Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 7
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
مہر کردی اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر11 اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے
11 ۔ یہ جملہ معللہ ہے اور ماقبل کی علت اور اس کا سبب بیان کر رہا ہے۔ اعلم انہ تعالیٰ لما بین فی الایۃ انھم لا یومنون اخبر فی ھذہ الایۃ باالسبب الذی لاجلہ لم یومنوا وھو الختم (تفسیر کبیر ص 270 ج 1) خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ استیناف تعلیلی لما سبق من الحکم (ابو السعود ص 288 ج 1 اشارۃ الی برھان لمی للحکم السابق (روح المعانی ص 131 ج 1) یعنی پیغمبر خدا ﷺ کے انذار کے باوجود ایمان نہیں لائیں گے۔ کیونکہ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگ چکی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑچکا ہے۔ قبول حق کی تمام راہیں ان پر بند ہوچکی ہیں اس لیے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اور اس دولت سے ہمیشہ کے لیے محروم رہیں گے۔ اب یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہی نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اور اس طرح ان پر قبول ہدایت کی تمام راہیں روک دیں تو پھر اگر وہ ایمان نہیں لائے اور کفر پر مرگئے تو انہیں سزا کس قصور پر دی جائے گی ؟ کیونکہ مہر خداوندی کی وجہ سے وہ کفر پر مرنے پر مجبور تھے۔ لہذا یہ بات عدل و انصاف کے منافی ہے کہ ایسے لوگوں کو سزا دی جائے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے، وہ کسی کو بلا قصور سزا نہیں دیتا اس آیت میں ان کافروں کا جو انجام بیان کیا گیا ہے وہ خود ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا۔ دیکھنے سننے کے لیے اسے آنکھیں اور کان دئیے غور وفکر اور سوچ بچار کیلئے اسے دل و دماغ اور عقل و شعور کی دولت سے مالا مال فرمایا۔ ارشاد ہے۔ وَاللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا ۙ وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ( سورة نحل رکوع 11) پھر آفاق وانفس کے واضح اور روشن دلائل کے دفتر اس کے سامنے کھول دئیے تاکہ وہ اپنے حواس کے ذریعے ان میں غور وفکر کر کے حق و باطل میں امتیاز کرسکے۔ سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ (حم السجدہ رکوع 6) اور پھر اس پر ہی بس نہیں کی بلکہ سیدھی راہ دکھانے اور عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ حق سمجھانے کے لیے پیغمبر بھی بھیجے جنہوں نے دن رات اللہ کا پیغام انہیں سنایا اور ان کے تمام شبہات دور کر کے اللہ کی حجت ان پر قائم کی۔ رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ( سورة نساء رکوع 23) لیکن اس کے باوجود کہ حق ان پر واضح ہوگیا۔ اور انہوں نے حق کو اچھی طرح پہچان لیا۔ انہوں نے حق کو نہ مانا بلکہ محض ضد وعناد کی وجہ سے کفر و انکار پر ڈٹے رہے۔ نہ آنکھوں سے کام لیا نہ کانوں سے۔ نہ عقل و شعور ہی کو استعمال کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ کفر و انکار ان کے رگ وریشہ میں سرایت کر کے ان کی طبیعت ثانیہ بن گیا۔ ان کے حواس بیکار ہوگئے اور حق کا احساس و شعور ہمیشہ کیلئے ان سے رخصت ہوگیا۔ اور ان پر گمراہی کی ایک ایسی تاریکی اور ظلمت چھا گئی کہ اب وہ اس سے باہر نہیں آسکتے۔ گمراہی کی اس کیفیت کو مہر سے تعبیر کیا گیا ہے تو یہ مہر جو لگی ہے تو وہ قانونِ تکوینی کے تحت اپنے اسباب وعلل کی بنا پر لگی ہے۔ جب کوئی شخص حق کو پہچاننے کے بعد محض ضد وعناد کی وجہ سے اپنے ارادے اور اختیار سے کفر کو ایمان پر ترجیح دیتا ہے تو اس سے ایمان کی توفیق چھین لی جاتی ہے اور اس کے حواس بیکار ہوجاتے ہیں اور وہ جدھر جانا چاہے اسے ادھر ہی کو دھکیل دیا جاتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَآ اَبْصَارُهُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُهُمْ مِّنْ شَيْءٍ اِذْ كَانُوْےَجْـحَدُوْنَ ۙبِاٰيٰتِ اللّٰهِ ( سورة احقاف رکوع 3) اور دوسری جگہ ارشاد ہے۔ وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا ( سورة نساء رکوع 17) اس سے معلوم ہوا کہ ان کے حواس پر مہر کا لگنا، اور سعادتِ ایمان سے ان کی ابدی محرومی، یہ ان کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہیں۔ ان کے جحود و انکار اور ضدوعناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس مہر کی وجہ سے انہیں کفر پر مجبور کیا گیا ہے۔ حضرت شیخ روح اللہ روحہ اسے ' مہرجباریت " سے تعبیر فرمایا کرتے تھے۔ اور عارف رومی (رح) کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔ ایں نہ جبر و معنی جباریست معنی جابریت رازاری ست اب یہاں ایک اور سوال باقی رہ جاتا ہے کہ خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ میں مہر لگانے کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ مہر لگنا ان کے اعمال کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک تمام افعال عباد کا خالق خدا تعالیٰ ہے اور ہر کام کیلئے فاعل مباشر اور سبب کا ہونا ضروری ہے اور کام کو چونکہ تینوں سے نسبت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے مخلوق ہونے کی نسبت، فاعل سے صدور کی اور سبب سے ترتب کی۔ اس لیے فعل کو تینوں کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو قتل و غارت گری کے جرم میں پھانسی دے دی جاتی ہے تو اس پر لوگ مختلف عبارتوں سے رائے زنی کریں گے۔ کوئی کہے گا " اللہ نے اس کا بیڑا غرق کردیا " کوئی کہے گا۔ اس نے خود ہی اپنا خانہ خراب کردیا۔ اور کوئی یوں گویا ہوگا کہ بد اعمالیاں اسے لے ڈوبیں۔ اپنی اپنی جگھ تینوں فقرے صحیح ہیں۔ جس نے اس مجرم کی تباہی کو خدا کی طرف منسوب کیا ہے اس کی ہرگز یہ غرض نہیں اور نہ ہی سامعین نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس کی تباہی کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے اور وہ مجرم بری الذمہ اور بےقصور ہے بلکہ اس کی تباہی کو اللہ کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا ہے کہ وہ خالق الافعال ہے۔ باقی رہی اس کی تباہی تو وہ اس کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح مہر لگانے کو مختلف نسبتوں کی وجہ سے مختلف ذوات کی طرف منسوب کیا گیا ہے مہر لگنے کا اصل سبب چونکہ ان کے اپنے اعمال تھے اس لیے کبھی اس کیفیت کو ان کے اعمال سے وابستہ کیا گیا۔ كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ (تطفیف) اور کبھی ان معاندین نے اس مہر کی سی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے سب کچھ اپنی ہی طرف منسوب کرلیا۔ وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْٓ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْهِ وَفِيْٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْۢ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ (حم السجدۃ رکوع 1) اور اللہ تعالیٰ چونکہ خالق الافعال، علۃ العلل اور مسبب الاسباب ہے اس لیے اس لحاظ سے مہر لگانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی کی گئی ہے جیسا کہ زیر بحث آیت میں ہے اس لیے مہر لگانے کو اللہ کی طرف منسوب کرنے سے ایمان سے ان کی محرومی، کفر پر موت اور ابدی عذاب کی ذمہ داری اللہ پر عائد نہیں ہوتی یہ سب کچھ ان کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے اور ان کا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ تیسری جماعت (منافقین) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ظاہری طور پر اسلام تو قبول کرلیا مگر باطن میں کافر ہی رہے۔ ان لوگوں نے زبان سے تو اسلام کا اقرار کیا۔ مگر دل سے انکار کیا۔
Top