Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 172
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا (نکالی) رَبُّكَ : تمہارا رب مِنْ : سے (کی) بَنِيْٓ اٰدَمَ : بنی آدم مِنْ : سے ظُهُوْرِهِمْ : ان کی پشت ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد وَاَشْهَدَهُمْ : اور گواہ بنایا ان کو عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں اَلَسْتُ : کیا نہیں ہوں میں بِرَبِّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے بَلٰي : ہاں، کیوں نہیں شَهِدْنَا : ہم گواہ ہیں اَنْ : کہ (کبھی) تَقُوْلُوْا : تم کہو يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّا : بیشک ہم كُنَّا : تھے عَنْ : سے هٰذَا : اس غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے انکی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرا لیا (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ؟ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ؟ ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے) یہ اقرار اس لیے کرایا تھا کہ قیامت کے دن کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔
آیت نمبر : 172۔ 174 اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : 1 قولہ تعالیٰ : آیت : واذاخذ ربک یعنی تم انہیں یاد دلاو اس کے باوجود کہ معاہدوں کا ذکر ان کی کتابوں میں پہلے گزر چکا ہے وہ میثاق جو میں نے بندوں سے اس دن لیا جس دن حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے اولاد کو نکالا۔ یہ ایک مشکل آیت ہے اور علماء نے اس کی تاویل اور اس کے احکام کے بارے کافی گفتگو کی ہے، جو کچھ انہوں نے ذکر کیا ہے ہم حسب توفیق اسے ذکر کریں گے۔ پس ایک گروہ نے کہا ہے کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض بنی آدم کی پشتوں سے بعض کو نکالا۔ انہوں نے کہا : آیت : اشھدھم علی انفسھم الست بربکم کا معنی ہے کہ اللہ تعالٰٰ نے اپنی تخلیق کے ساتھ انہیں اپنی توحید پر دلیل بنایا، کیونکہ ہر بالغ بالضرور یہ جانتا ہے کہ اس کا رب واحد ویکتا ہے۔ آیت : الست بربکم یعنی فرمایا : ( کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ! ) پس یہ ان پر گواہ بنانے کے لیے قائم مقام اور ان کی طرف سے اقرار ہوگیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کے بارے میں فرمایا : آیت : قانتا اتینا طائعین ( فصلت) ( دونوں نے عرض کی ہم خوشی خوشی ( دست بستہ) حاضر ہیں) قفال اور اطنب نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جسموں کو پیدا کرنے سے پہلے ارواح کو نکالا۔ اور ان میں معرفت رکھ دی جس کے سبب انہوں نے اس خطاب کو جان لیا جو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : حدیث طیبہ میں حضور نبی مکرم ﷺ سے ان دونوں قولوں کے سوا اور مروی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے جسموں کو نکالا جن میں روحیں تھیں۔ حضرت امام مالک (رح) نے موطا میں روایت کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے اس آیت کے بارے پوچھا گیا آیت : واذاخذ ربک من بنی ادم من ظھورھم ذریتھم واشھدھم علی انفسھم الست بربکم قالوا بلی سھدنا ان تقولوا یوم القیمۃ انا کنا عن ھذا غفلین تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ سے اس کے بارے پوچھاق گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو تخلیق فرمایا (1) پھر اپنے دست قدرت کے ساتھ ان کی پشت کو مس کیا اور اس سے اولاد نکالی اور فرمایا میں نے انہیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اہل جنت کے اعمال کریں گے پھر آپ کی پشت کو مس کیا اور اس سے اولاد نکالی اور فرمایا میں نے انہیں جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اہل نار کے اعمال کریں گے “۔ تو ایک آدمی نے عرض کی : تو پھر عمل کس لیے ہیں ؟ حضرت عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو جنت کے لیے پیدا فرماتا ہے تو وہ اس سے اہل جنت کے اعمال کی طرح عمل کراتا ہے یہاں تک کہ وہ اہل جنت کے اعمال کی مثل عمل کرتے ہوئے فوت ہوجاتا ہے پس وہ اسے جنت میں داخل فرما دے گا اور جب کسی بندے کو جہنم کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے اہل جہنم کے اعمال کی مثل عمل کراتا ہے یہاں تک کہ وہ اہل جہنم کے اعمال میں سے کوئی عمل کرتے ہوئے مر جاتا ہے پس اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں داخل فرما دے گا “۔ ابو عمر نے کہا ہے : یہ حدیث منقطع الاسناد ہے، کیونکہ مسلم بن یسار نے حضرت عمر ؓ سے ملاقات نہیں کی۔ اور اس میں یحییٰ بن معین نے کہا ہے : مسلم بن یسار معروف نہیں، ان کے اور حضرت عمر ؓ کے درمیان نعیم بن ربیعہ ہیں، اسے نسائی نے ذکر کیا ہے، اور نعیم علمی اعتبار سے غیر معروف ہے، لیکن اس حدیث کا معنی کئی وجوہ سے حضور نبی مکرم ﷺ سے صحیح ہے جو ثابت بھی ہیں اور زیادہ بھی ہیں، حضرت عمر بن خطاب ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت ابوہریرہ ؓ اور دیگر سے مروی ہیں (جامع ترمذی کتاب القدر عن رسول اللہ، حدیث نمبر 2061، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے حدیث روایت کی ہے اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے انہوں نے بیان کیا : بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو تخلیق فرمایا تو ان کی پشت کو مس کیا تو ان کی پشت سے ہر وہ روح گری جسے قیامت تک ان کی اولاد میں سے پیدا ہونا تھا اور ان میں سے ہر آدمی کی دونوں آنکھوں کے درمیان نور کی چمک رک دی اور پھر انہیں آدم (علیہ السلام) پر پیش فرمایا تو انہوں نے پوچھا : اے میرے رب ! یہ کون ہیں ؟ رب کریم نے فرمایا : یہ تمہاری اولاد ہے، پس آپ نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا تو اس کی آنکھوں کے درمیان پائی جانے والی چمک نے انہیں متعجب کردیا۔ تو انہوں نے پوچھا : اے میرے رب ! یہ کون ہے ؟ تو رب کریم نے فرمایا : یہ تمہاری اولاد میں سے آخری امتوں میں سے ایک فرد ہے، اسے داؤد کہا جائے گا، تو آپ نے عرض کی : اے میرے پروردگار ! تو نے اس کی عمر کتنی بنائی ہے ؟ رب کریم نے فرمایا : ساٹھ برس۔ تو انہوں نے عرض کی اے میرے پروردگا ! اس کی عمر میں میری عمر میں سے چالیس سال کا اجافہ کر دے پس جب حضرت آدم (علیہ السلام) کی عمر گزر چکی تو حضرت ملک الموت (علیہ السلام) ان کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا : کیا ابھی میری عمر میں چالیس برس باقی نہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا : کیا آپ نے وہ اپنے بیٹے حضرت داود (علیہ السلام) کو نہیں دے دیئے تھے۔ راوی کہتا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے انکار کرد یا۔ پس آپ کی اولاد نے بھی انکار کردیا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) بھولے تو آپ کی اولاد بھی بھولنے لگی “ (جامع ترمذی کتاب القدر عن رسول اللہ، سورة التوبۃ، حدیث نمبر 3002، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اور ترمذی کے علاوہ میں ہے، ” پس اس وقت اللہ تعالیٰ نے کتاب اور گواہوں کو حکم فرمایا “۔ ایک روایت میں ہیـ” پس آپ نے ان میں ضعیف، غنی، فقیر (ذلیل) بیماری اور تکلیف میں مبتلا اور صحت مند کو دیکھا، تو آدم (علیہ السلام) نے پوچھا : اے میرے پروردگار ! یہ کہا ہے ؟ تو نے ان کے درمیان مساوات قائم نہیں فرمائی ؟ تو رب کریم نے فرمایا : میں نے چاہا کہ میرا شکر ادا کیا جائے “۔ حضرت عبدا للہ بن عمرو ؓ نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت بیان کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” انہیں آپ کی پشت سے نکالا گیا جیسے کنگھی سر سے نکالی جاتی ہے “۔ اور اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی چیونٹی کی طرح عقل عطا فرما دی اور ان سے وعدہ لیا اس بارے میں کہ وہ ان کا رب ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس انہوں نے اس کا اقرار کیا اور اسے لازم پکڑ لیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ وہ عنقریب ان کی طرف انبیاء روسل علیہم الصلوات والتسلیم مبعوث فرمائے گا، پس ان میں سے بعض بعض پر گواہ ہوگئے۔ حضرت ابی بن کعب ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ان پر سات آسمانوں کو شاہد بنایا، پس اب قیامت تک جو بھی پیدا ہوگا اس سے وہ عہد لے لیا گیا ہے۔ اس جگہ اور مقام کے بارے اختلاف ہے جس میں اس وقت یہ میثاق لیا گیا اس بارے میں چار اقول ہیں : پس حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ وہ جگہ بطن نعمان ہے، یہ عرفات کے پہلو میں ایک وادی ہے۔ یحییٰ بن سلام نے کہا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے اس آیت کے تحت فرمایا : اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو ہند میں اتارا، پھر آپ کی پشت کو مس کیا اور اس سے ہر روح کو نکالا جسے یوم قیامت تک پیدا کرنا تھا، پھر فرمایا : آیت : الست بربکم قالوا بلی شھدنا یحییٰ نے بیان کیا ہے کہ حضرت حسن نے کہا ہے : پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت آدم (علیہ السلام) کی صلب میں لوٹا دیا۔ اور کلبی (رح) نے کہا ہے : وہ جگہ مکہ اور طائف کے درمیان ہے۔ اور سدی نے کہا ہے : وہ آسمان دنیا میں ہے جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو جنت سے اس کی طرف اتارا تو آپ کی پشت کو مس کیا تو آپ کی پشت کی دائیں جانب سے موتیوں کی مثل سفید اولاد کو ناکالا اور انہیں فرمایا : تم میری رحمت سے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ اور آپ کی پشت کی بائیں جانب سے سیاہ رنگ کی اولاد کو نکالا اور ان کے لیے فرمایا : تم جہنم میں داخل ہوجاؤ مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ابن جریج نے کہا ہے : ہر نفس جو جنت کے لیے پیدا کیا گیا وہ سفید رنگ میں نکلا اور ہر نفس جو جہنم کے لیے پیدا کیا گیا ہے وہ سیاہ رنک میں نکلا۔ مسئلہ نمبر 2 علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : ” اگر یہ کہا جائے اس کا مخلوق کو عذاب دینا کیسے جائز ہو سکتا ہے (احکام القرآن لابنی العربی، جلد 2، صفحہ 801) حالانکہ انہوں نے گناہ نہیں کیے، یا وہ انہیں اس پر سزا دے جس کا اس نے ان سے ارادہ کیا ہے اور ان پر وہ لکھ دیا اور اس کی طرف انہیں چلایا ہے ؟ تو ہم کہیں گے : یہ کہاں سے ممتنع ہے، کیا عقلا یا شرعا ؟ پس اگر کہا جائے : کیونکہ ہم میں سے رحیم و حکیم کا اس طرح کرنا جائز نہیں ہوتا، تو ہم کہیں گے : اس لیے کہ اس سے اوپر تو ایک امر ( حکم دینے والا) ہوتا ہے جو اسے حکم دیتا ہے اور منع کرنے والاہوتاو ہے جو اسے منع کرتا ہے، روکتا ہے۔ اور ہمارا رب تعالیٰ وہ ہے کہ اس سے اس کے بارے نہیں پوچھا جاسکتا جو وہ کرتا ہے او ان لوگوں سے پوچھا جاسکتا ہے اور یہ جائز نہیں ہے کہ مخلوق کو خالق پر قیاس کیا جائے اور بندوں کے افعال کو معبود کے افعال پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ فی الحقیقت تمام کے تمام افعال اللہ تعالیٰ عزوجل کے لیے ہیں اور مخلوق ساری کی ساری اسی کی ہے، وہ ان میں تصرف کرتا ہے جیسے چاہے اور ان کے درمیان اسی کے بارے فیصلہ کرسکتا ہے جس کا وہ ارادہ کرے۔ اور یہی وہ شے ہے جسے آدمی پاتا ہے کہ فطری نرمی، جنسی شفقت اور ثنا ومدح کی محبت اس پر ابھارتی اور برانگیختہ کرتی ہے، ہر اس شے کے لیے جس میں اسے نفع کی توقع ہوتی ہے۔ اور رب کریم کی ذات ان تمام سے پاک ہے، لہٰذا اس میں اس کا اعتبار کرنا جائز نہیں “۔ مسئلہ نمبر 3۔ اس آیت کے بارے اختلاف ہے، کیا یہ خاص ہے یا عام ؟ بعض نے کہا ہے : یہ آیت کا ص ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت : من بنی ادم من ظھورھم پس اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اولاد آدم میں سے جو ہے وہ آپ کی صلب سے نکلا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت : اوتقولوا انما اشرک ابآؤنا من قبل پس اس سے یہ نکلا کہ ہر وہ جو آپ کے آباء نہ تھے وہ مشرک تھے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت انکے بارے میں مخصوص ہے جن سے انبیاء (علیہم السلام) کی زبانوں پر عہد لیا گیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بلکہ یہ تمام لوگوں کے لیے عام ہے، کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ بچہ تھا پس اسے غذا دی گئی اور اس کی تربیت کی گئی اور بلاشبہ اس کا مدبر ( تدبیر کرنے والا) اور خالق ہے۔ اور یہی معنی آیت : واشھدھم علی انفسھم کا ہے۔ اور قالوا بلی کا معنی ہے بلاشبہ یہ ان پر واجب ہے۔ پس جب مخلوق نے اللہ تبارک وتعالیٰ کا اعتراف کرلیا کہ وہ رب ہے پھر وہ اس سے غافل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کے سبب انہیں یاد دلایا اور اس تذکیر کو اپنے منتخب اور اصفیاء میں سے افضل ترین کے ساتھ ختم کیا تاکہ لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے حجت اور دلیل قائم ہوجائے پس اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو فرمایا : آیت : فذکر انما انت مذکر لست علیھم بمصیطر (الغاشیہ) پس آپ انہیں سمجھاتے رہا کریں، آۃ پ کا کام تو سمجھا نا ہی ہے۔ آپ ان کو جبر سے منوانے والے تو نہیں ہیں) پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو جبر کرنے کی قدرت بھی عطا فرمائی اور آپ کو سلطنت اور قوت عطا فرمائی اور آپ کے لیے آپ کے دین کو زمین میں غالب کردیا۔ طرطوشی (رح) (1) نے کہا ہے : بیشک یہ عہد ہر بشر کو لازم ہے اگرچہ وہ اسے اس دنیا میں نہ یاد کرتے ہوں، جیسا کہ اس کی طلاق لازم ہوجاتی ہے جس پر اس کی شہادت دے دی جائے حالانکہ وہ اسے بھول چکا ہو۔ مسئلہ نمبر 4۔ اس آیت سے استدلال کیا ہے جنہوں نے کہا ہے : بیشک وہ جو صغر سنی میں ہی فوت ہوگیا تو وہ اپنے میثاق اول کے اقرار کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگا اور جو سن بلوغت کو پہنچ گیا تو میثاق اول اس کے لیے نفع مند نہیں۔ یہ کہنے والا یہ بھی کہتا ہے کہ مشرکین کے بچے جنت میں ہوں گے اور اس بارے میں صحیح ہے۔ البتہ اس مسئلہ میں آثار مختلف ہونے کی وجہ سے اختالف ہے اور صحیح وہی ہے جو ہم نے ذکر کردیا ہے۔ اس بارے میں گفتگو سورة الروم میں آئے گی انشاء اللہ اور ہم نے اس کا ذکر کتاب ” التذکرہ “ میں بھی کیا ہے۔ والحمد للہ مسئلہ نمبر 5۔ قولہ تعالیٰ : آیت : من ظھورھم یہ قول باری تعالیٰ آیت : من بنی ادم سے بدل اشتمال ہے۔ اور آیت کے الفاظ یہ تقاجا کرتے ہیں کہ یہ عہد اولاد آدم سے لیا گیا ہے، لفظ کے اعتبار سے آیت میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا ذکر نہیں ہے اس پر الفاظ کی توجیہ ہے : آیت : واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظھورھم ذریتھم ( اور جب آپ کے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا) ظہر آدم کا ذکر نہیں کیا، کیونکہ یہ تو معلوم ہے کہ وہ سب کے سب آپ کی اولاد ہیں اور یہ کہ انہیں میثاق کے دن آپ کی پشت سے نکالا گیا۔ پس وہ اپنے ارشاد آیت : من بنی ادم کے سبب آپ کے ذکر سے مستغنی ہوگیا۔ ذریتھم کو فیوں اور ابن کثیر نے اسے واحد اور تا کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ واحد اور جمع دونوں کے لیے آتا ہے ( جیسے) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : ھب لی من لدنک ذریۃ طیبۃ ( آل عمران : 38) یہ واحد کے لیے ہے، کیونکہ انہوں نے بچہ عطا کرنے کی التجا کی تو آپ کو یحییٰ (علیہ السلام) کی بشارت دی گئی اور قراء نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد آیت : من ذریۃ ادم ( مریم : 58) میں اس کے واحد ہونے پر اجماع کیا ہے اور ذریت آدم سے زیادہ اور کوئی شے نہیں۔ اور فرمایا : آیت : وکنا ذریۃ من بعدھم یہ جمع کے لیے ہے۔ اور باقیوں نے ذریاتھم صیغہ جمع کے ساتھ قراءت کی ہے، کیونکہ ذریت کا لفظ جب واھد کے لیے واقع ہوتا ہے تو یہ ایسے لفظ کے ساتھ آتا ہے جو واحد کے لیے واقع نہیں ہوتا تو یہ جمع ہوتا ہے، کیونکہ کلمہ اپنے معنی مقصود کے لیے خالص ہوتا ہے اور اس ( معنی) میں کوئی شے شریک نہیں ہوتی اور وہ معنی جمع ہے، کیونکہ بنی آدم کی پشتوں سے کثیر تعداد میں مناسب اولادوں کو ایک دوسرے کے پیچھے نکالا گیا، ان کی تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، پس جمع اس معنی کے لیے ہے۔ مسئلہ نمبر 6 قولہ تعالیٰ : بلی اس کے بارے میں گفتگو سورة البقرہ میں ارشاد گرامی : آیت : بلی من کسب سیئۃ ( البقرہ : 81) کے تحت مکمل طور پر گرچ چکی ہے، پس وہیں غور کرلو اوتقولوق۔ او تقولوا ابو عمر نے دونوں مقام میں یاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ انہوں نے ان دونوں کو اس سے قبل غیب متکرر کے لفظ پر لوٹایا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : آیت : من بنی ادم من ظھورھم ذریتھم واشھدھم علی انفسھم اور قول باری تعالیٰ : قالوا بلی بھی لفظ غیب ہے۔ اور اسی طرح آیت : وکنا ذریۃ من بعدھم بھی ہے ولعلھم پس اسے اپنے ماقبل اور اپنے مابعد پر لفظ غیب کے ساتھ محمول کیا ہے۔ اور باقیوں نے دونوں میں تا پڑھی ہے۔ انہوں نے اسے سابقہ لفظ خطاب پر راجع کیا ہے جو اس قول باری تعالیٰ میں ہے : آیت : الست بربکم قالوا بلی اور شھدنا ملائکہ کے قول میں سے ہوگا۔ ( یعنی) جب انہوں نے کہا ہے : بلی ( تو) ملائکہ نے کہا : شھدنا ان تقولوا او تقولوا یعنی تاکہ تم نہ کہو۔ اور بعض نے کہا ہے : اس کا معنی ہے کہ جب انہوں نے بلی کہا، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کرلیا، اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو فرمایا : تم گواہ ہوجاؤ ( تو) انہوں نے کہا : ہم تمہارے اقرار پر گواہ ہیں تاکہ تم نہ کہو یا کہو۔ یہ حضرت مجاہد، ضحاک اور سدی رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے۔ اور حضرت ابن عباس اور حضرت ابی بن کعب ؓ نے کہا ہے کہ قول باری تعالیٰ شھدنا یہ بنی آدم کے قول میں سے ہے اور اس کا معنی ہے : ہم شہادت دیتے ہیں کہ تو ہمارا رب اور ہمارا معبود ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر گواہ بنایا، پس اس کے مطابق یہ ہوگا ” انہوں نے کہا : ہاں ( کیوں نہیں) ہم بعض بعض پر گواہ ہیں “۔ جب یہ ملائکہ کے قول میں سے ہو تو پھر وقف بلی پر کیا جائے گا اور اس پر وقف اچھا نہیں ہوگا جب یہ بنی آدم کے قول میں سے ہو کیونکہ ان، بلی سے ماقبل کے متعلق ہے۔ اور وہ یہ قول باری تعالیٰ ہے : آیت : واشھدھم علی انفسھم ( اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نفسوں پر گواہ بنا دیا) تاکہ وہ نہ کہیں۔ حضرت مجاہد (رح) نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” تیرے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولادوں کو اس طرح نکالا جیسے سر سے کگھی نکال لی جاتی ہے ( جامع ترمذی، کتاب التفسیر، جلد 2، صفحہ 133) اور ان سے فرمایا : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا : بیشک تو ہی ہمارا رب ہے ( تو) ملائکہ نے کہا ہے : ہم تمہارے اس قول پر گواہ ہیں “۔ یعنی ہم تم پر ربوبیت کا اقرار کرنے پر گواہ ہیں تاکہ تم یہ نہ کہو۔ پس یہ ( مفہوم) تا پر دلالت کرتا ہے۔ مکی نے کہا ہے : معنی کے صحیح ہونے کی وجہ سے یہی پسندیدہ ہے اور اس لیے بھی کہ جمہور کا نظیرہ یہی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قول باری تعالیٰ آیت : شھدنا اللہ تعالیٰ اور ملائکہ کے قول میں سے ہے۔ اور معنی یہ ہے : پس ہم تمہارے اقرار پر گواہ ہیں۔ یہ ابو مالک نے کہا ہے۔ اور سدی (رح) سے بھی مروی ہے۔ آیت : وکنا ذریۃ من بعدھم یعنی ہم نے ان کی اقتدار کی۔ آیت : افتھلکنا بما فعل المبطلون یعنی معنی یہ ہے کہ تو یہ نہیں کرے گے ( کہ تو ہمیں اس شرک کی وجہ سے ہلاک کر دے جو باطل پرستوں نے کیا) اور توحید ( کے معاملہ) میں تقلید کرنے والوں کے لیے کوئی عذر نہیں۔
Top