اسی ترتیب سے دنیا میں ظہور ہونے والا تھا، یعنی اول حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے آدم کی بلاواسطہ ذریت کو نکالا اور پھر ذریت آدم کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا۔ قولہ : قال، لفظ قال کو اس وجہ سے مقدر مانا کہ بلا ضرورت التفات عن الغیبت الی التکلم لازم نہ آئے۔ قولہ : اَنْتَ رَبُّنَا، یہ اضافہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے کہ بلیٰ ، قالوا کا مقولہ ہے اور مقولہ کیلئے جملہ ہونا ضروری ہے چہ جائیکہ بلیٰ ، حرف مقولہ واقع ہو، جواب یہ ہے کہ عبارت میں حذف ہے تقدیر عبارت یہ ہے بلیٰ انت ربنا، لہٰذا اب کوئی اشکال نہیں۔ قولہ : والاشھادُ ، لِاشْھَادُ اور لام کی تقدیر سے اشارہ کردیا کہ ان تقولوا، شَھِدْنا کا مفعول لہ ہے۔ (تسھیل) قولہ : شھِدْنا، اس میں تین احتمال ہیں، (1) یہ کہ ملائکہ کا کلام ہو کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے ذریت آدم کے اقرار پر گواہ بنایا ہو، اس صورت میں وقف بلیٰ پر ہوگا، (2) یہ بھی احتمال ہے کہ ذریت کا کلام ہو اس صورت میں معنی ہوں گے ہم نے اس کا اقرار کیا، شہادت دی، اس صورت میں بلیٰ پر وقف درست نہ ہوگا بلکہ شھدنا پر ہوگا، (3) اللہ تعالیٰ کا کلام ہو، ای شھدنا علیٰ اقرار کم کراھۃ ان تقولوا، اولِئلاَّ تقولوا، یعنی ہم نے تم سے اس لئے اقرار لیا تاکہ تم لاعلمی کا عذر نہ کرسکو یا اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ تم لاعلمی کا عذر کرو۔ قولہ : المَعْنٰی لا یُمْکِنُھُمْ الاِحْتِجَاجُ بذلک مطلب یہ ہے کہ ذریت آدم سے اقرار لینے کے بعد انکے پاس لاعلمی اور غفلت کا عذر باقی نہیں رہے گا وہ یہ نہ کہہ سکیں گے، یا الہٰ العلمین اس عہد و میثاق کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں تھا جس کی وجہ سے ہم غفلت میں رہے قولہ : وَالتَذْکِیْرَ بہ عَلیٰ لِسَان صَاحِب المُعْجِزَۃِ قائمٌ مَقَامَ ذِکْرِہٖ فی النُفُوْسِ یہ عبارت ایک سوال کا مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ روز ازل میں لیا ہوا اقرار دنیا میں آنے کے بعد نسیا منسیا ہوگیا اب کسی کو بھی عہد اَلَسْت یاد نہیں ہے تو ایسے عہد سے کیا فائدہ کہ جو یاد ہی نہ ہو اور نہ اس کی وجہ سے مؤاخذہ ہی ہونا چاہیے۔ جواب : اس بھولے ہوئے عہد الست کو ہی یاد دلانے کیلئے انبیاء کرام کو مبعوث کیا جاتا ہے جو مسلسل اس عہد کو یاد دلاتے رہتے ہیں، لہٰذا اب عدم مؤاخذہ کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ قولہ ؛ التَذْکِیْرُ مُبْتَدَأ ہے اور قائم مقام ذکرہ فی النفوس اس کی خبر ہے۔ قولہ : سَکَنَ ، اس میں اشارہ ہے کہ اَخْلَدَ ، خلود سے مشتق نہیں ہے جس کے معنی دوام کے ہیں بلکہ اَخْلَدَ بمعنی مال ہے، اَخْلَدَ الی الارض، ای مال اِلَیْھا۔ قولہ : فی دعائہٖ الیھا ای دعاء الھویٰ ایّاہ، یعنی خواہش نفس نے بلعام کو دنیا کی طرف بلایا، اس میں مصدر مضاف فاعل ہے۔ قولہ : فَوَضعْنَاہ، ای ذلَّلْناہ۔ قولہ : اَوْ اِنْ تَتْرُکُہٗ ، بعض نسخوں میں انْ ، چھوٹا ہوا ہے جو کہ کاتب کا سہو ہے، مفسر علام نے، اِنْ مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ اس کا عطف تحمل پر ہے نہ کہ اِنْ تحمِلْ پر لہٰذا تتر کہ کا جزم ظاہر ہوگیا۔ قولہ : جُمْلَتَا الشَرْطِ حَالٌ، یعنی معطوف اور معطوف علیہ دونوں جملے حال ہیں مطلب یہ ہے کہ کتا ہرحال میں لاھث رہتا ہے خواہ حالت شدت ہو یا راحت۔ تفسیر وتشریح عالم اروح میں عہدالست : جیسا کہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے موقع پر پیش آیا تھا اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کرکے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرایا گیا تھا اور زمین پر انسانی خلافت کا اعلان کیا گیا تھا، اسی طرح نسل آدم کو بھی جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی اللہ تعالیٰ نے وجود و شعور بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا تھا اور ان سے اپنی ربوبیت کا اقرار و شہادت لی تھی، اول حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے بلا واسطہ پیدا ہونے والی ذریت کو نکالا اور ان سی عہد الست لیا اس کے بعد آدم کی ذریت کی پشت سے اس کے بعد ان کی پشت سے علی ہذا القیاس تا قیامت نسلا بعد نسل، پیدا ہونے والی ذریت کو نکالا اور ان سے اپنی ربوبیت کا عہد لیا اور اس عہد پر خود ملائکہ کو اور پوری کا ئنات کو گواہ بنایا اس کی تفصیل ایک روایت میں اس طرح آئی ہے کہ وادی نعمان میں عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ نے ذریت آدم سے عہد و میثاق لیا، آدم کی پشت سے ان کی ہو نیوالی تمام اولاد کو نکالا اور ان کو اپنے سامنے پھیلایا اور ان سے پوچھا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا ” بلی شھدنا “۔ (مسند احمد، حاکم)
Top