Al-Qurtubi - Al-Maaida : 34
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے، اور انکے لئے بڑا عذاب (تیار) ہے
آیت نمبر 7 اس آیت میں دس مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: ختم اللہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان نہ لانے کو ختم اللہ کے ارشاد سے بیان فرمایا ہے۔ الختم ختمت الشیء ختماً فھو مختوم ومختم (مبالغہ کے لئے شد پڑھی گئ ہے) کا مصدر ہے۔ اس کا معنی کسی شے کو ڈھانپ دینا اور اسے باندھ دینا ہے حتیٰ کہ اس میں کوئی چیز داخل نہ ہو۔ اس سے ختم الکتاب والباب اور اس کے مشابہ چیزیں ہیں حتی کہ اس کے اندر کوئی چیز نہیں پہنچ سکتی اور جو کچھ اس میں ہے اس کے علاوہ کچھ رکھا نہیں جاسکتا۔ اہل معانی نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں کو دس اوصاف کے ساتھ موصوف فرمایا ہے۔ الختم، الطبع، الضیق، المرض، الرین، الموت، القساوۃ، الانصراف، الحمیۃ، الانکار، انکار کا ذکر اس آیت میں فرمایا : قلوبھم منکرۃ وھم مستکبرون۔ (النحل) الحمیۃ کے ذکر میں فرمایا : اذ جعل الذین کفروا فی قلوبھم الحمیۃ (الفتح : 62) قساوت کے ذکر میں فرمایا : فویل للقسیۃ قلوبھم من ذکر اللہ (الزمر :22) الانصراف کے ذکر میں فرمایا : ثم انصرفوا صرف اللہ قلوبھم بانھم قوم لا یفقھون۔ (توبہ) موت کے بارے میں فرمایا : ومن کان میتاً فاحیینہ (الانعام : 122) اور فرمایا : انما یستجیب الذین یسمعون والموتی یبعثھم اللہ (الانعام :36) رین کے بارے فرمایا کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون۔ (المظففین) اور مرض کے بارے فرمایا : فی قلوبھم مرض (البقرہ :10) الضیق کے بارے فرمایا : ومن یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقا حرجا (الانعام : 125) الطبع کے بارے فرمایا : وطبع علی قلوبھم فھم لا یفقھون۔ (توبہ) اور فرمایا : بل طبع اللہ علیھا بکفرھم (النساء :155) اور الختم کے بارے میں فرمایا : ختم اللہ علی قلوبھم (البقرہ :7) ان تمام کا بیان انشاء اللہ اپنی اپنی جگہ پر آئے گا۔ مسئلہ نمبر 2: کبھی ختم (مہر لگا دینا) حسی ہوتا ہے اور کبھی معنوی ہوتا ہے جیسا کہ اس آیت میں معنوی ختم مراد ہے۔ دلوں پر مہر لگانے سے مراد اللہ تعالیٰ کے پیغام کو یاد نہ کرنا، اس کے مخاطبات کا مفہوم محفوظ نہ کرنا اور اس کی آیات میں غوروفکر نہ کرنا ہے اور کانوں پر مہر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو نہ سمجھنا جب ان پر تلاوت کیا جاتا ہے یا انہیں اللہ کی وحدانیت کی طرف بلایا جاتا ہے اور آنکھوں پر مہر لگانے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی مخلوقات اور اس کی مصنوعات کے عجائب میں غوروفکر کے لئے ہدایت حاصل نہ کرنا۔ یہ مفہوم حضرات ابن عباس، ابن مسعود، قتادہ وغیرہم نے بیان کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اس آیت میں بڑی واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہدایت وضلال، کفر و ایمان کا خالق ہے۔ اے سننے والو ! عبرت حاصل کرو، اے مفکرین ! قدریہ فرقہ کی عقول پر تعجب کرو جو کہتے ہیں کہ ایمان وہدایت کا وہ خود خالق ہے، ختم کا معنی مہر لگانا ہے تو پھر ان کے لئے ایمان کہاں ہوگا اگرچہ اگرچہ وہ (ہزار) کوشش بھی کریں ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے تو پھر وہ کب ہدایت پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے بعد انہیں کون ہدایت دے گا جب کہ اللہ نے انہیں گمراہ کردیا اور انہیں بہرہ کردیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا : ومن یضلل اللہ فما لہ من ھاد۔ (غافر : 33) ۔ (اور جسے گمراہ کر دے اللہ اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں) اللہ کا فعل ان لوگوں کے بارے عدل ہے جن کو اس نے گمراہ کیا اور رسوا کیا کیونکہ اس نے انہیں حق سے نہیں روکا جو اس کے لئے واجب تھا ورنہ اس سے صفت عدل زائل ہوجائے گی انہیں اس چیز نے روکا کہ جو اس نے ان پر فضل فرمایا تھا نہ کہ اس چیز نے جو ان کے لئے ثابت تھی۔ اگر وہ کہیں کہ ختم، طبع، غشاوہ سے مراد نام رکھنا، حکم لگانا اور خبر دیتا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے، نہ کہ یہ فعل کی خبر دی گئی ہے ہم کہیں گے : یہ قول فاسد ہے کیونکہ ختم اور طبع کی حقیقت وہ فعل ہے جس کی وجہ سے دل مطبوع ومختوم ہوجاتا ہے یہ جائز نہیں ہے کہ اس کی حقیقت نام رکھنا اور حکم لگانا ہے۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا جب کہا جاتا ہے : فلاں طبع الکتاب وختمہ۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس نے ایسا فعل کیا جس کی وجہ سے کتاب مطبوع اور مختوم ہوگئی ہے نہ کہ نام رکھنا اور حکم لگانا۔ یہ ایسا مفہوم ہے جس میں اہل لغت کا کوئی اختلاف نہیں ہے نیز امت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں پر مہر لگانے کی نسبت اپنی طرف مجازاً کی ہے، یہ ان کے کفر کی وجہ سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بل طبع اللہ علیھا بکفرھم (النساء :155) (اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر مہر لگا دی) اور امت کا اس پر بھی اجماع ہے کہ طبع اور ختم ان کے دلوں پر نبی کریم ﷺ ، ملائکہ اور مومنین کی طرف بھی ممتنع ہے اگر ختم اور طبع نام رکھنا اور حکم لگانا ہوتا تو انبیاء اور مومنین کی طرف ممنوع نہ ہوتا کیونکہ وہ تمام کفار کا نام رکھ سکتے تھے کہ ان پر مہر لگائی گئی ہے ان کے دلوں پر ختم لگائی گئی ہے وہ گمراہی میں ہیں ایمان نہیں لائیں گے وہ تمام ان کفار پر حکم لگا سکتے تھے۔ پس ثابت ہوا کہ ختم اور طبع معنوی ہے نام رکھنا اور حکم لگانا نہیں ہے بلکہ یہ معنی ہے جو اللہ تعالیٰ دل میں پیدا فرماتا ہے جو اسے ایمان سے روکتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ارشاد بھی ہے : کذلک نسلکہ فی قلوب المجرمین۔ لا یؤمنون بہ (الحجر) (اسی طرح ہم داخل کرتے ہیں گمراہی کو مجرموں کے دلوں میں وہ نہیں ایمان لائیں گے) اور فرمایا : وجعلنا علی قلوبھم اکنۃ ان یفقھوہ (الانعام : 25) (اور ہم نے ڈال دئیے ہیں ان کے دلوں پر پردے تاکہ نہ سمجھیں وہ اسے) ۔ مسئلہ نمبر 4: علیٰ قلوبھم اس میں دلیل ہے کہ دل کو تمام اعضاء پر فضیلت حامل ہے۔ دل انسان اور دوسری تمام چیزوں کا ہوتا ہے، ہر چیز میں سے جو خالص ہو اور جو چیز معزز ہو وہ اس کا دل ہے۔ دل، فکر کا مقام ہے اصل میں یہ مصدر ہے قلبت الشیء اقلبہ قلباً ۔ جب کوئی کسی چیز کو اس کے آغاز پر لوٹا دے، تو اس وقت یہ فعل استعمال کیا جاتا ہے قلبت الاناء۔ میں نے برتن کو الٹا کردیا پھر یہ لفظ نقل کیا گیا اور اس کے ساتھ اس عضو کا نام رکھا گیا جو معزز ترین عضو ہے کیونکہ خیالات جلدی سے اس کی طرف جاتے ہیں اور اس کی طرف لوٹتے ہیں۔ جیسا کہ کہا گیا ہے : ما سمی القلب الا من تقلبہ فاحذر علی القلب من قلب وتحویل قلب کو قلب اس کے پھر نے کی وجہ سے کہا جاتا ہے پس تو دل کی تبدیلی اور تحویل سے بچ۔ پھر جب عربوں نے اس مصدر کو اس شریف عضو کے لئے نقل کیا تو عظمت اس میں لازم ہوگئی۔ اس کے اور اس کی اصل کے درمیان فرق کرنے کے لئے یہ ہے۔ ابن ماجہ نے حضرت ابو موسیٰ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : “ دل کی مثال اس تنکا کی ہے ہوائیں جسے صحراء میں گھماتی رہتی ہیں ” (1) ۔ اسی معنی کے لئے آپ ﷺ دعا کرتے تھے : اللھم یا مثبت القلوب ثبت قلوبنا علی طاعتک (اے اللہ اے دلوں کو ثابت رکھنے والے ! ہمارے دلوں کو اپنی طاعت پر ثابت رکھ (2) ۔ ) جب نبی کریم ﷺ اتنے عظیم منصب اور جلالت شان کے باوجود یہ دعا کرتے تھے تو ہمیں آپ ﷺ کی اقتدا میں یہ دعا بدرجہ اولیٰ کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ واعلموا ان اللہ یحول بین المرء قلبہ (الانفال :24) (اور خوب جان لو کہ اللہ (کا حکم) حائل ہوجاتا ہے انسان اور اس کے دل (کے ارادوں) کے درمیان) ۔ مسئلہ نمبر 5: جوارح اگرچہ دل کے تابع ہیں لیکن کبھی دل، جوارح کے اعمال سے متاثر ہوتا ہے اس تعلق کی وجہ سے جو ظاہر اور باطن کے درمیان ہے، اگرچہ دل ان اعضاء کا رئیس اور مالک ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : “ ایک شخص سچ بولتا ہے تو اس کے دل میں ایک سفید نکتہ پیدا ہوجاتا ہے اور کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو اس کا دل سیاہ ہوجاتا ہے ”(1) ۔ ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے (اور اس کی سند صحیح ہے) ۔ “ ایک شخص گناہ کرتا ہے تو اس کا دل سیاہ ہوجاتا ہے پھر اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے ” (2) ۔ فرمایا : یہی وہ الرین ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس آیت کے اندر کیا ہے : کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون۔ المطففین) مجاہد نے کہا : دل ہتھیلی کی مانند ہے ہر گناہ کی وجہ سے ایک انگلی بند ہوجاتی ہے۔ پھر مکمل بند کردیا جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں : مجاہد کے اس قول میں اور نبی کریم ﷺ کے اس قول میں “ جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ صحیح ہو تو پورا جسم صحیح ہوتا ہے اور جب وہ فاسد ہو تو پورا جسم فاسد ہوتا ہے۔ خبردار وہ ٹکڑا دل ہے ”(3) ۔ دلیل ہے کہ ختم حقیقی ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ بعض علماء نے فرمایا : دل صنوبر کے مشابہ ہوتا ہے مجاہد کا قول اس کی تائید کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔ مسلم نے حضرت حذیفہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : ہمیں رسول اللہ ﷺ نے دو احادیث بیان فرمائیں۔ ایک تو میں دیکھ چکا ہوں جبکہ دوسری کا منتظر ہوں۔ آپ ﷺ نے ہمیں بیان فرمایا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی جڑوں میں نازل ہوئی پھر قرآن نازل ہوا، لوگوں نے قرآن سے اس کو جانا اور حدیث سے اس کو پہچانا۔ پھر ہمیں امانت کے اٹھ جانے کے متعلق بتایا۔ فرمایا : ایک شخص سوئے گا تو اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی اس کا اثر ایک جلن کی مثل باقی ہوگا پھر وہ سوئے گا تو اس دل سے امانت اٹھالی جائے گی۔ پس اس کا اثر ایک چھالے کی مثل ہوگا جیسے تیرے پاؤں پر انگارہ گر جائے تو وہ جگہ پھول جاتی ہے تو اسے پھولا ہوا دیکھتا ہے حالانکہ اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا، پھر آپ نے کنکری اٹھائی اور اسے اپنے پاؤں پر لڑھکایا۔ لوگ بیع وشراء کرتے رہیں گے کوئی ایک بھی امانت ادا کرنے والا نہ ہوگا حتیٰ کہ کہا جائے گا : فلاں قبیلہ میں ایک امین شخص ہے حتیٰ کہ اس شخص کے متعلق کہا جائے گا وہ کتنا پختہ آدمی ہے، کتنا ہوشیار اور کتنا عقلمند آدمی ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان نہ ہوگا، مجھ پر ایک ایسا زمانہ بھی گزرا کہ میں پرواہ نہیں کرتا تھا کہ میں کس سے بیع کر رہا ہوں، اگر وہ مسلمان ہو تو اس کا دین مجھ پر میری امانت لوٹا دے گا اور اگر وہ نصرانی ہوگا تو اس کا سردار مجھ پر لوٹا دے گا لیکن آج میں تم سے صرف فلاں فلاں سے بیع کرتا ہوں (4) ۔ حدیث میں الوکت کا لفظ ہے اس کا مطلب ہے تھوڑا سا اثر، کچی کھجور میں جب پکنے کا تھوڑا سا نشان لگتا ہے تو عرب کہتے ہیں قدوکت فھو مرکت۔ اور المجل۔ اس سے مراد چھالہ ہے یعنی وہ پانی جو جلد اور گوشت کے درمیان ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس کی تفسیر اپنے اس قول (کجر دحرجتہ) سے فرمائی یعنی تو نے انگارے کو اپنے پاؤں پر گھمایا تو وہ پھول گیا، تو نے اسے ابھرا ہوا دیکھا۔۔۔ یہ احادیث دلالت کرتی ہیں کہ یہ سب کچھ دل میں محسوس ہوتا ہے اس میں یہ سب کچھ کہا جاتا ہے اسی طرح الختم اور الطبع ہے۔ حضرت حذیفہ کی حدیث میں ہے، فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا : دلوں کو نئے نئے فتنے لاحق ہوتے ہیں جیسے چٹائی ہوتی ہے، جس دل میں یہ فتنے راسخ ہوگئے اس میں سیاہ نکتہ پیدا ہوجاتا ہے اور جو دل ان فتنوں کا انکار کرتا ہے اس میں سفید نکتہ پیدا ہوجاتا ہے حتیٰ کہ دو دل ہوجاتے ہیں۔ ایک سفید جو صفا کی طرح ہوتا ہے اس کو کوئی فتنہ نقصان نہیں دے گا جب تک آسمان اور زمین قائم ہوں گی اور دوسرا دل سیاہ جس میں سیاہی ملی ہوتی ہے جیسے کو زہ ہوتا ہے جو ٹیڑھا ہوتا ہے وہ نیکی کو جانتا بھی نہیں وہ کسی برائی کا انکار نہیں کرتا، لیکن جو اس کے دل میں برائی راسخ ہوچکی ہوتی ہے (1) (وہ وہی کرتا ہے) ۔ مسئلہ نمبر 6: دل کو فواد اور صدر سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کذلک لنثبت بہ فؤادک (فرقان :32) اور فرمایا : الم نشرح لک صدرک۔ (الم نشرح) یعنی دونوں جگہ قلبک مراد ہے کبھی قلب سے مراد عقل لیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب (ق :37) یہاں قلب سے مراد عقل ہے۔ اکثر علماء کے نزدیک دل، عقل کا محل ہے۔ مسئلہ نمبر 7: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وعلیٰ سمعھم اس آیت سے کانوں کو آنکھوں پر فضیلت دینے والے نے استدلال کیا ہے، کیونکہ کانوں کو آنکھوں پر مقدم کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قل ارءیتم ان اخذ اللہ سمعکم وابصارکم (الانعام :46) اور فرمایا : وجعل لکم السمع والابصار والافدۃ (النحل :78) فرمایا : کان چھ جہات، نور اور اندھیرے میں ادراک کرتے ہیں جبکہ آنکھ صرف سامنے کی جہت کا ادراک کرتی ہے اور روشنی کے ذریعہ سے اداراک کرتی ہے۔ اکثر متکلمین نے کانوں پر آنکھوں کو فضیلت دینے کا قول کیا ہے کیونکہ کان صرف آوازوں اور کلام کا ادراک کرتے ہیں جبکہ آنکھ جسموں، رنگوں اور تمام ہیعئتوں کا ادراک کرتی ہے۔ جب اس کے تعلقات زیادہ ہیں تو یہ افضل ہوئی اور انہوں نے آنکھ کے ساتھ چھ جہتوں سے ادراک کو جائز قرار دیا ہے۔ مسئلہ نمبر 8: اگر کوئی کہنے والا کہے کہ ابصار تو جمع اور سمع کو مفرد کیوں ذکر فرمایا ؟ اسے کہا جائے گا : سمع کو مفرد ذکر کیا کیونکہ یہ مصدر ہے قلت و کثرت کے لئے واقع ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے : سمعت الشیء اسمعہ سمعاً سماعاً ۔ پس السمع، سمعت کا مصدر ہے اور السمع اس عضو کا اسم بھی ہے جس کے ساتھ سنا جاتا ہے اس کو مصدر نام دیا گیا ہے۔ بعض علماء نے کہا : جب سمع کی اضافت جماعت کی طرف کی جائے تو یہ اس پر دلیل ہوتی ہے اس سے مراد جماعت کے کان ہوتے ہیں۔ جیسا کہ شاعر نے کہا : بھا جیف الحمری فاما عظامھا فبیض واما جلدھا فصلیب یہاں جلد سے مراد جلود ہے۔ مفرد ذکر کیا کیونکہ یہ معلوم ہے کہ جماعت کے لئے ایک جلد نہیں ہوتی۔ اس کی مثل ایک اور شاعر نے کہا : لا تنکر القتل وقد سبینا فی حلقکم عظم وقد شجینا اس شعر میں حلق سے مراد حلوق ہیں۔ اس کی مثل دوسرے شاعر کا قول ہے : کانہ وجہ ترکیین قد غضبا مستھدف نصعان غیر تذبیب اس شعر میں وجہ سے مراد وجھین ہے۔ شاعر نے کہا : وجہ ترکیین کیونکہ معلوم تھا کہ دو شخصوں کے لئے ایک وجد (چہرہ) نہیں ہوتا۔ اس کی مثالیں بہت سی ہیں اور علی اسماعھم بھی پڑھا گیا ہے، اور وعلی مواضع سمعھم کے معنی کا بھی احتمال ہے کیونکہ سمع پر مہر نہیں لگائی جاتی بلکہ سمع کی جگہ مہر لگائی جاتی ہے۔ پس مضاف کو حذف کیا گیا ہے اور مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام رکھا گیا ہے کبھی سمع بمعنی استماع بھی ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے : سمعک حدیثی۔۔۔۔ ای استمعک الی حدیثی یعجبنی۔ مجھے تیرا میری بات کو غور سے سننا اچھا لگتا ہے۔۔۔۔ اسی مفہوم میں ذی الرمہ کا قول ہے جو ایک بیل کی تعریف کرتا ہے جو شکاریوں اور کتوں کی آواز غور سے سنتا ہے۔ وقد تو جس رکزا مقفر ندس بنبأۃ الصوت ما فی سمعہ کذب یعنی اس کے استماع میں کذب نہیں یعنی وہ سچا غور سے سننے والا ہے، الندس کا معنی ہے حاذق، النباۃ خفی آواز کو کہتے ہیں۔ اسی معنی میں الرکز ہے، السمع (سین کے کسرہ اور میم کے سکون کے ساتھ) سے مراد انسان کا اچھائی کے ساتھ ذکر ہے۔ کہا جاتا ہے : ذھب سمعہ فی الناس یعنی لوگوں میں اس کا ذکر پھیل گیا۔ السمع بجو سے بھیڑئیے کے بچے کو بھی کہتے ہیں۔۔۔۔ وعلیٰ سمعھم پر وقف ہے۔ غشاوۃ مبتدا ہے اور اس کا ما قبل خبر ہے۔ فی قلوبھم اور جو اس پر معطوف ہیں ان سب کی ضمیریں اس کے لئے ہیں جو اللہ کے علم میں ہیں کہ کفار قریش میں سے ایمان نہیں لائیں گے۔ بعض نے فرمایا : منافقین کے لئے ہے۔ بعض نے فرمایا : یہود کے لئے ہے۔ بعض نے فرمایا : تمام کفار کے لئے ہے۔ یہ قول زیادہ عام ہے۔ ختم (مہر) دلوں اور کانوں پر ہے اور غشاوۃ آنکھوں پر ہے۔ الغشاء کا معنی ڈھانپنا ہے۔ مسئلہ نمبر 9: اسی سے غاشیۃ السرج ہے۔ غشیت الشیء واغشیتہ۔ نابغہ نے کہا : ھلا سالت بنی ذبیا ما حسبی اذا الدخان تغشی الاشمط البرما تو نے بنی ذبیان سے کیوں نہیں پوچھا جو میرے لئے کافی ہے۔ دھواں ادھیڑ عمر والی قوم کے ساتھ شراب نہ پینے والے پر چھا جاتا ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : صحبتک اذ عینی علیھا غشاوۃ فلما انجلت نفسی الومھا میں نے تیری سنگت اختیار کی جبکہ میری آنکھوں پر پردہ تھا جب پردہ کھلا میں نے اپنے نفس کو ملامت کیا۔ ابن کیسان نے کہا : اگر اس کی جمع بنائی جائے تو یہ غشاوۃ کے حذف کے ساتھ ہوگا۔ فراء نے اس کی جمع غشاوی ذکر کی ہے جیسے اداوی جمع ہے۔ غشاوۃً نصب کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور اس سے پہلے جعل محذوف ہوگا اور یہ اس بات سے ہوگا علفتھا تبناً وماءً بارداً (میں نے اسے چارہ کھلایا اور ٹھنڈا پانی پلایا) ۔ ایک اور شاعر کا قول ہے : یا لیت زوجک قد غدا متقلدسیفا ورمحا کاش ! تیرا خاوند تلوار لٹکائے ہوئے اور نیزہ اٹھائے ہوئے جاتا۔ معنی ہے : اسقی تھا ماء میں نے اسے پانی پلایا، وحاملاً رمحاً ۔ کیونکہ نیزہ گلے میں لٹکایا نہیں جاتا۔ فارسی نے کہا : تو یہ استعمال وسعت واختیار کی حالت میں نہیں پائے گا۔ غشاوہ پر رفع پڑھنا احسن ہے، واو عاطفہ ہوگی جملہ کا جملہ پر عطف ہوگا اور فرمایا : میں نے غشاوہ سے واو کے ساتھ تصرف کرنے والا فعل نہیں سنا۔ بعض مفسرین نے کہا : کانوں اور آنکھوں پر غشاوہ ہے، وقف قلوبھم پر ہے۔ دوسرے مفسرین نے کہا : مہر تمام پر ہے اور غشاوۃٌ کا مطلب بھی ختم (مہر) ہے۔ اس صورت میں وقف غشاوۃ پر ہوگا۔ حسن نے غشاوۃ غین کے ضمہ کے ساتھ، ابو حیوہ نے اسے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، ابو عمرو نے غشوہ پڑھا ہے اس نے اسے مصدر کی اصل کی طرف لوٹایا ابن کیسان نے فرمایا : غشوۃ اور غشوۃ پڑھنا جائز ہے اور بہتر غشاوۃ ہے اسی طرح ہر لفظ کو اسی طرح استعمال کرتے ہیں جو کسی چیز پر مشتمل ہونے پر دلالت کرے جیسے عمامہ، کنانۃ، قلادہ، عصابہ وغیرہ۔ مسئلہ نمبر 10: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولھم یعنی جھٹلانے والے کفار کے لئے عذاب عظیم عذاب عظیم ہے۔ عظیم، عذاب کی صفت ہے۔ عذاب کی کئی صورتیں ہیں : مثلاً کوڑے مارنا، آگ کے ساتھ جلانا، لوہے سے کاٹنا وغیرہ جو بھی انسان کو تکلیف پہنچائے وہ عذاب ہے۔ قرآن میں ہے : ولیشھد عذابھما طائفۃ من المؤمنین۔ (النور) اس کا معنی الجس اور المنع (روکنا) ہے۔ لغت میں کہا جاتا ہے : اعذبہ عن کذا یعنی میں نے اسے روک دیا۔ اسی سے عذوبۃ الماء ہے پانی کے لئے استعمال ہوتا ہے کیونکہ برتن میں پانی کو روکا جاتا ہے تاکہ صاف ہوجائے اور جو دوسرا مواد اس میں ملا ہوا ہے وہ جدا ہوجائے۔ اسی سے حضرت علی ؓ کا قول ہے : اعذبوا نساء کم عن الخروج، یعنی عورتوں کو باہر نکلنے سے روکو۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے، آپ ؓ نے ایک لشکر تیار کیا تو آپ نے فرمایا : اعذبوا عن ذکر النساء (انفسکم) اپنے نفس کو عورتوں کے ذکر سے روکو کیونکہ ان کا ذکر تمہیں جہاد سے محروم کرے گا۔ ہر وہ جسے تو کسی چیز سے روکے تو اس کے لئے اعذیتہ استعمال کرسکتا ہے۔ ضرب المثل میں ہے : لا لجمنک لجاماً معذباً ۔ (میں تمہیں ایسی لگام چڑھاؤں گا جو تجھے لوگوں پر چڑھنے سے روک لے گی ) ۔ کہا جاتا ہے : اعذب یعنی میں جاتا ہوں۔ اعذب غیرہ، غیر کو روکتا ہوں۔ یہ لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے عذاب کو عذاب اسی لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی عذاب دئیے جانے والے کو روک دیتا ہے اور جسم کے مناسب سب خیر والی چیزوں کو اس سے روک لیتا ہے۔ اس کے مخالف چیزیں اس پر ڈالتا ہے۔
Top