Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 7
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
ان کے دلوں اور کانوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے سو وہ کبھی ہدایت نہیں پا سکتے ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے
قرآن کریم کا فیصلہ : 14: لیکن قرآن کریم نے ان سب سے الگ اپنی راہ نکالی ہے وہ کہتا ہے کہ انسان خالص و کامل نیکی ہے۔ اس میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ اس میں برائی کمانے کی استعداد بھی پائی جاتی ہے۔ یعنی جس قدر بھی برائی ہے وہ اس کا کسب خارجی ہے۔ نیکی اس کا فطری عمل اور بدی غیر فطری ، خارجی اور یکسر صناعی ہے۔ اگر وہ نیک ہے تو یہ فطرت ہے اگر بد ہے تو یہ تصنع ہے۔ قرآن کریم اسی کو فطرتِ صالحہ ، دین الٰہی ، دین قیم ، دین حنیفی ، صراط مستقیم ، فطرت اللہ ، صبغۃ اللہ اور اسلام کہتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ انسان کی اصل فطرت اسلام ہے اور کفر ایک صناعی اور غیر فطری عمل ، اگر ایک انسان مسلم ہے تو اس کو یوں کہو کہ وہ اپنی اصلی فطرت صالحہ پر قائم ہے اس کی فطری روشنی نور دے رہی ہے لیکن اگر ایک انسان مسلم نہیں تو اس کے یہ معنی ہیں کہ فطرت حقیقی کا چراغ بجھ گیا ہے ، اس کے اندر کا آئینہ زنگ آلود ہوگیا ہے ، گردوغبار کی کثافت نے اس کو سیاہ کردیا ہے اور وہ فطرت کی صورت حقیقی کی جگہ ایک مسخ شدہ غیر فطری و مصنوعی جانور بن گیا ہے۔ معصیت سے یہ فطری آئینہ زنگ آلود ہوتا ہے اور کفر ، زنگ آلودگی کی وہ آخری حالت ہے جبکہ آئینہ بالکل سیاہ ہوگیا اور ایک دھندلی سی چمک بھی اسی میں باقی نہ رہی۔ خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ 1ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌٞ (البقرہ 2 : 7) سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ 006 (البقرہ 2 : 6) اُولٰٓىِٕكَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ 1ؕ (الاعراف 7 : 179) لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَاٞ (الاعراف 7 : 179) وَّ جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ (الاسراء 17 : 46) یہی معنی ہیں مسلم شریف کی اس حدیث کے کہ : ( مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاہُ یُهَوِّدَانِهِ وَیُنَصِّرَانِهِ وَیُمَجِّسَانِهِ ) (مسلم : 2254) بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اپنی اصلی اور بےمیل فطرات ہی پر پیدا ہوتا ہے۔ اب باہر کی ہوائیں اس کے اندر کی روشنی کو تہ وبالا کرنے لگتی ہیں اگر یہودیت کے اثرات اس پر غالب آگئے تو یہودیت کا جھونکا اس کے چراغ فطرت کو گل کر دے گا۔ اگر نصرانیت یا مجوسیت کا طوفان اٹھا تو اس میں اس کی کشش فطرت ڈگمگانے لگے گی۔ جب اللہ نے ذریت انسان سے پوچھا : ” اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ “ کیا میں ہی تمہارا رب نہیں ہوں ؟ تو اس نے فطری طور پر تصدیق کی اور ” بَلٰى “ کہا اب اگر تصدیق کی جگہ انکار کرتا ہے تو یہ اس کی فطرت کی صدا نہیں بلکہ ایک غیر فطری صناعی ہے۔ اسی فطرت کا نام قلب سلیم ہے ” اِذْ جَآءَ رَبَّهٗ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ 0084 “ جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے حضور میں فطرت صالحہ غیر آلود کے ساتھ حاضر ہوئے اس کی فطرت کو باہر کا کوئی بڑے سے بڑا جلوہ بھی مرعوب وہیبت زدہ نہ کرسکا۔ لیکن یہاں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان سے عام قاری کو اشتباہ ہوتا ہے کہ جب اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگادی تو ان کا قصور کیا رہا۔ حالانکہ یہ ایک پیرایہ بیان ہے تاکہ قاری ان تعلیمات کو سرسری نظر سے پڑھ کر چلتا نہ بنے بلکہ غور و فکر سے بھی کام لے تاکہ وہ کلام الٰہی کی خوبیوں سے واقف ہو سکے۔ یہاں جو حقیقت بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ دین الٰہی کی اشاعت کے لئے آپ ﷺ کے اندر اتنی تڑپ تھی۔ دل چاہتا تھا کہ یہ کافر سب کے سب دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں تاکہ یہ جانوروں کی صف سے نکل کر انسانوں کی صف میں شمار ہوں لیکن یہاں یہ حقیقت آپ ﷺ کو بتائی گئی ہے کہ آپ کچھ بھی کر ڈالئے ان کے حق میں سب یکساں ہیں۔ یہ بدبخت اپنی صلاحیت حق شناسی کو ضائع کرچکے ہیں لیکن آپ ﷺ کا اجر تبلیغ بہر حال ثابت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف ایک خبر ہے جو خبیر مطلق اپنے بندہ کو دے رہا ہے ایک اطلاع ہے جو علیم کل اپنے رسول کو پہنچا رہا ہے۔ مرضی الٰہی سے ایک شائبہ تعلق بھی نہیں۔ ” علم “ اور ” مرضی “ کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ عوام کے ذہن ان دو بالکل مختلف قانونوں کے درمیان خلط مبحث کر کے اپنے آپ کو عجیب الجھنوں میں ڈال لیتے ہیں۔ حالانکہ ذرا غورو فکر سے کام لیں تو کوئی الجھن باقی نہیں رہتی۔ غور کرو کہ طبیب حاذق اپنے علم کی رو سے مدتوں پیشتر خبر دے دیتا ہے کہ فلاں بدپرہیز ، خود رائے مریض اچھا نہ ہوگا کیا اس پیشگوئی اور اس خبر میں شفیق طبیب کی خواہش ومرضی کو بھی کچھ دخل ہوتا ہے ؟ اس کافر کا ناقابل ایمان ہونا اللہ کے اس خبر دینے کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کا یہ خبر دینا اس کافر کے ناقابل ایمان ہونے کی وجہ سے واقع ہوا ہے اور ناقابل ایمان ہونے کی صفت خود اس کی شرارت وعناد اور مخالفت حق کے سبب سے پیدا ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص میں اس کی پیدائش کے اندر استعداد قبول حق رکھی ہے مگر یہ شخص خود اپنی ہوائے نفس اور خود غرضی کی وجہ سے حق کی مخالفت کرتا ہے یہاں تک کہ ایک روز وہ استعداد فنا ہوجاتی ہے۔ چونکہ حق قبول کرنے یا نہ کرنے کے قانون کا خالق حقیقی اللہ ہی ہے اسی لئے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ہاں ! یہاں ایک بات اور بھی یاد رکھنے کے قابل ہے وہ یہ کہ قلب یعنی دل سے مراد سینہ کے ندر جو ایک مضغہ گوشت ہے جو عام بول چال اور اصطلاح میں دل کہلاتا ہے وہ مراد نہیں بلکہ وہ دل مراد ہے جو محاورۃ زبان میں احساس ، عقل ، ارادہ سب کا مرکز ہے انسانی زبان میں دل اسی کو کہا جاتا ہے اور افعال ارادی کا صدور اسی سے ہوتا ہے اللہ کی طرف سے مہر لگ جانے کا یہ فعل اس کے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتا ہے نہ کہ اس کا سبب۔ اس نے اپنے لئے جو کچھ اختیار کیا وہی اللہ تعالیٰ اسے بحیثیت علت العلل و مسبّب الاسباب اپنے قانون تکوینی نہ کہ قانون رضا کے تحت دینے لگتا ہے۔ وحی الٰہی کا نزول کیوں ؟ 15: شرائع الٰہیہ کا نزول اس لئے ہوتا ہے کہ انسان نے صناعی اور خارجی ضلالت کا جو زنگ فطرۃ صالحہ پر چڑھا لیا ہے اسے دور کردے اور اس کی اصل روشنی پھر چمک اٹھے اس لئے ہدایت الٰہی کو قرآن کریم نے ” ذکر “ اور کفر و ضلالت کو ” نسیان “ کہا ہے۔ نسیان کی انتہا غفلت ہے۔ اس کو قرآن نے منتہائے ضلالت قرار دیا ہے لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَاٞ کی یہی تفسیر خود اللہ تعالیٰ نے فرمادی جہاں ارشاد فرمایا : كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ 1ؕ (الحشر 59 : 19) یعنی اپنی فطرت صالحہ کو بھول گئے کیونکہ فطرت صالحہ تو وہی تھی جس نے ” بَلٰى “ کہا تھا۔ یعنی اللہ کی ربوبیت اور اس کے رشتہ کا اقرار کیا تھا اب اگر وہ اس ہستی کے رشتہ کو بھلا رہے ہیں جس کے سامنے اصلی فطرۃ ” بَلٰى“ کہہ چکی ہے ، تو اس رشتہ کو نہیں بھلا رہے بلکہ اپنی فطرت اصلی کو بھلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قانون کی وضاحت قرآن کریم کے صفحات میں ان گنت مقامات پر کی ہے یہاں دو تین جگہوں کی نشاندہی کردی جاتی ہے تاکہ قارئین جہاں کہیں ایسی آیات کریمات آئیں ان کا مفہوم وہی سمجھیں جو یہاں بیان کیا گیا ہے اور ہر بار تشریح کی ضرورت نہ رہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے : اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِیَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ 008 وَ جَعَلْنَا مِنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰهُمْ۠ فَهُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ 009 وَ سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ۠ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ 0010 اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ 1ۚ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَّ اَجْرٍ کَرِیْمٍ 0011 (یاسین 36 : 8 ، 11) ” ہم نے گمراہی اور شیطان کی غلامی کے طوق ان کی گردنوں میں ڈال دیئے جو ان کی ٹھوڑیوں تک آگئے ہیں اور ان کے سر پھنس کر رہ گئے ہیں ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی ہے اور ایک ان کے پیچھے اس طرح ان کو ڈھانک دیا ہے لہٰذا وہ کچھ نہیں دیکھتے۔ اور ان کے لیے یکساں ہے آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ آپ تو صرف ایسے شخص کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرے اور بن دیکھے خدائے رحمٰن سے ڈرے۔ سو ایسے شخص کو مغفرت اور باعزت اجر کی خوشخبری سنادیجئے۔ “ اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ 1ؕ وَ مَنْ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا یَتَزَكّٰى لِنَفْسِهٖ 1ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ 0018 (فاطر 35 : 18) ” اے پیغمبر اسلام ! آپ صرف انہی لوگوں کو متنبہ کرسکتے ہیں جو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو شخص بھی پاکیزگی اختیار کرتا ہے وہ اپنی ہی بھلائی کے لئے کرتا ہے اور اللہ ہی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ “ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ ہٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَ۠ۙ0048 الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ وَ ہُمْ مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُوْنَ 0049 وَ ہٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ اَنْزَلْنٰهُ 1ؕ اَفَاَنْتُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ (رح) 0050 (الانبیاء 21 : 48 ، 50) ” اور دیکھو یہ واقعہ ہے کہ ہم نے موسیٰ و ہارون کو فرقان اور وحی الٰہی کی روشنی اور متقیوں کے لئے نصیحت دی تھی۔ ان متقیوں کے لئے جو اپنے پروردگار کی ہستی سے بغیر دیکھے ہوئے ڈرتے ہیں اور آنے والی گھڑی کے تصور سے بھی لرزاں رہتے ہیں اور یہ قرآن کریم بھی نصیحت ہے برکت والی۔ ہم نے اسے نازل کیا پھر کیا تمہیں اس سے انکار ہے ؟ “ جن لوگوں کی فطرت صالح مسخ ہوگئی ہے : 16: پس جن لوگوں نے اپنی فطرت صالحہ کو مسخ کرلیا ہے اور اس کی روشنی کو آندھی اور طوفان سے محفوظ نہ رکھا اس پر ظلمت اور تاریکی چھا گئی اور انسانیت سے نکل کر حیوانوں کے دائرہ میں داخل ہوگئے۔ اب ان کے لئے نبی و رسول کا انداز و عدم انداز برابر ہے ، علم و معرفت حاصل کرنے کے تین ہی ذرائع تھے دل ، آنکھ اور کان۔ مگر کفر کی زنگ آلودگی نے ان کے آئینہ کو بالکل سیاہ کردیا اور ایک دھندلی سی چمک بھی ان میں باقی نہ رہی۔ اب ان کو جس قدر بھی عذاب دیاجائے گا کم ہے کہ انہوں نے اپنی تصدیق کو بھلا دیا جو ان کے اندر ودیعت کی گئی تھی۔ اس مضمون کو اللہ نے تصریف آیات کے ذریعے بہت اچھی طرح سمجھا یا لیکن فی زمانناً عوام تو عوام ہمارے علماء کرام بھی دل کی آنکھیں بند کرکے اور قفل لگا کر پڑھنے کے آدی ہوچکے ہیں۔ ارشاد الٰہی ہوتا ہے : وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْۤ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَاۤ اِلَیْهِ وَ فِیْۤ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّ مِنْۢ بَیْنِنَا وَ بَیْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ 005 (حم السجدۃ 41 : 5) ” اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں تک تمہاری دعوت کے پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ ہمارے دل اوجھل اور اوٹ میں ہیں اور تمہاری آواز حق سننے سے ہمارے کان بہرے ہیں اس لئے ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ حائل ہوچکا ہے تم اپنا عمل جاری رکھو اور ہم ابھی اپنے اعمال کرتے رہیں گے جیسا کہ ہم چاہتے ہیں۔ “ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ فَاَعْرَضَ عَنْهَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُ 1ؕ اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا 1ؕ وَ اِنْ تَدْعُهُمْ اِلَى الْهُدٰى فَلَنْ یَّهْتَدُوْۤا اِذًا اَبَدًا 0057 (الکہف 18 : 57) ” پھر بھلا اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا ؟ جسے اس کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی گئی ہو اور وہ اس سے اعراض کرے اور اپنے کئے کو بالکل بھول جائے کہ گویا اس نے کیا ہی نہیں ، جن لوگوں نے ایسی روش اختیار کر رکھی ہے ہم نے اپنے قانون کے مطابق ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں وہ قرآن کی بات سمجھنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے ، اور ان کے کانوں میں گویا ثقل و گرانی ہے وہ کبھی نصیحت کی بات نہیں سن سکتے۔ آپ انہیں کتنا ہی خیر خواہانہ انداز سے راہ راست کی دعوت دیں وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ “ قَالُوْا سَوَآءٌ عَلَیْنَاۤ اَوَ عَظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْنَۙ00136 اِنْ ہٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِیْنَۙ00137 وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَۚ00138 (الشعرا 26 : 136 ، 138) ” ہود (علیہ السلام) کی دعوت سن کر من چلے سردار بولے تمہارا ہمیں وعظ و نصیحت کرنا نہ کرنا یکساں ہے کیونکہ ایسی باتیں خبطی لوگ ہمیشہ کرتے ہی آئے ہیں ، تمدن اسی طرح ترقی کرتا رہا۔ اور دنیا کی گاڑی اسی طرح اپنی پٹڑی پر چلتی رہی کوئی آفت نہ آئی اور ہم پر بھی کوئی عذاب نہیں آئے گا یہ تمہارے سہانے خواب تمہیں کو مبارک ہوں۔ “
Top