Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 7
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے، اور انکے لئے بڑا عذاب (تیار) ہے
(آیت)” ختم اللہ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے مہر لا دی (آیت)” علی قلوبھم “ پس نہ خیر کو مقصود بناتے ہیں اور نہ اسے سمجھتے ہیں حتم کا حقیقی معنی کسی شئی کو مضبوط ومستحکم اس طرح کرنا تاکہ جو چیز اس شئی سے نکل چکی ہے وہ اس میں داخل نہ ہو اور جو داخل ہوچکی ہے وہ اس سے نکل نہ سکے اور اسی سے ہے ختم علی الباب یعنی دروازہ پر تالا لگا دیا ، اہل السنۃ والجماعت فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے عمل سابق ان کے دلوں پر کفر کا حکم کردیا ، معتزلہ کہتے ہیں ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے ایسی علامت لگا دی ہے جس کے ذریعے ان کافروں کو فرشتے پہچانتے ہیں۔ (آیت)” وعلی سمعھم “ یعنی ان کی سماعت کی جگہوں پر (مہر لگا دی) پس وہ حق کو نہیں سنتے اور نہ اس سے نفع اٹھاتے ہیں اور (آیت)” علی سمعھم “ سے مراد علی اسماعھم ہے جیسے دلوں کے بارے میں (آیت)” علی قلوبھم “ فرمایا لیکن کانوں کو مفرد اس لیے ذکر فرمایا کہ سمع مصدر ہے اور مصدر نہ تثنیہ ہوتی ہے اور نہ جمع ہوتی ہے ۔ (آیت)” وعلی ابصارھم غشاوۃ “ یہ کلام نئے سرے سے شروع کی گئی ، ” غشاوۃ کا معنی پردہ پس (جس سے وہ) حق کو نہیں دیکھتے ۔ ابو عمر اور کسائی نے (ابصارھم) کو امالہ کے ساتھ پڑھا (یعنی الف کو قدرے یاء کی طرف مائل کرکے اور اسی طرح ہر اس الف کا جس کے بعد راء مجرور ہو ، اسماء میں فعل کی لام کے مقابل اس کا امالہ کرتے ہیں اور ہمزہ ہر اس الف کا امالہ کرتے ہیں جس میں راء ہو جیسے قرار اور اس کے مثل اور کسائی نے جبارین ، جوار ، ماواکم اور من انصاری اور نسارع اور اس کے باب میں امالہ کا اضافہ کیا ہے اور اسی طرح یہ حضرات ہر اس الف کا امالہ کرتے ہیں جو الف کہ لام فعل کے قائم مقام ہو یا وہ تانیث کے لیے نام ہو جبکہ اس سے پہلے راء ہو ، تانیث کے نام کی مثال (کبری ، اخری ہے اور لام فعل کی مثال تری اور فتری) اس میں راء کو زیر دیتے ہیں ۔ (آیت)” ولاھم عذاب عظیم “ یعنی آخرت میں اور کہا گیا ہے دنیا میں قتل کرنا اور قید کرنا اور آخرت میں دائمی عذاب ، عذاب ہر وہ چیز ہے جو انسان کو مشقت میں ڈالے ، خلیل فرماتے ہیں عذاب ہر اس چیز کا نام ہے جو انسان کی مراد کے حصول میں رکاوٹ بن جائے اور اسی سے ہے ماء العذب یعنی ٹھنڈا میٹھا پانی کیونکہ وہ بھی پیاس کو منع یعنی ختم کرتا ہے ۔
Top