Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 63
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے، اور انکے لئے بڑا عذاب (تیار) ہے
وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ : (اور آخرت میں ان کو بڑا عذاب ہونے والا ہے) عذاب کا لفظ نکال کی طرح ہے بناوٹ ومعنی ہر دو لحاظ سے کیونکہ تم کہو گے۔ اعذب عن الشیٔ یعنی جب وہ کسی چیز سے رک جائے جیسا کہتے ہیں نکل عنہ وہ اس سے باز آیا۔ عظیم و کبیر کا فرق : یہ ہے کہ عظیم حقیر کے بالمقابل آتا ہے۔ کبیر صغیر کے مقابل آتا ہے گویا عظیم کبیر سے بڑھ کر ہے جیسا حقیر صغیر سے کمتر ہے۔ یہ دونوں اجسام واحداث کے بارے میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلًا کہو گے رجل عظیم و کبیر۔ مراد یہ ہوگی کہ اس کا جسم بڑا ہے یا رعب بڑا ہے۔ نکرہ لانے کی وجہ : غشاوۃ کو نکرہ لائے کہ ان کی آنکھوں پر ایک قسم کا پردہ ہے یہ وہ پردہ نہیں جس کو لوگ پردہ کہتے ہیں اور ان کے لیے بڑے دکھوں میں سے ایک بڑی قسم سے عذاب دیا جائے گا۔ جس کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ تذکرئہ منافقین : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ : (اور لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان لائے) ۔ ربط : اللہ تعالیٰ نے سورت کو شروع فرمایا۔ ان لوگوں کے تذکرہ سے جو دین میں اخلاص اختیار کرنے والے ہیں۔ اور ان کی زبانیں اور دل حق کی موافقت کرنے والے ہیں پھر دوسرے نمبر پر ان لوگوں کا ذکر کیا جو دل و زبان سے کافر ہیں تیسرے نمبر پر منافقین کا ذکر کیا جو منہ سے ایمان لائے مگر دل ان کے مومن نہیں۔ یہ کفار کی خبیث ترین قسم ہے کیونکہ انہوں نے ایمان کے ساتھ کفر کو تمنا و استہزاء کی بناء پر ملالیا۔ اس لیے ان کے بارے میں سورة نساء کی آیت نمبر 45 1: ان المنٰٰفقین فی الدرک الاسفل من النار۔ اتری۔ قول مجاہد : مجاہد (رح) فرماتے ہیں سورة بقرہ کی شروع کی چار آیات میں ایمان والوں کی تعریف اور دو آیات میں کفار کا تذکرہ اور تیرہ آیات میں منافقین کا تذکرہ ہے ان میں ان کے مکر خبائث۔ حماقت بتلائی اور ان کی جہالت کا پردہ چاک کیا اور مثال کے طور پر ان کی مجنونانہ حرکات ظاہر کیں اور ان کی سرکشی اور اندھے پن پر مہر لگا دی اور ان کو بہرہ گونگا اندھا قرار دیا اور ان کیلئے بدترین مثالیں بیان فرمائیں منافقین کے واقعہ کو اول سے آخر تک کفروا کے واقعہ پر عطف فرمایا۔ جیسا کہ جملہ کا عطف جملہ پر ہوتا ہے۔ الناس کا اصل أناس ہے ہمزہ کو بطور تخفیف کے حذف کرلیا۔ اور ہمزہ کا حذف لام تعریف کی صورت میں لازم کی طرح ہے۔ کیونکہ الا ناس۔ نہیں بولا جاسکتا اور اس کا اصل انسان ” واناسی، انس “ اس پر استشہاد کے لیے کافی ہے۔ انسان کی وجہ ٔ تسمیہ : انسان کو انسان کہنے کی وجہ ان کا ظاہر ہونا اور اس لیے بھی کہ ایک دوسرے سے مانوس ہوتے ہیں۔ یعنی دیکھتے ہیں۔ جبکہ جن کو جن ان کے چھپنے کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ ناسٌ کا وزن فعال ہے، کیونکہ وزن کی بنیاد اصل پر ہوتی ہے یہ اسم جمع ہے لام تعریف اس میں جنس کے لیے آیا ہے۔ مَنْ موصوفہ ہے یَقُوْلُ ۔ اس کی صفت ہے گویا عبارت اس طرح ہے ناس یقولون کذا (لوگوں میں سے بعض لوگ اس طرح کہتے ہیں) وجہ ذکر ایمان باللہ والیوم الآخرۃ : یہاں ایمان باللہ اور یوم آخرت کو انہوں نے خاص طور پر ذکر کیا۔ حالانکہ وہ ایسا وقت ہے جو آکر رہے گا۔ اور وہ ایسا ہمیش ہے جس میں انقطاع نہیں اس کو یوم آخرت اس لیے فرمایا کیونکہ وہ ختم ہونے والے اوقات سے پیچھے آنے والا ہے۔ نمبر 2: نشر کے اس محدود وقت کے بعد ہے۔ جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہوجائیں گے۔ کیونکہ منافقین کو وہم پیدا ہوا کہ انہوں نے ایمان کی دونوں جانبین اول وآخر کا احاطہ کرلیا، اور یہ اس لئے کہ مسائل اعتقادیہ کا مرجع مبدأ ہے اور مبدأ کی حقیقت صانع کا علم اور اس کی صفات واسماء کا معلوم کرنا ہے اور معاد کے اٹھائے جانے کا علم، ، قبور سے اٹھانا، پل صراط، میزان اور آخرت کے دیگر تمام احوال ہیں۔ باء کی وجہ : باء کو دوبارہ لا کر اشارہ کردیا انہوں نے دونوں پر اپنے ایمان کے صحیح اور مستحکم ہونے کا دعویٰ کیا اور یہ اس ارشاد الٰہی کے مطابق ہے۔ وَمَاھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ، (حالانکہ وہ مومن نہیں) گویا باء کو لا کر ان کے دعویٰ کی مکمل تردید کردی) نحو : وَمَاھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ میں فاعل کی حالت کو ذکر کیا نہ کہ فعل کی اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِمیں فعل کی حالت کو ذکر کیا نہ کہ فاعل کی۔ کیونکہ مقصود ان کے دعوے کا انکار ہے اور انتہائی بلیغ ومؤکد انداز سے اس کی نفی ہے کہ ان کا گروہ مؤمنوں کی جماعت سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد المائدہ آیت نمبر : 3 یریدون ان یخرجوا من النار وما ھم بخارجین منھا۔ میں اس طرح ہے۔ اور یہ انداز کلام۔ ” مایخرجون منھا “ کہنے کی نسبت زیادہ بلیغ ہے۔ ایک نکتہ : ایمان کو دوسری آیت میں مطلقاً ذکر کیا۔ جبکہ پہلی میں مقید۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں احتمال ہیں۔ نمبر 1: تقیید مراد لیں اور اس پر دلالت آنے کی وجہ سے تقیید کو چھوڑ دیں۔ نمبر 2ـ: یہ بھی احتمال ہے کہ اصل ایمان کی نفی مراد لیں اور اس کے ضمن میں وہ نفی آجائے جو پہلے مذکور ہوئی ہے۔ ردِ کر امیہ : آیت میں فرقہ کر امیہ (کے باطل عقیدہ) کی تردید ہے کہ ایمان صرف زبانی اقرار کو کہتے ہیں کیونکہ آیت میں منافقین کے ایمان کی نفی کی گئی ہے۔ حالانکہ اقرار تو ان کا موجود تھا۔ یہ آیت اہل سنت کے قول کی تائید کرتی ہے۔ کہ ایمان اقرار زبانی اور تصدیق جنانی کا نام ہے۔ ماجو نفی کی تاکید کے لئے لایا گیا اس کی خبر پر باء داخل ہے تاکہ سامع جب اول کلام سے غافل ہو تو شدت انکار پر اسی سے استدلال کرسکے۔ مَنْ ۔ لفظًا واحد ہے اسی لئے یقول کا فعل واحد لائے اور معنی کا لحاظ کرکے لائے۔ تفسیر یُخٰـدِعُوْنَ اللّٰہَ : (اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دھوکے کا معاملہ کرتے ہیں) نمبر 1: یعنی رسول اللہ ﷺ کو دھوکہ دیتے ہیں اس مضاف کو اسی طرح حذف کردیا جیسا فرمان خدا وندی سورة یوسف آیت نمبر 87 وَسْئَلِ الْقَرْیَۃَ (اے اہل قریہ) ابوعلی وغیرہ نے اسی طرح کہا۔ مطلب یہ ہوا کہ ایسی چیز ظاہر کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ مخادعت کا معنی : ال خداع : نفس کے اندر جو کچھ ہو اس کے الٹ ظاہر کرنا۔ نکتہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ﷺ کے مرتبہ کو معظم و بلند کیا۔ کہ آپ کے دھوکہ دئیے جانے کو اپنا خدا قرار دیا جیسا کہ سورة فتح آیت نمبر 10۔” میں اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَ یْدِیْھِمْ “ حضور ﷺ کے دست اقدس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ قرار دیا۔ نمبر 2: یہ بھی کہا گیا وہ اپنے زعم کے مطابق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ کی ذات ان میں سے ہے۔ جن کو دھوکہ دینا صحیح ہے یہ تمثیل اکثر دو سے زیادہ کے لیے استعمال ہوتی ہے مثلًا تم کہو گے۔ عاقبت اللص۔ میں نے چور کو سزا دی۔ یہ یخدعون بھی پڑھا گیا ہے۔ نحوی تحقیق : نحو : نمبر 1: یہ یقول کا بیان ہے۔ نمبر 2 یا جملہ مستانفہ ہے۔ گویا کہا گیا کہ وہ جھوٹے ایمان کا کیوں دعویٰ کرتے ہیں اس میں ان کا کیا فائدہ ہے۔ جواباً کہا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دھوکہ کرتے ہیں اور اس میں ان کی منفعت یہ ہے۔ کہ کفار کی طرح ان سے لڑائی نہیں کی جاتی۔ اور مؤمنین کے احکامات ان پر لاگو ہیں۔ اور وہ غنائم سے حصہ پاتے ہیں۔ وغیرہ صاحب الوقوف کا قول : صاحب الوقوف نامی کتاب کے مصنف نے کہا کہ ” مؤمنین “ پر وقف لازم ہے کیونکہ وصل کرنے میں تقدیر عبارت یہ بن جائے گی۔ وما ھم بمؤمنین مخادعِین خدا کے وصف کی نفی ہوجائے گی جیسے کہ تم کہو۔ ماھوبرجل کا ذب وہ جھوٹا آدمی نہیں۔ حالانکہ یہاں تو مقصد ان کے ایمان کی نفی اور خدا کا ان کے لیے ثابت کرنا ہے۔ نمبر 2: جنہوں نے یخادعون کو یقول کی خبر سے حال قرار دیا اور یقول کو اس میں عامل قرار دیا تو ان کے مطابق تقدیر عبارت اس طرح ہوگی۔ یقول اٰمنا با للّٰہ مخادعین۔ وہ کہتے ہیں ہم تو اللہ پر ایمان لائے حالانکہ وہ دھوکہ دینے والے ہیں۔ نمبر 3: بمؤمنین : نحو : یہ یقول کی ضمیر سے حال ہے اور اس کا عامل اسم فاعل ہے اس صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی۔ وماھم بمؤمنین فی حال خدا عھم : (وہ اپنے دھوکہ کی حالت میں مومن نہیں ہوسکتے) اس صورت میں مؤمنین پر وقف بھی نہ ہوگا۔ پہلی ترکیب۔ سب سے بہتر ہے۔ ” وَالَّذِیْنَ ٰامَنُوْا “ (اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں) وہ رسول اللہ ﷺ اور مؤمنین کو ایمان ظاہر کرکے اور کفر چھپا کر دھوکہ دیتے ہیں۔ وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ (حالانکہ وہ دھوکہ نہیں دیتے مگر اپنے آپ کو) وہ یہ دھوکہ بازوں کے ساتھ ملا جلامعاملہ اپنی جانوں کے ساتھ کرتے تھے۔ کیونکہ اس کا نقصان انہی کو پہنچے گا۔ اور ان کے دھوکے کا نچوڑ آخرت کا عذاب ہے جو ان کی طرف لوٹ آیا۔ پس گویا انہوں نے اپنے آپ کو دھوکہ دیا۔ ابو عمرو۔ نافع اور ابن کثیر مکی نے۔ مطابقت کے لیے۔ ” مایخادعون “ پڑھا ہے مگر پہلے لوگوں کو عذریہ ہے کہ خدع اور خادع۔ اس جگہ ایک معنی دیتے ہیں (اس لیے اسی طرح پڑہیں گے) ۔ نفس کی مراد : النفس : کسی چیز کی ذات و حقیقت کو کہتے ہیں۔ پھر یہ دل اور روح کے لیے بھی کہا جانے لگا۔ کیونکہ نفس کا قیام انہی دو پر ہے۔ اسی طرح خون کو بھی نفس کہتے ہیں۔ کیونکہ نفس کا قوام خون سے ہے۔ اور پانی کو بھی نفس کہتے ہیں۔ کیونکہ نفس کو اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔” انفس “ سے یہاں مراد انکی ذاتیں ہیں۔ معنی یہ ہوگا۔ اپنی ذاتوں کو دھوکہ دینے کے سبب دھوکہ ان کو چمٹنے والا ہے۔ ان سے آگے تجاوز نہیں کرتا۔
Top