Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 172
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا (نکالی) رَبُّكَ : تمہارا رب مِنْ : سے (کی) بَنِيْٓ اٰدَمَ : بنی آدم مِنْ : سے ظُهُوْرِهِمْ : ان کی پشت ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد وَاَشْهَدَهُمْ : اور گواہ بنایا ان کو عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں اَلَسْتُ : کیا نہیں ہوں میں بِرَبِّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے بَلٰي : ہاں، کیوں نہیں شَهِدْنَا : ہم گواہ ہیں اَنْ : کہ (کبھی) تَقُوْلُوْا : تم کہو يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّا : بیشک ہم كُنَّا : تھے عَنْ : سے هٰذَا : اس غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
اور یاد کرو جب تیرے رب نے بنی آدم سے یعنی ان کی پشتوں سے ‘ ان کی اولاد کو نکالا اور ان کو گواہ ٹھہرایا خود ان کے اوپر، پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انھوں نے کہا ہاں تو ہمارا رب ہے ہم اس کے گواہ ہیں یہ ہم نے اس لیے کیا کہ مبادا قیامت کو تم عذر کرو کہ ہم تو اس سے بیخبر ہی رہے
گزشتہ رکوع کی آخری آیت پر بنی اسرائیل سے خطاب ختم ہوجاتا ہے اب گفتگو کا رخ عام انسانوں کی طرف پھیرا جا رہا ہے روئے سخن اگرچہ اہل مکہ کی طرف ہے لیکن خطاب پوری نوع انسانی سے ہے اس میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ گزشتہ آیات میں ہم نے بنی اسرائیل سے بندگی و اطاعت اور اللہ کی کتاب سے وابستگی کا جو عہد لیا تھا وہ کوئی ان کی خصوصیت نہیں تھی بلکہ تم بھی اسی طرح اللہ کے ساتھ ایک میثاق میں بندھے ہوئے ہو اور تمہیں بھی ایک دن اس میثاق کے حوالے سے جواب دہی کرنی ہے وہ میثاق کیا ہے ؟ اس کا ذکر اگلی آیات کریمہ میں کیا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ وَاِذْاَخَذَرَبُّکَ مِنْم بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَاَشْھَدَھُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْج اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْط قَالُوْا بَلٰیج شَھِدْنَا ج اَنْ تُقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غٰفِلِیْنَ ۔ اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا دُرِّیَّۃً مِّنْم بَعْدِھِمْ ج اَفَتُھْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ ۔ وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَلَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ ۔ (الاعراف : 174، 172) ” اور یاد کرو جب تیرے رب نے بنی آدم سے یعنی ان کی پشتوں سے ‘ ان کی اولاد کو نکالا اور ان کو گواہ ٹھہرایا خود ان کے اوپر، پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انھوں نے کہا ہاں تو ہمارا رب ہے ہم اس کے گواہ ہیں یہ ہم نے اس لیے کیا کہ مبادا قیامت کو تم عذر کرو کہ ہم تو اس سے بیخبر ہی رہے یا عذر کرو کہ ہمارے باپ دادا نے پہلے سے شرک کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل سے پیدا ہوئے تو کیا آپ ہمیں ہلاک کریں گے باطل پرستوں کے عمل کی پاداش میں۔ اور ہم اسی طرح نشانیاں واضح طور پر پیش کرتے ہیں تاکہ وہ پلٹ آئیں “۔ ” اذ “ کا مفہوم پیشتر اس کے کہ ہم اس عہد الست کا ذکر کریں جو ان آیات کریمہ میں بیان کیا گیا ہے چند الفاظ کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں۔ اذ۔ ذکر کا قائم مقام ہوتا ہے اس سے مخاطب کو کسی مسلمہ امر کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے عموماً یہ امر ایسا ہوتا ہے جو متکلم اور مخاطب دونوں کے نزدیک واجب التسلیم ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ متکلم تو اس امر کو یقینی سمجھتا ہے لیکن مخاطب اسے بھول چکا ہے ایسی صورت میں بھی اذ استعمال کیا جاتا ہے۔ مقصود یہ ہوتا ہے کہ میں جس امر کا ذکر کر رہا ہوں تم چاہو اسے فراموش کردو یا اس سے منحرف ہوجاؤ لیکن میرے نزدیک اس کے وقوع میں کوئی شبہ نہیں چناچہ یہاں بھی اس لفظ کا استعمال اسی اصول کے تحت ہو رہا ہے۔ بنی آدم کے بعد مِنْ ظُہُوْرِھِمْ کا اضافہ دراصل بنی آدم سے بدل ہے۔ مقصود اس سے یہ ہے کہ بنی آدم سے متعلق یہاں جو حقیقت بیان ہو رہی ہے وہ کسی خاص دور کے انسانوں سے مخصوص نہیں بلکہ قیامت تک جتنے انسان بھی دنیا میں آئیں گے یہ حقیقت سب سے متعلق ہے یعنی یہاں جس عہد کا ذکر کیا گیا ہے وہ صرف حضرت آدم (علیہ السلام) کی براہ راست نسل سے نہیں لیا گیا تھا بلکہ وہ ہر دور کے نسل انسانی سے لیا گیا تھا اس لیے کسی دور کا انسان بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس عہد سے تعلق نہیں رکھتا۔ عہدِ الست کی یاددہانی اور اس کا مفہوم عہد کے الفاظ پر غور کیجیے، پروردگار نے انسانوں سے پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ عہد لیتے ہوئے یہ نہیں فرمایا گیا کہ کیا میں تمہارا خدا نہیں ہوں ؟ یعنی پروردگار نے انسانوں سے اپنے اللہ ہونے کا عہد نہیں لیا بلکہ اپنے رب ہونے کے بارے میں پوچھا اور سب نے اقرار کیا کہ ہاں آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جب پروردگار نے نوع انسانی سے اپنے رب ہونے کا اقرار لیا تو یہ بات از خود انسانوں پر واضح ہوگئی کہ جس عظیم ذات کے لیے ہم ربوبیت کا عہد کر رہے ہیں وہی ہمارا اللہ ہے اور یہ ایسی حقیقت تھی جس کا عہد لینے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ گمراہی کی ابتداء جب بھی ہوئی ہے وہ اللہ کے انکار سے نہیں ہوئی بلکہ اس کے ربوبیت کے انکار سے ہوئی ہے دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس نے کبھی اللہ کے وجود سے انکار کیا ہو اور اگر کبھی پروپیگنڈے یا غلط تعلیم کے زور سے زبانوں پر انکار جاری کر بھی دیا جائے تو حقیقت میں انسانی فطرت اسے قبول کرنے سے انکار کردیتی ہے جب کبھی موقع آتا ہے اس کا اظہار ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ تاریخ میں ہم جتنی قوموں کا ذکر پڑھتے ہیں وہ مختلف قسم کے شرک میں تو ملوث رہی ہیں لیکن کبھی کسی قوم کے بارے میں تاریخ نے یہ نہیں لکھا کہ انھوں نے اللہ کے وجود سے انکار کردیا ایک بڑی ذات جو کائنات کا مبداء و معاد ہے اسے ہر قوم نے قبول کیا چاہے اس کا نام کچھ بھی رکھا ہو البتہ اس کے نیچے بیشمار رب بنا لیے کیونکہ ان کا گمان یہ تھا کہ ایک ایسی ذات جو آسمانوں کی بلندیوں پر متمکن ہے زمین کے آخری گوشے تک رہنے والے انسانوں کے حالات سے نہ آگاہ ہوسکتی ہے اور نہ ان کے معاملات میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے اس لیے وہ اپنے اختیارات اپنے ماتحتوں میں تقسیم کردیتی ہے تاکہ دنیا کا نظام چلتا رہے یہیں سے شرک کی ابتداء ہوتی ہے اس لیے یہاں یاد دلایا جا رہا ہے کہ ہم نے پہلے دن انسانوں سے اس بات کا عہد لے لیا تھا کہ تم میرے سوا کسی اور کو رب نہ ماننا یعنی میری ذات کے اقرار کے ساتھ ساتھ یہ کبھی حرکت نہ کرنا کہ میرے اختیارات اور میری صفات میں کسی اور کو شریک کردو۔ مشرکینِ مکہ دنیا بھر کے مشرکین کی طرح اسی گمراہی کا شکار تھے حتی کہ بنی اسرائیل بھی حامل کتاب ہونے کے باوجود اس گمراہی سے محفوظ نہیں تھے اور آج کا انسان بھی روشنیٔ علم و ہنر کے باوجود اسی گمراہی کا شکار ہے انھیں اللہ کے وجود سے انکار نہیں اس کی یاد بھی کسی نہ کسی حد تک زندہ رہتی ہے انتہائی بےبسی کے لمحوں میں اسی سے مدد بھی مانگی جاتی ہے اور کبھی کبھی اسی کے لیے قربانیاں بھی دی جاتی ہیں لیکن یہ بات کہ حاکمیتِ مطلقہ اسی کو زیب دیتی ہے حلت و حرمت کا اختیار صرف اس کے پاس ہے۔ اطاعتِ مطلقہ صرف اسی کا حق ہے یہ وہ بات ہے جسے دنیا کی اکثریت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اس کی ان صفات کو نہ جانے کن کن قوتوں میں تقسیم کردیا گیا ہے کہیں یہ اختیار پارلیمنٹ کو دیا گیا ہے ‘ کہیں بادشاہت کو ‘ کہیں آمریت کو اور کہیں خواہشِ نفس کو۔ بنی اسرائیل بھی اسی گمراہی کا شکار تھے وہ اللہ کی ذات اور صفات کو مانتے تھے لیکن اللہ کی ربوبیت کا اختیار انھوں نے اپنے احبار اور رہبان کو دے رکھا تھا عدی ابن حاتم طائی جب مسلمان ہونے کے لیے مدینہ آئے اور اپنے اطمینان کے لیے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے آپ سے پوچھا کہ میں نے مسلمانوں سے یہ سنا ہے کہ قرآن کریم میں اہل کتاب کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے احبار اور رہبان کو رب بنا لیا ہے۔ میں عیسائی ہوں اس لیے میں اہل کتاب کے عقائد کو جانتا ہوں۔ ہم نے کبھی اپنے علماء اور پیشوائوں کو رب نہیں بنایا، یہ سراسر ہم پر الزام ہے۔ آپ ﷺ نے عدی سے سوال کیا کہ کیا چیز حلال ہے اور کیا حرام ؟ کیا جائز ہے اور کیا ناجائز ؟ کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہونا چاہیے ؟ اس کا فیصلہ آپ اللہ کی کتاب سے کرتے ہیں یا اپنے علماء اور اپنے پیشوائوں کو آپ نے یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ کتاب اللہ سے ہٹ کر جو فیصلہ بھی دے دیں آپ اسی کو دین کا درجہ دیتے ہیں ؟ عدی نے جواب دیا کہ ہم نے یہ اختیارات واقعی اپنے علماء کو دے رکھے ہیں وہ اگر ایسا فیصلہ بھی کردیں جو کتاب خداوندی سے یکسر متصادم ہو تو ہم کتاب اللہ کو نہیں مانتے بلکہ انھیں کے فیصلوں کی اطاعت کرتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا یہی معنی ہے کسی کو رب بنانے کا۔ مطلق قانون سازی ‘ غیر مشروط حاکمیت اور غیر مشروط اطاعت یہ سراسر پروردگار کا حق ہے کیونکہ وہ ہمارا رب ہے جب یہ حق کسی اور کو دیا جائے گا تو وہ بھی رب بن جائے گا۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں اسی بات کی یاد دہانی کی جا رہی ہے کہ ہم نے تم سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہیں بنائو گے لیکن تم نے جا بجا اس کے مقابلے میں رب بنالیے جہاں منفعت کی امید نظر آئی یا کسی سے نقصان کا خوف ہوا تو اس کو اپنا رب بنا لیا چاہے وہ دودھ دینے والی گائے ہو ‘ پیاس بجھانے والا پانی ہو ‘ سایہ دینے والا پیپل کا درخت ہو یا ضروریاتِ زندگی کی کفالت کرنے والی دولت دنیا ہو یا تخت اقتدار پر فائز انسان ہوں یا تقدس کے پیکر ہوں ان میں سے ہر ایک چونکہ فیض رسانی اور فائدہ پہنچانے کی کسی نہ کسی صورت میں صلاحیت رکھتا ہے اس لیے اس کو ربوبیت کی سند دے دی گئی اور اگر کہیں سے خوف محسوس ہوا مثلاً سیلاب کی صورت میں تباہی پھیلانے والا پانی ‘ کشتیوں کا راستہ روکنے والی چٹانیں ‘ ڈسنے والے ناگ ‘ تخت اقتدار پر مسند نشیں فرعون اور نمرود ‘ فضاء میں کڑکنے والی بجلیاں اور بادل ‘ مظاہرِ فطرت اور مظاہرِ قدرت اور ایسی تمام زمینی اور آسمانی قوتیں جو انسان کے لیے خوف اور دہشت کا سبب بن سکتی تھیں ان سب کو ربوبیت کی مسند پر فائز کردیا گیا۔ امتِ مسلمہ جو قیامت تک کے لیے اس عہد کی مناد اور مبلغ بنا کر اٹھائی گئی ہے خود اس کا حال دیکھئے کہ پورے عالم اسلام میں ایک ملک بھی ایسا نہیں جسے اللہ کی ربوبیت یعنی اس کی حاکمیتِ مطلقہ کا عملی طور پر اعتراف ہو ہر جگہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر کسی نہ کسی حد تک مسلمانوں میں عبادات کا عمل جاری رہے ‘ اخلاقیات زندہ رہیں ‘ انفرادی سطح پر نیکی سے وابستگی باقی رہے تو اسلامی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بس یہی کچھ کافی ہے کوئی ضروری نہیں کہ ملک میں اسلامی قانون بھی نافذ ہو بلکہ مسلمانوں میں ایک ایسی معقول تعداد بھی موجود ہے جو سرے سے اسلامی قانون کے وجود ہی کی منکر ہے، حالانکہ اگر اسلامی قانون کے وجود سے انکار کردیا جائے تو اس سے آپ سے آپ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام کا اجتماعیت سے کوئی رشتہ نہیں ہم انفرادی زندگی میں مسلمان ہیں اور ہمیں اسلام کی انفرادی زندگی کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے رہے اجتماعی ادارے تو ان کے لیے ہمیں اللہ نے آزاد چھوڑا ہے انھیں اپنی صوابدید کے مطابق جس طرح بھی چلایا جائے اس کا اسلام سے یا اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں یہی وہ گمراہی ہے جس کے ازالے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ انسانی کے آغاز میں یہ عہد لیا تھا اور قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ اس کی یاد دہانی کرائی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ عہد کہاں لیا گیا تھا اور اس کی کیفیت کیا تھی ؟ حضرت عبد اللہ ابن عباس ( رض) کے حوالے سے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ عہد حضرت آدم کے زمین پر بھیجنے کے بعد عرفات میں لیا گیا تھا لیکن بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ تخلیقِ آدم کے موقع پر پیش آیا اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کر کے حضرت آدم کو سجدہ کرایا گیا اور زمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا گیا اسی طرح پوری نسل آدم کو بھی جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی اللہ تعالیٰ نے بیک وقت وجود اور شعور بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا تھا اور ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی۔ حضرت ابی ابن کعب ( رض) نے غالباً نبی کریم ﷺ سے استفادہ کر کے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس مضمون کی بہترین شرح ہے وہ فرماتے ہیں۔ ” اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور ( ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے) لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کر کے انھیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطاکی، پھر ان سے عہد و میثاق لیا اور انھیں جب اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انھوں نے عرض کیا ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین و آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھہراتا ہوں تاکہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا۔ خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرانا۔ میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو کہ تم کو یہ عہد و میثاق جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو، یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا۔ اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے، آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں، آپ کے سوا کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی معبود۔ “ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ازلی میثاق فی الوقع عمل میں آیا بھی تھا تو کیا اس کی یاد ہمارے شعور اور حافظہ میں موجود ہے اور کیا ہم میں سے کوئی شخص بھی یہ جانتا ہے کہ آغاز آفرینش میں وہ اپنے خدا کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس سے یہ عہد لیا گیا تھا اور اگر کسی کو یاد نہیں تو پھر یہ عہد ہمارے خلاف حجت کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف باتیں کہی جاسکتی ہیں جن کا تعلق خارجی شواہد سے بھی ہے اور انسان کے اندر دبے ہوئے احساس سے بھی۔ جہاں تک خارجی شواہد کا تعلق ہے اس سلسلے میں گذارش یہ ہے کہ خود انسانوں میں بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جنھوں نے یہ اقرار کیا ہے کہ ہمیں یہ عہد پوری طرح یاد ہے، حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا کہ یہ عہد و میثاق مجھے ایسا یاد ہے گویا اس وقت سن رہا ہوں اور بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جس وقت یہ اقرار لیا گیا میرے آس پاس میں کون کون لوگ موجود تھے، ہاں یہ ظاہر ہے کہ ایسے افراد شاذو نادر کے درجہ میں ہیں، اس لیے عام لوگوں کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جو بالخاصہ اثر رکھتے ہیں، چاہے وہ کام کسی کو یاد رہے یا نہ رہے بلکہ اس کی خبر بھی نہ ہو مگر وہ اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں، یہ عہد و اقرار بھی ایسی ہی حیثیت رکھتا ہے کہ دراصل اس اقرار نے ہر انسان کے دل میں معرفتِ حق کا ایک بیج ڈال دیا جو پرورش پا رہا ہے چاہے اس کو خبر ہو یا نہ ہو، اور اسی بیج کے پھل پھول ہیں کہ ہر انسان کی فطرت میں حق تعالیٰ کی محبت و عظمت پائی جاتی ہے خواہ اس کا ظہور بت پرستی اور مخلوق پرستی کے کسی غلط پیرایہ میں ہو، وہ چند بدنصیب لوگ جن کی فطرت ہی مسخ ہو کر ان کا عقلی ذائقہ خراب ہوگیا اور میٹھے کڑوے کی پہچان جاتی رہی ان کے علاوہ باقی ساری دنیا کے اربوں انسان اللہ تعالیٰ کی دھن اور خیال اور عظمت سے خالی نہیں، چاہے مادی خواہشات میں مبتلا ہو کر یا کسی گمراہ سوسائٹی میں پڑ کر وہ اس کو بھلا دیں، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلٰی الْفِطْرَۃِ وفی بعض الروایات عَلٰی ھٰذِہِ الْمِلَّۃِ (اخرجہ البخاری و مسلم) ہر پیدا ہونے والا دین فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو دوسرے خیالات میں مبتلا کردیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بندوں کو حنیف یعنی ایک خدا کا ماننے والا پیدا کیا ہے پھر شیاطین ان کے پیچھے لگ گئے اور ان کو اس صحیح راستہ سے دور لے گئے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنے سارے بگاڑ کے باوجود جب کبھی حالات کی گرفت میں آتا ہے اور اس کے مزعومہ سہارے ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگتے ہیں تو پھر آخر ایک وقت آتا ہے کہ وہ تنہائی میں اس ان دیکھی ذات کو پکارتا ہے جسے اس کی عقل و دانش نے آج تک قبول کرنے سے انکار کیا تھا چونکہ اس کی عقل پر آج تک خواہشات ‘ مفادات ‘ وضعی علوم اور جدید فلسفوں کے پردے پڑے ہوئے تھے جس نے اس کی فطرت کو دبا رکھا تھا جیسے ہی تندی حالات کا ایک تیز جھونکا ان پردوں کو اٹھا کر دور پھینکتا ہے اور اس کی اصلی فطرت کو کام کرنے کا موقع ملتا ہے تو اس کے تحت الشعور میں دبا ہوا اللہ کا تصور ابھر کر سامنے آکھڑا ہوتا ہے اور یہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا ہے اگر تھوڑا سا بھی تامل کیا جائے تو یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ اسی عہد الست کی صدائے بازگشت ہے۔ اس کا ایک جواب صاحب تفہیم القرآن نے نہایت بصیرت سے دیا ہے ہم فائدے کے لیے اس کو نقل کر رہے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں کہ اگر اس میثاق کا نقش انسان کے شعور اور حافظہ میں تازہ رہنے دیا جاتا تو انسان کو دنیا کی موجودہ امتحان گاہ میں بھیجا جانا سرے سے فضول ہوجاتا کیونکہ اس کے بعد تو اس آزمائش و امتحان کے کوئی معنی ہی باقی نہ رہ جاتے۔ لہٰذا اس نقش کو شعور و حافظہ میں تو تازہ نہیں رکھا گیا لیکن وہ تحت الشعور (Sub-conscious mind) اور وجدان (Intuition) میں یقینا محفوظ ہے۔ اس کا حال وہی ہے جو ہمارے تمام دوسرے تحت الشعوری اور وجدانی علوم کا حال ہے۔ تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاملات کے تمام شعبوں میں انسان سے آج تک جو کچھ بھی ظہور میں آیا ہے وہ سب درحقیقت انسان کے اندر بالقوۃ (Potentially) موجود تھا۔ خارجہ محرکات اور داخلی تحریکات نے مل جل کر اگر کچھ کیا ہے تو صرف اتنا کہ جو کچھ بالقوۃ تھا اسے بالفعل کردیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی تعلیم، کوئی تربیت، کوئی ماحولی تاثیر اور کوئی داخلی تحریک انسان کے اندر کوئی چیز بھی جو اس کے اندر بالقوۃ موجود نہ ہو، ہرگز پیدا نہیں کرسکتی۔ اور اسی طرح یہ سب موثرات اگر اپنا تمام زور بھی صرف کردیں تو ان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ان چیزوں میں سے، جو انسان کے اندر بالقوۃ موجود ہیں، کسی چیز کو قطعی محو کردیں۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کرسکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ اسے اصل فطرت سے منحرف (Pervert) کردیں۔ لیکن وہ چیز تمام تحریفات و تمسیخات کے باوجود اندر موجود رہے گی ظہور میں آنے کے لیے زور لگاتی رہے گی اور خارجہ اپیل کا جواب دینے کے لیے مستعد رہے گی۔ یہ معاملہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا، ہمارے تمام تحت الشعوری اور وجدانی علوم کے ساتھ عام ہے۔ وہ سب ہمارے اندر بالقوۃ موجود ہیں اور ان کے موجود ہونے کا یقینی ثبوت ان چیزوں سے ہمیں ملتا ہے جو بالفعل ہم سے ظاہر ہوتی ہے۔ ان سب کے ظہور میں آنے کے لیے خارجی تذکیر (یاد دہانی) تعلیم، تربیت اور تشکیل کی ضرورت ہوتی ہے اور جو کچھ ہم سے ظاہر ہوتا ہے وہ گویا درحقیقت خارجی اپیل کا وہ جواب ہے جو ہمارے اندر کی بالقوۃ موجودات کی طرف سے ملتا ہے۔ ان سب کو اندر کی غلط خواہشات اور باہر کی غلط تاثیرات دبا کر پردہ ڈال کر، منحرف اور مسخ کر کے کالعدم کرسکتی ہیں بالکل معدوم نہیں کرسکتیں اور اسی لیے اندرونی احساس اور بیرونی سعی دونوں سے اصلاح اور تبدیلی (Conversion) ممکن ہوتی ہے۔ ٹھیک ٹھیک یہی کیفیت اس وجدانی علم کی بھی ہے جو ہمیں کائنات میں اپنی حقیق حیثیت اور خالق کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں حاصل ہے۔ اس کے موجود ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے ہر دور میں، زمین کے ہر خطہ میں، ہر بستی، ہر پشت اور ہر نسل میں ابھرتا رہا ہے اور کبھی دنیا کی کوئی طاقت اسے محو کردینے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ اس کے مطابقِ حقیقت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب کبھی وہ ابھر کر بالفعل ہماری زندگی میں کارفرما ہوا ہے اس نے صالح اور مفید نتائج ہی پیدا کیے ہیں۔ اس کو ابھرنے اور ظہور میں آنے اور عملی صورت اختیار کرنے کے لیے ایک خارجی اپیل کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے ‘ چناچہ انبیاء (علیہم السلام) اور کتب آسمانی اور ان کی پیروی کرنے والے داعیانِ حق سب کے سب یہی خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ اسی لیے ان کو قرآن میں مذکر (یاد دلانے والے) ذکر (یاد) تذکرہ (یادداشت) اور ان کے کام کو تذکیر (یاد دہانی) کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ انبیاء اور کتابیں اور داعیانِ حق انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتے بلکہ اسی چیز کو ابھارتے اور تازہ کرتے ہیں جو ان کے اندر پہلے سے موجود تھی۔ نفسِ انسانی کی طرف سے ہر زمانہ میں اس تذکیر کا جواب بصورت لبیک ملنا اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ اندر فی الواقع کوئی علم چھپا ہوا تھا جو اپنے پکارنے والے کی آواز پہچان کر جواب دینے کے لیے ابھر آیا۔ پھر اسے جہالت اور جاہلیت اور خواہشاتِ نفس اور تعصبات اور شیاطین جن و انس کی گمراہ کن تعلیمات و ترغیبات نے ہمیشہ دبانے اور چھپانے اور منحرف اور مسخ کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں شرک، دہریت، الحاد، زندقہ اور اخلاقی و عملی فساد رونما ہوتا ہے۔ لیکن ضلالت کی ان ساری طاقتوں کے متحدہ عمل کے باوجود اس علم کا پیدائشی نقش انسان کی لوح دل پر کسی نہ کسی حد تک موجود رہا ہے اور اسی لیے تذکیر و تجدید کی کوششیں اسے ابھارنے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں۔ بلا شبہ دنیا کی موجودہ زندگی میں جو لوگ حق اور حقیقت کے انکار پر مصر ہیں وہ اپنی حجت بازیوں سے اس پیدائشی نقش کے وجود کا انکار کرسکتے ہیں یا کم از کم اسے مشتبہ ثابت کرسکتے ہیں۔ لیکن جس روز یوم الحساب برپا ہوگا اس روز ان کا خالق ان کے شعور و حافظہ میں روز ازل کے اس اجتماع کی یاد تازہ کر دے گا جب کہ انھوں نے اس کو اپنا واحد معبود اور واحد رب تسلیم کیا تھا۔ پھر وہ اس بات کا ثبوت بھی ان کے اپنے نفس ہی سے فراہم کر دے گا کہ اس میثاق کا نقش ان کے نفس میں برابر موجود رہا اور یہ بھی وہ ان کی اپنی زندگی ہی کے ریکارڈ سے علی رؤس الاشہاد دکھا دے گا کہ انھوں نے کس کس طرح اس نقش کو دبایا، کب کب اور کن کن مواقع پر ان کے قلب سے تصدیق کی آوازیں اٹھیں، اپنی اور اپنے گردو پیش کی گمراہیوں پر ان کے وجدان نے کہاں کہاں اور کس کس وقت صدائے انکار بلند کی، داعیانِ حق کی دعوت کا جواب دینے کے لیے ان کے اندر چھپا ہوا علم کتنی کتنی مرتبہ اور کس کس جگہ ابھرنے پر آمادہ ہوا اور پھر وہ اپنے تعصبات اور اپنی خواہشات نفس کی بناء پر کیسے کیسے حیلوں بہانوں سے اس کو فریب دیتے اور خاموش کردیتے رہے۔ وہ وقت جب کہ یہ سارے راز فاش ہوں گے حجت بازیوں کا نہ ہوگا بلکہ صاف صاف اقرارِ جرم کا ہوگا۔ اسی لیے قرآن مجید کہتا ہے کہ اس وقت مجرمین یہ نہیں کہیں گے کہ ہم جاہل تھے یا غافل تھے بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہم کافر تھے، یعنی ہم نے جان بوجھ کر حق کا انکار کیا۔ وَشَھِدُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا کَافِریْنَ (الانعام، 130) عہد لینے کے اسباب اس آیت کریمہ کے آخر میں اور اس کی بعد کی آیت میں اس عہد لینے کے اسباب بیان فرمائے گئے ہیں۔ پہلا سبب یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ہم نے نوع انسانی سے یہ عہد اس لیے لیا تاکہ وہ قیامت کے دن یہ عذر نہ کرسکیں کہ آپ ہم سے توحید اور بدیہیاتِ فطرت کا سوال کر رہے ہیں ہمیں تو دنیا میں اس کے بارے میں کوئی علم نہیں دیا گیا تو ہم اپنی بیخبر ی کے باعث توحید کو ماننے اور فطرت کے تقاضوں کا جواب دینے سے معذور تھے اگر ہمیں اس سے آگاہی بخشی جاتی تو ہم ضرور اس کا اقرار کرتے تو آج ہمیں ایک ایسی بات میں ماخوذ کیوں کیا جا رہا ہے جس کا ہمیں علم نہیں دیا گیا اس کے جواب میں ان سے کہا جائے گا کہ ہم نے تمہاری تخلیق سے پہلے تمہارے جدِ امجد کی تخلیق کے وقت تمہیں اپنے سامنے حاضر کر کے اور تمہیں شعور اور جسم دے کر یہ عہد تم سے لیا تھا تو اس عہد کی وجہ سے آج تم سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ تم نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیوں نہ کیا اور کیوں اس سے بار بار انکار کرتے رہے ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسانوں کے کسی گروہ کے پاس اللہ کے نبیوں کی دعوت نہیں پہنچی تو وہ محض اس عہد الست کے باعث اللہ کی توحید اور بدیہیاتِ فطرت پر ایمان لانے کے پابند ہیں ان سے باقی عقائد اور اعمال کے بارے میں تو کوئی سوال نہیں ہوگا لیکن اس کا مواخذہ ان سے ضرور ہوگا کیونکہ جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا گیا ہے کہ اللہ نے انسانوں سے اپنی ربوبیت کا جو عہد لیا تھا وہ انسان کے تحت الشعور میں زندہ ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ آدمی کھلی آنکھوں سے کائنات کی نشانیوں کو دیکھنے کی کوشش کرے۔ اگلی آیت کریمہ میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ یہ عہد الست ہم نے تم سے اس لیے لیا ہے تاکہ قیامت کے دن تم اپنے آبائو اجداد کے شرک کو عذر نہ بنا سکو یعنی تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم سے پہلے ہمارے آبائو اجداد چونکہ شرک میں مبتلا تھے اور ہم ان کے گھر میں پیدا ہوئے ان کی تربیت اور گھر کے ماحول کے باعث ہم اسی شرک میں مبتلا ہوئے جس کو ہم نے اپنے گھر میں اور گھر سے باہر محسوس کیا جس بات کا ہم سے سوال کیا جا رہا ہے اس کا تو دور دور کہیں نشان نظر نہ آیا تو ہم اس کا اقرار کیسے کرسکتے تھے۔ اگر اس جرم کی کوئی سزا ہے تو اس کے مستحق وہ لوگ ہیں جو ہمارے آبائو اجداد یا ہم سے پہلے گزرے ہیں ہمیں تو کسی صورت میں اس میں ماخوذ نہیں کرنا چاہیے پروردگار انھیں بھی اسی عہد کی یاد دلا کر ان سے مواخذہ کرے گا کیونکہ جو چیزیں انسان کی فطرت میں داخل یا اس کے تحت الشعور میں موجود ہیں انھیں شعور میں لانا یہ انسان کی بہرحال ذمہ داری ہے انسان اگر اپنے گھر والوں کو جاہل دیکھتا ہے تو اس کے لیے جاہل رہنے کا جواز پیدا نہیں ہوجاتا وہ گھر میں غربت کے ڈیرے دیکھتا ہے تو وہ کبھی اس غربت پر قانع ہو کر نہیں بیٹھتا بلکہ غربت کو امارت میں بدلنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کرتا ہے۔ کیونکہ بہتری اور خیر کی تلاش اور تبدیلی کی خواہش انسان کی فطرت اور تحت الشعور میں موجود ہے اور ہم ہمیشہ اس کے مطابق لوگوں کو محنت کرتا ہوا دیکھتے ہیں اور کبھی کسی سے یہ عذر نہیں سنتے کہ میں اپنے گھر کی حالت کو کیوں بدلوں کیونکہ میں نے اپنے گھر کو ایسا ہی پایا ہے لیکن دینی احساسات کے بارے میں نہ جانے اس گمراہی کو سند جواز کیسے دی جاتی ہے اس آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن یہ عذر قبول نہیں کیا جائے گا البتہ اس کی بعد کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک احسان کا ذکر فرمایا ہے کہ قیامت کے دن اگرچہ یہ عہد الست ہر انسان کی جواب طلبی کے لیے کافی ہے لیکن یہ مزید اللہ کا احسان ہے کہ اس نے اس عہد کی یاد دہانی کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا ان پر اپنی کتابیں اتاریں اور پھر اپنی نشانیوں (آیات) کو کھول کھول کر پوری تفصیل سے بیان کیا تاکہ کوئی شخص اگر ایسا ہی گیا گزرا ہے کہ اس کے اندر کے احساسات کبھی خیر کی طرف سفر کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اس نے پوری طرح اپنے اندر کی دنیا کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے تو اس کی بھلائی اور خیر خواہی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیجے تاکہ وہ اس کے دبے ہوئے احساسات کو ابھارنے کی کوشش کریں اور اسے اس عہد کی یاد دلائیں جسے وہ بالکل فراموش کرچکا ہے ممکن ہے اس اتمامِ حجت کے بعد اسے اللہ کی طرف لوٹنے کی ہمت پیدا ہو اور اس طرح سے وہ اپنی دنیا اور عاقبت کو بنانے میں کامیاب ہوجائے۔ اگلی آیت کریمہ میں بھی قریش ہی مخاطب ہیں سابقہ آیات میں انھیں عہد فطرت یاد دلایا گیا ہے اور اب انھیں مثال دے کر سمجھایا جا رہا ہے کہ اگر تم نے اس عہد فطرت کی روشنی میں اللہ کے بنی کی دعوت کو قبول کر کے اپنی حالت نہ بدلی تو تمہارا انجام وہی ہوگا جس کا اس مثال میں ذکر کیا گیا ہے۔ پھر اس مثال کے ضمن میں ان اسباب کو بھی ذکر کردیا گیا ہے جو افراد یا اقوام کے بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔
Top