Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 11
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ : مگر اللہ کے اذن سے وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ : اور جو کوئی ایمان لاتا ہے بِاللّٰهِ : اللہ پر يَهْدِ قَلْبَهٗ : وہ رہنمائی کرتا ہے اس کے دل کی وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کو عَلِيْمٌ : جاننے والا ہے
نہیں پہنچتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے حکم سے ، اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اللہ اس کے دل کی راہنمائی کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے
مصیبت باذن اللہ : گزشتہ آیات میں دین کے تین بنیادی اصول یعنی توحید ، رسالت اور معاد کا ذکر ہوا ہے آج کی آیات میں یہ باتیں بیان ہورہی ہیں۔ اللہ کی وحدانیت کی بات سمجھائی گئی ہے اور انسان کو مضر اور خطرناک چیزوں سے آگاہ کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ما اصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ کوئی مصیبت یا تکلیف نہیں پہنچتی مگر اللہ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے۔ لوگ آنے والی مصیبت کو دور کرنے کے لئے بہت سی غلط کاروائیاں کرتے ہیں۔ جن سے اللہ نے خبردار کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تکلیف آتی بھی اللہ کی طرف سے ہے اور اسے دور کرنے پر بھی وہی قادر ہے۔ اس کی مشیت اور ارادے کے بغیر نہ تکلیف آتی ہے اور نہ دور ہوتی ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر مکمل یقین نہیں رکھتے وہ مصیبت کے وقت طرح طرح کے شرکیہ کام کرنے لگتے ہیں۔ اسی لئے اللہ نے ایمان کی قدروقیمت سے آگاہ کیا ہے۔ ایک ایماندار آدمی کی شان یہی ہے کہ وہ تکلیف کی آمد اور روانگی کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع سمجھتا ہے۔ لہٰذا نہ وہ اس پر جزع فزع کرتا ہے اور نہ غیر اللہ کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے۔ نہ جادو کرتا ہے نہ کسی رمل فال والے کے پاس جاتے ہے اور نہ ہی کوئی شرکیہ عمل کرتا ہے۔ فرمایا ومن یومن باللہ یھد قلبہ جو اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان رکھنے والا آدمی ہے اللہ اس کے دل کی راہنمائی فرماتا ہے۔ خدا کی وحدانیت پر پورا پورا یقین انسان کے دل کو اللہ تعالیٰ کی تسلیم ورضا کی طرف لے جاتا ہے ، اور وہ ہر چیز کو اللہ کے ارادے اور مشیت کی طرف منسوب کرنے لگتا ہے۔ وہ ہمیشہ اسی کی طرف رجوع رکھتا ہے اور جب کوئی مصیبت آئے تو کہتا ہے انا للہ وانا الیہ راجعون (البقرہ 156) ایسا شخص صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اور اگر کوئی نعمت مل جائے یا راحت نصیب ہوجائے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے ، نیز ایسا شخص ہمیشہ سنت کا اتباع کرتا ہے اور بدعات سے بچتا ہے ۔ یہ اللہ کی طرف سے اس کے دل کی راہنمائی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ ہر حالت میں اللہ کے حکم اور نبی کی سنت کے مطابق کام کرتا ہے۔ اس لفظ کو یھد کی بجائے یھد قلبہ بھی پڑھا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ایمان لاتا ہے اس کا دل سکون اور اطمینان پکڑتا ہے۔ اور جو کوئی خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور دیگر اجزائے ایمان پر یقین نہیں رکھتا اس کا دل ہمیشہ خلفشار میں مبتلا رہتا ہے۔ اس کے دل میں طرح طرح کے غلط وسوسے آتے ہیں اور وہ بےیقینی کی حالت میں مبتلا رہتا ہے۔ فرمایا واللہ بکل شیء علیم اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ تکلیف یا مصیبت بھیج کر وہ جاننا چاہتا ہے کہ کون ثابت قدم رہتا ہے ، تسلیم ورضا کی راہ پر چلتا ہے اور کون صبر کا دامن چھوڑ بیٹھتا ہے۔ دلوں کے احوال اللہ کے سامنے ہیں۔ لہٰذا انسانوں کا قرض ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور تکیف و راحت میں اللہ کی رضا کے متلاشی رہیں۔ دینی اور دنیاوی مصیبت : حضور ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے کہ مصیبت دو قسم کی ہوتی ہے ۔ یعنی دینی اور دنیاوی۔ دنیاوی مصیبت آسان ہوتی ہے اور زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے البتہ دینی مصیبت بہت مشکل چیز ہے ، جو شخص دینی مصیبت میں پڑگیا۔ وہ ہمیشہ کے لئے خسارے میں پڑگیا کیونکہ دینی مصیبت مرنے کے بعد بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی اسی لئے حضور ﷺ نے یہ دعا سکھائی اللھم لا تجعل الدنیا اکبرھمنا ولا مبلغ علمنا ولا تجعل مصیبتنا ودیننا ، اے اللہ صرف دنیا کو ہی ہمارا منتہائے مقصود نہ بنا اور نہ ہی ہمارا مبلغ علم صرف دنیا ہی ہو۔ اور ہماری مصیبت دین کے معاملہ میں نہ بنا۔ ایسا نہ ہوں کہ انسان دنیا سے جاتے وقت ایمان اور توحید کی بجائے کفر اور شرک لے کر جائے ، پاکیزگی کی بجائے نجاست اس کے حصے میں آئے ، یہی دین کا فتنہ ہے جو انسان کو ہمیشہ کے لئے نقصان میں ڈال دیتا ہے۔ اللہ اور رسول کی اطاعت : اس کے بعد فرمایا واطیعو اللہ واطیعو الرسول اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسول کی۔ فان تولیتم پھر اگر تم اطاعت سے روگردانی کرو گے فانما علی رسولنا البلغ المبین ، پس ہمارے رسول کے ذمے تو کھول کر بیان کردینا ہے۔ اس کی ذمہ داری اتنی ہی ہے کہ وہ خدا کا پیغام پہنچا دیتا ہے ، اس پر عمل کرکے دکھا دیتا ہے ، پھر اگر کوئی نہیں مانتا تو یہ رسول کی ذمہ داری نہیں ہے۔ انسان خود اس کا ذمہ دار ہوگا۔ فرمایا اللہ لا الہ الا ھو ، معبود برحق صرف اللہ کی ذات ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وعلی اللہ فلتوکل المومنون ، اور ایمان والے صرف اللہ کی ذات پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں۔ دنیا کی ہر چیز عارضی اور فانی ہے لہٰذا ان میں سے کسی چیز پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ قابل اعتماد صرف اللہ کی ذات ہے جو دائم قائم ، ازلی اور ابدی ہے۔ وہی خالق اور مالک ہے ، وہ قادر مطلق اور علم کل ہے ، لہٰذا بھروسہ بھی صرف اسی پر کیا جاسکتا ہے۔ بیوی بچوں کی دشمنی : بیان کردہ مصیبت کے ضمن میں اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے یایھا الذین امنوا ان من ازواجکم واولادکم عدوا لکم ، اے ایمان والو ! بیشک تمہاری بعض بیویاں اور تمہاری بعض اولادیں تمہاری دشمن ہیں۔ یہاں پر من تبعیضیہ ہے یعنی ساری عورتیں اور ساری اولادیں دشمن نہیں ، بلکہ ان میں سے بعض ایسی ہیں۔ تجربہ سے ثابت ہے کہ بعض بیویاں بھی نہایت نیک اور صالحہ ہوتی ہیں اور دین کے معاملے میں پختہ کار بھی ۔ وہ نیکی کے کاموں میں خاوندوں کی معاونت کرتی ہیں۔ یہ چیز میاں بیوی دونوں کے لئے سعادت مندی کی علامت ہے۔ اسی طرح بعض اولاد بھی نیک ہوتی ہے جو والدین کے لئے دعائیں کرتی ہے اور ان کے لئے بخشش کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس کے برخلاف اگر کوئی آدمی خود تو نیک ہے مگر اس کی بیوی اچھی نہیں ہے تو بقول شیخ سعدی (رح) وہ شخص دنیا میں رہتے ہوئے بھی دوزخ میں ہی پڑا ہوا ہے۔ فرمایا بسا اوقات انسان بیوی بچوں کی محبت میں مبتلا ہو کر آخرت کو فراموش کردیتا ہے جو کہ اس کے حق میں اچھا نہیں ہوتا ۔ یہ تو آخرت سے محرومی اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل نہ کرنے کے مترادف ہے ، اور یہی انسان کی بدبختی کی علامت ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ خبردار ہو کہ تمہاری بعض بیویاں اور بعض اولادیں تمہاری دشمن ہیں۔ ان کی محبت میں مبتلا ہو کر خدا کی عبادت اور اس کے ذکر کو نہ چھوڑ بیٹھنا ، بلکہ فرائض کو ادا کرتے رہنا ، غلط رسومات سے بچتے رہنا ، اگر تم نے ان چیزوں کی پرواہنہ کی تو پھر تمہاری بیویاں اور اولادیں واقعی تمہاری دشمن ثابت ہوں گی۔ فاحذروھم لہٰذا ان سے بچتے رہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بالکل ہی غافل ہوجائو۔ بزرگان دین کا قول ہے ” العیال سوس الطاعات “ انسان کے بال بچے اس کے حق میں گھن ہوتے ہیں۔ جس طرح گھن لکڑی یا اناج کو کھا جاتا ہے ، اسی طرح بیوی بچے بھی انسان کی نیکیوں کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں۔ فرمایا ان سے بچتے رہنا اور نیکی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا ورنہ ہمیشہ کے لئے خسارے میں پڑ جائو گے۔ طبرانی شریف میں حضرت ابو مالک اشعری (رح) روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے بیوی بچوں کی بات اس طرح سمجھائی ہے کہ لیس عدوک الذی ان قتلتہ کان فوزا لک وان قتلتک دخلت الجنۃ ولکن الذی لعلہ عدوک والدک الذی خرج میں صلبک ، کہ تمہارا دشمن وہ شخص نہیں کہ اگر تو اسے میدان جنگ میں قتل کردے تو تجھے کامیابی نصیب ہوجائے ، یا اگر وہ تجھے قتل کردے تو تو شہادت کا درجہ پاکر جنت میں چلا جائے ، بلکہ تمہارا دشمن تو تمہارا بیٹا ہے جو تمہارے پشت سے برآمد ہوا ہے۔ نیز فرمایا شاید کہ تمہارا بڑا دشمن وہ کال ہو جو تمہارے قبضے میں ہے۔ مال کی وجہ سے بھی لوگ غرور میں مبتلا ہو کر سرکش ہوجاتے ہیں اور محرمات اور غلط رسوم کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔ بہرحال مطلب یہی ہے کہ خبردار رہو ۔ بیوی ، اولاد اور مال کی محبت میں مبتلا ہو کر دین ، ایمان اور آخرت کو بالکل فراموش ہی نہ کردینا۔ ایک صحابی ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ جہاد پر جانے کے لئے تیار ہوتے تو اس کی بیوی بچے فرط محبت میں ان سے لپٹ جاتے اور کہتے کہ ہمیں کس کے بھروسے پر چھوڑ کر جا رہے ہو۔ اس طرح صحابی ؓ کے دل میں بعض اوقات کمزوری پیدا ہوجاتی لہٰذا وہ بیوی بچوں پر سختی کرتے تاکہ وہ اس کے راستے میں رکاوٹ نہ بنیں۔ اللہ نے اس سختی بھی منع فرمایا ہے۔ فرمایا بیوی بچوں کی دشمنی سے بچنے کا حکم ہے ، ان پر سختی کرنا روا نہیں۔ اگر وہ محبت میں آکر کوئی ایسی حرکت کردیں تو اسے برداشت کریں۔ وان تعفوا اور اگر تم ان کی غلطی کو معاف کردو گے وتصفحوا اور درگزر کرو گے وتغفروا اور بخش دو گے۔ فان اللہ غفور رحیم ، تو اللہ تعالیٰ بہت بخشش کرنے والا اور مہربان ہے۔ بچوں کے حق میں نرمی کا سلوک کرو اور ان سے نفرت نہ کرو۔ البتہ ان کے شر سے بچنے کی کوشش کرتے رہو۔ مال اور اولاد فتنہ ہے : فرمایا انما اموالکم واولادکم فتنۃ بیشک تمہارے مال اور تمہاری اولادیں آزمائش کا ذریعہ ہیں۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے۔ کہ ہر امت کا کوئی نہ کوئی فتنہ ہوتا ہے ، اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ اس مال کی وجہ سے ہی لوگ بےایمان ہوجاتے ہیں ، دھوکہ دیتے ہیں ، خیانت کرتے ہیں اور دیگر ناجائز ذرائع اختیار کرتے ہیں۔ تاکہ عیش و عشرت کرسکیں۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس آزمائش پر پورا اترنے کی کوشش کرو۔ نہ ناجائز طریقے سے مال کمائو اور نہ غلط مقام پر خرچ کرو ، بلکہ اللہ نے مال دیا تو اس کا حق ادا کرو ، زکوٰۃ ادا کرو۔ حج وعمرہ خرچ کرو جہاد کے لئے مال صرف کرو ، محتاجوں ، ناداروں ، مسافروں ، یتیموں اور بیوائوں پر خرچ کرو۔ اور پھر جو کچھ بچ جائے وہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم سے کہا تھا کہ ماپ تول میں کمی نہ کرو ، لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو بلکہ ان کا حق پورا پورا دا کرو۔ پھر بقیت اللہ خیر لکم ان کنتم مومنین (ہود 86) جو کچھ بچ رہے وہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ جس مال میں لوگوں کا حق شامل ہو وہ ہرگز تمہارے لئے بہتر نہیں ، اس سے بچوں کہ یہ تمہارے حق میں فتنہ کا باعث ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ اللہ نے مال اور اولاد کو فتنہ قرار دیا ہے ، لہٰذا ہر فتنے سے تو پناہ نہیں مانگی جاسکتی۔ اس لئے فرمایا یوں دعا کیا کرو۔ اللھم انی اعوذبک من مضلات الفتن ، اے اللہ ! میں گمراہی میں ڈال دینے والے فتنوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اس میں تمام فتنے آجائیں گے خواہ وہ بیوی بچے ہوں یا مال و دولت ہو۔ جن کی وجہ سے انسان گمراہی میں پڑجائے۔ ایک موقع پر حضور ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے کہ چھوٹے بچے حسن ؓ اور حسین ؓ سرخ لباس پہنے گرتے پڑتے حضور ﷺ کی طرف آرہے تھے۔ آپ منبر سے نیچے اترے اور حسنین ؓ کو اٹھا کر پیار کیا۔ اور ساتھ کہا کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے۔ انما اموالکم واولادکم فتنۃ ان بچوں کو گرتے پڑتے دیکھ کر مجھ سے برداشت نہ ہوسکا اور میں نے انہیں اٹھا لیا۔ مال اور اولاد اسی صورت میں فتنہ ہیں۔ جب کہ انسان ان کی محبت میں منہمک ہو کر دین کو ہی چھوڑ بیٹھے۔ بعض اوقات انسان بیوی بچوں کی خاطر غلط رسوم ادا کرنے اور مال خرچ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر بینڈ باجے ڈھولک ، چراغاں ، جھنڈیاں اور دیگر شرکیہ اور بدعتیہ رسوم کی وجہ سے انسان دین سے محروم ہوجاتا ہے ، اسی لئے مال اور اولاد کو فتنہ کا باعث قرار دیا گیا ہے ۔ البتہ حضور ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ مال واولاد کے فتنہ کی وجہ سے جو کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیں ، وہ نماز پڑھنے ، صدقہ خیرات کرنے اور توبہ کرنے سے معاف ہوجاتی ہیں ، وہ نماز پڑھنے ، صدقہ خیرات کرنے اور توبہ کرنے سے معاف ہوجاتی ہیں۔ بعض فتنے ہمہ گیر ہوتے ہیں۔ جن کی لپیٹ میں پوری برادری ، پوری قوم اور پورا ملک آجاتا ہے۔ یہ بڑے فتنے ہوتے ہیں۔ اللہ نے ان سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ فرمایا ، یادرکھو ! مال اور اولاد تمہارے حق میں فتنہ ہیں واللہ عندہ اجر عظیم اور اللہ کے پاس اجر عظیم ہے۔ خدا کی ذات وصفات پر صحیح ایمان رکھو فانی چیزوں کو اپنا مقصود حیات نہ بنائو ۔ اور ان کے ساتھ چلتے ہوئے محتاط رہو۔ مال کی محبت انسانی فطرت میں داخل ہے جیسے اللہ کا فرمان ہے وانہ لحب الخیر لشدید (العدیت 8) بیشک مال کی محبت میں انسان بہت پختہ ہے۔ اس کی محبت کی وجہ سے آخرت کو فراموش نہ کرو او اللہ کی اطاعت اور اس کی عبادت کرتے رہو۔
Top