Dure-Mansoor - Al-Baqara : 7
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ان کے دلوں پر، اور ان کے سننے کی قوت پر، اور ان کی آنکھوں پر بڑا پردہ ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔
پھر فرمایا لفظ آیت ” ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلی انصارھم غشاوۃ “ یعنی ہدایت کے سننے اور دیکھنے سے ان پر پردہ ہے کہ وہ اس ہدایت کو کبھی نہ پائیں گے۔ بغیر اس چیز کے جو انہوں نے جھٹلا دیا حق کو جو تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے آیا یہاں تک کہ ایمان لائیں اس کے ساتھ۔ اگر وہ ایمان نہ لائیں اس کتاب پر جو آپ سے پہلے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوچکی) تھی۔ اور اس کے لیے تیری مخالفت کی وجہ سے عذاب عظیم ہوگا۔ یہ آیت یہود کے علماء کے بارے میں ہے۔ (4) امام ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ان الذین کفروا “ کا مطلب ہے کہی یہ دو آیتیں جنگ احزاب کے سرداروں کے بارے میں نازل ہوئیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت ” الم تر الی الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا واحلوا “ میں کیا پھر فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو بدر کے دن قتل کئے گئے اور ان سرداروں میں سے دو آدمیوں کے علاوہ کوئی اسلام میں داخل نہیں ہوا۔ ابو سفیان اور حکم بن العاص۔ (5) امام ابن المنذر نے سدی سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ء انذرتھم ام لم تنذرھم “ سے مراد ہے کہ آپ ان کو نصیحت کریں یا نہ کریں۔ (یہ ایمان نہیں لائیں گے) (6) امام عبد بن حمید نے حضرت قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیات ” ان الذین کفروا سواء علیہمء انذرتھم ام لم تنذرھم لا یؤمنون “ سے مراد ہے کہ انہوں نے شیطان کی اطاعت کی اور وہ ان پر غالب آگیا سو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ سو وہ اب ہدایت کو نہیں دیکھیں گے۔ نہ اس کو سنیں گے اور نہ اس کو سمجھیں گے اور نہ سوچیں گے۔ (7) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ مہر ہے ان کے دلوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ (8) امام ابن جریج نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم “ سے مراد ہے کہ وہ لوگ اب نہ سمجھیں گے اور نہ سنیں گے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے سو وہ اب نہیں دیکھیں گے۔ (9) امام الطستی نے اپنے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نافع بن ازرق نے پوچھا کہ مجھے بتائیے کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ختم اللہ علی قلوبھم “ سے کیا مراد ہے۔ انہوں نے فرمایا اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی پھر عرض کیا، کیا اس کو عرب والے جانتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کیا تو نے اعشی کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا : اصھباء طاف یھود بھا فابرزھا وعلیہا ختم ترجمہ : یہود صہبا کے اردگرد گھومے پھر نکالا اس کو تو اس پر مہر تھی۔ (10) امام سعید بن منصور نے حسن اور ابو رجاء سے روایت کیا ہے کہ ایک نے پڑھا ” غشاوۃ “ اور دوسرے نے غشوۃ پڑھا۔
Top