Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 7
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
مہر لگا دی ہے اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کی شنوائی پر19 ۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے20 ۔ اور ان کے لئے بڑا (ہی) عذاب ہے21 ۔
19 قلب۔ دل سے مراد سینہ کے اندر کا وہ مضغہ گوشت نہیں جو طبعی اصطلاح میں دل کہلاتا ہے۔ بلکہ وہ دل مراد ہے جو محاورۂ زبان میں احساس، عقل، ارادہ سب کا مرکز ہے۔ انسانی بول چال میں دل اسی کو کہا جاتا ہے اور افعال ارادی کا صدور اسی سے ہوتا ہے۔ توریت، انجیل اور دوسرے صحیفے سب میں یہی محاورہ استعمال کیا گیا ہے۔ (آیت) ” ختم اللہ “۔ اللہ کی طرف سے مہر لگ جانے کا یہ فعل بندہ کے کفر اختیاری کے بعد ہوتا ہے نہ کہ اس کے قبل۔ اس کا نتیجہ ہوتا ہے نہ کہ اس کا سبب۔ فطرت سلیم ہر انسان کو عطا ہوئی ہے، اور اس میں دلائل حق پر غوروفکر کی استعداد بھی شامل ہے۔ لیکن انسان جب اپنے ارادہ وعقل کا غلط استعمال کرنے لگتا ہے، اور آسمانی ہدایتوں اور خداوندی نشانیوں سے مسلسل منہ موڑے ہوئے قانون شیطانی پر چلنے کی ٹھان لیتا ہے تو سلسلہ غضبی کے تحت میں آجاتا ہے۔ انبیاء (علیہ السلام) کے سلسلہ رحمت سے خارج ہوجاتا ہے۔ اور نصرت الہی اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ اب ہر روشنی اسے تاریک اور ہر تاریکی اسے روشن نظر آنے لگتی ہے۔ اس نے اپنے لیے جو کچھ اختیار کیا، وہی اللہ تعالیٰ اسے بحیثیت علت العلل ومسبب الاسباب اپنے قانون تکوینی (نہ کہ قانون رضا) کے ماتحت دینے لگتا ہے۔ اور یہی معنی ہیں انسان کے عقل و حواس پر مہرلگ جانے کے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ یہ مہر خداوندی کوئی مادی چیز نہیں۔ 20 (چنانچہ کھلے ہوئے دلائل حق اور روشن آیات الہی بھی انہیں نظر نہیں آتے) یہ سب ثمرہ ہے ان کافروں کے ارادی اعراض عن الحق اور دانستہ کج روی کا۔ حق تعالیٰ کی جانب ان افعال کی انتساب جو کچھ ہے وہ محض تکوینی حیثیت سے ہے، یعنی بطور علت العلل ومسبب الاسباب کے۔ ارادۂ حق جس طرح بندہ کے زہر کھا لینے پر موت کا ثمرہ طبعی مرتب کردیتا ہے، اسی طرح بندہ کی ارادی کج روی پر موت روحانی کا ثمرہ بھی مرتب کردیتا ہے۔ مرضی حق کا تعلق نہ اول الذکر سے ہے نہ آخر الذکر سے ! اس طرز بیان کی، اور فہم، سماعت و بصارت کی قوتوں سے سزا کے طور پر محرومی کی مثالیں قدیم صحیفوں میں بھی کثرت سے ملتی ہیں :۔ ” خدا نے تم کو وہ دل جو سمجھے اور وہ آنکھیں جو دیکھیں اور وہ آنکھیں جو دیکھیں اور وہ کان جو سنیں آج تک نہیں دیئے “ (استثناء 29:4) ” تم سنا کرو پر سمجھو نہیں۔ تم دیکھا کرو پر پوچھو نہیں، تو ان لوگوں کے دلوں کو چربادے اور ان کے کانوں کو بھاری کر “ (اسعیاہ 6:9249 10) ” وہ نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے کہ آنکھیں لیپی گئیں سو وہ دیکھتے نہیں اور ان کے دل بھی سو وہ سمجھتے نہیں “ (اسعیاہ 24: 18) ” تمہاری آنکھیں جو کہ بنی ہیں موندی ہیں اور تمہاری سروں پر جو کہ غیب میں ہیں حجاب ڈالا ہے “ (اسعیاہ 29: 10) ” میں نے انہیں ان کے دلوں کی سرکشی کے بس میں چھوڑ دیا “ (زبور 1: 1 1249 12) انجیل میں اس قسم کی مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو رومیون 1 1:72498 اور 2 تھسلنیکیوں 2: 1 1 ۔ 21 (آخرت میں) اسلام مسلسل حیات کا قائل ہے۔ یہ ناسوتی، مادی زندگی صرف ایک حصہ ہے کل زندگی کا۔ باقی اس کا پورا ظہور وبروز حیات اخروی ہی میں ہوگا۔ اخروی زندگی لازمی تتمہ ونتیجہ ہے اس دنیوی زندگی کا۔ اور یہاں کی مسلسل قانون شکنی ونافرمانی وہاں عذاب الیم کی شکل میں ظاہر ہوگی۔ گویا جو تخم آج ڈالے گئے ہیں، کل وہی تناور درختوں کی صورت میں نمودار ہوں گے۔ عذاب کے شدید وعظیم ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ اور قرآن مجید میں اسے مختلف پیرایوں میں سمجھایا اور بتایا گیا ہے۔ پھر بھی اس کی تفصیلی کیفیت اور نوعیت ادراک بشری سے بالاتر اور مافوق ہے۔ اور بعض نے (آیت) ” کے کلمہ نکرہ ہونے سے بھی یہی استنباط کیا ہے کہ وہ کسی خاص وغیرمتعارف ہی نوعیت کا ہوگا۔ من الالام العظام نوع عظیم لا یعلم کنھہ الا اللہ (مدارک۔ بیضاوی) والتنکیرفیہ للنوعیۃ اے لھم فی الاخرۃ نوع من العذاب غیرمتعارف فی عذاب الدنیا (روح)
Top