Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 7
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے، اور انکے لئے بڑا عذاب (تیار) ہے
خَتَمَ اللہُ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ : یہ ان کے ایمان قبول نہ کرنے کی وجہ بیان کی گئی ہے چونکہ کفر و معصیت کے مسلسل ارتکاب کی وجہ سے ان کے دلوں کی قبول حق کی استداد ختم ہوچکی ہے ان کے کان بات سننے کے لئے آمادہ نہیں اور ان کی نگاہیں کائنات میں پھیلی ہوئی رب کی نشانیاں دیکھنے سے محروم ہیں، تو اب وہ ایمان کس طرح لاسکتے ہیں ؟ ایمان تو انہیں لوگوں کے حصے میں آتا ہے جو اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتے ہیں۔ قبول حق کی صلاحیت سے محروم کفر پر مرتے ہیں : ایسے لوگ جو قیام دلائل کے باوجود کفر پر اڑے رہتے ہیں، آخر کار علم الہیٰ میں کفر ہی پر مرنے والے ہیں، جو لوگ دلائل حق میں غور نہیں کرتے اور باطل پر جمے رہتے ہیں، ان کے قبول حق کی صلاحیت جو ہر انسان میں فطری طور پر ودیعت کی جاتی ہے روز بروز کمزور ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ بالکل مردہ ہوجاتی ہے، آیت میں اشارہ خاص طور پر یہود مدینہ کی جانب ہے گو اس میں دیگر کافر و مشرک بھی داخل ہوسکتے ہیں یہود مدینہ کا کفر جحود کی قسم کا تھا، یعنی یہ نبی آخر الزمان کی بابت پیشین گوئیوں اور آپ کی علامات سے بخوبی واقف تھے، اس کے باوجود دانستہ اغماض اور اخفاء کرتے تھے، تاکہ اپنی دینی ریاست اور دنیوی سیادت میں فرق نہ آئے۔ ” وَاَمَّا معنی الکفر فاِنَّہ الجحود وذلک انّ الاحبار مِن یھود المدینۃ جحدوا نبوۃ محمد ﷺ وستروہ عن الناس وکتموا امرہٗ “۔ (ابن جریر) عدم قبول کے یقینی ہونے کے باوجود آپ ﷺ کی دعوت و تبلیغ برابر جاری رہنی چاہیے اس لئے کہ آپ کو اس کا اجر مسلسل ملتا رہے گا خواپ وہ ایمان لائیں یا نہ لائیں ایسا نہ ہونا چاہیے کہ آپ ﷺ ان کے ایمان سے مایوس ہو کر ان کو دعوت و تبلیغ کا کام چھوڑیں۔ آج معمولی مبلغ بھی اپنی دھن کے پکے ہوتے ہیں، آپ ﷺ تو مبلغ اعظم تھے، دین الہیٰ کی اشاعت کے لئے آپ کی تڑپ کا کیا کہنا ! آپ کی تو خواہش یہی تھی کہ کافر سب کے سب دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں ان بدبختوں کے حق میں آپ کی خواہش کے بار آور نہ ہونے کی صورت میں آپ کے رنج و غم کو کم کرنے کے لئے آپ کو یہاں یہ بات بتلا دی گئی ہے کہ یہ بدبخت اپنی صلاحیت حق شناسی ضائع کرچکے ہیں آپ کچھ بھی کرلیں یہ حق کو قبول کرنے والے نہیں ہیں، لیکن آپ کا اجر تبلیغ بہرحال ثابت ہے : ” فَلاَ تِذْھَبْ نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرَاتٍ ۔ فمن استجابَ لَکَ فلہ الحظ الاوفر وَمَنْ تولیّٰ فَلا تحزن عَلَیْھِمْ “ (ابن کثیر) سوال : جب اللہ تعالیی کے علم ازلی میں ان کا ایمان نہ لانا متعین ہے جس کے مطابق حق تعالیٰ نے : ” لَایُؤْمِنُوْنَ “ کہہ کر خبر بھی دیدی، تو یہ لوگ ایمان لا بھی کیسے سکتے ہیں ؟ اس لئے کہ علم خداوندی کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ جواب : لَایُؤْمِنُوْنَ ، ایک خبر ہے جو خبیر مطلق اپنے بندے کو دے رہا ہے، ایک اطلاع ہے، جو علیم کل اپنے رسول کو پہنچا رہا ہے، خدا کی مرضی کا اس سے کوئی تعلق نہیں، علم اور مرضی کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے بعض لوگ ان میں فرق و امتیاز نہ کرنے کی وجہ سے خلجان میں پڑجاتے ہیں، طبیب حاذق اپنے علم کی روشنی میں مدتوں پہلے خبردیدیتا ہے کہ فلاں بد پرہیز خود رائے مریض اچھا نہ ہوگا، کیا اس پیش خبری میں اس شفیق طبیب کی خواہش ومرضی کو بھی کچھ دخل ہوتا ہے ؟ یہ امر واقعہ ہے کہ خبر واقعہ کے مطابق ہوتی ہے نہ کہ واقعہ خبر کے مطابق دار العلوم کی مسجد رشید کی خوبصورتی کی خبر اس کے خوبصورت ہونے کی وجہ سے ہے نہ کہ مخبر کی خبر کی وجہ سے مسجد کی خوبصورتی، حضرت تھانوی (رح) تعالیٰ نے فرمایا : اس کافر کا ناقابل ایمان ہونا اللہ کے اس خبر دینے کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ خود اللہ تعالیٰ کا یہ خبر دینا اس کافر کے ناقابل ایمان ہونے کی وجہ سے واقع ہوا ہے اور ناقابل ایمان ہونے کی صفت خود اس کی شرارت وعناد و مخالفت حق کے سبب سے پیدا ہوئی ہے، اللہ نے ہر شخص میں اس کی پیدائش کے وقت قبول حق کی استعداد رکھی ہے، جیسا کہ حدیث ” کل مولود یولد علی الفطرۃ الخ “ میں فرمایا گیا، مگر یہ شخص خود اپنی ہوائے نفسانی اور قوت ارادی سے غلط کام لے کر حق کی مخالفت کرتا ہے یہاں تک کہ ایک روز قبولیتِ حق کی صلاحیت فنا ہوجاتی ہے۔ (حذف واضافہ کے ساتھ تفسیر ماجدی) فائدہ عظمیہ : مذکورہ آیات نے تمام اقوام عالم بلکہ نوع انسانی کو ہدایت کے قبول یا انکار کے معیار سے دو حصوں میں تقسیم کردیا ایک ہدایت یافتہ جن کو مومنین اور متقین کہا جاتا ہے، دوسرے ہدایت سے انحراف اور انکار کرنے والے جن کو کافر یا منافق کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم کی اس تعلیم سے ایک اصولی مسئلہ بھی نکل آیا کہ اقوام عالم کے حصوں یا گروہوں میں ایسی تقسیم جو اصول پر اثر انداز ہوسکے، وہ صرف اصول اور نظریات ہی کے اعتبار سے ہوسکتی ہے نسب، وطن، زبان، رنگ اور جغرافیائی حالات ایسی چیزیں نہیں کہ جن کے اختلاف سے قوموں کے ٹکڑے کئے جاسکیں واضح فیصلہ ہے : ” خَلَقَکَمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ“ یعنی اللہ نے تم سب کو پیدا کیا پھر کچھ لوگ تم میں مومن اور کچھ کافر ہوگئے۔ اس بات کی نا مقبولیت کسی زیادہ غور و فکر کی محتاج نہیں کہ ایک ماں باپ کی اولاد محض رنگ کے مختلف ہوجانے، یا الگ الگ خطوں میں بس جانے یا مختلف زبانیں بولنے کی وجہ سے الگ قومیں کیسے ہوسکتی ہیں ؟ بعض اوقات ایک ہی والدین کی اولاد میں بین تفاوت ہوتا ہے کوئی کالا ہوتا ہے کوئی گورا ہوتا ہے کوئی خوبصورت تو کوئی خوبصورتی سے محروم ہوتا ہے کوئی ذہین ہوتا ہے تو کوئی غبی ہوتا ہے، ان وصاف کے اختلاف کی وجہ سے کیا وہ آپس میں بھائی نہیں رہتے ؟ آج انسانیت کی ہمدردی کے ٹھیکے داروں نے خدا کی مخلوق اور آدم کی اولاد کو مختلف عنوانوں کے تحت مختلف گروہوں اور طبقوں میں تقسیم کردیا ہے، جب کہ تقسیم صرف نیکی اور بدی کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
Top