Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 26
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ١٘ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ١ؕ بِیَدِكَ الْخَیْرُ١ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
قُلِ : آپ کہیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ مٰلِكَ : مالک الْمُلْكِ : ملک تُؤْتِي : تو دے الْمُلْكَ : ملک مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتَنْزِعُ : اور چھین لے الْمُلْكَ : ملک مِمَّنْ : جس سے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُعِزُّ : اور عزت دے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُذِلُّ : اور ذلیل کردے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے بِيَدِكَ : تیرے ہاتھ میں الْخَيْرُ : تمام بھلائی اِنَّكَ : بیشک تو عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
اور کہیے کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخش دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے (اور) بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے
26۔ (قل ۔۔۔۔۔۔ الملک اے محمد ! ﷺ کہہ دیں کہ اے اللہ ! جو مالک الملک ہے) قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بتلایا گیا کہ جب آپ ﷺ نے اپنے رب سے روم وفارس کی فتح اپنی امت کے لیے مانگی تو اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں ۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت انس بن مالک ؓ نے فرمایا کہ جب آپ ﷺ نے مکہ فتح کرلیا اور آپ نے اپنی امت کے لیے فارس اور روم کی حکومت کا وعدہ فرمایا تو منافق اور یہودی کہنے لگے ، ارے ارے کہاں محمد اور کہاں فارس اور روم کی حکومتیں ، وہ ان سے بہت زیادہ طاقت ور اور مضبوط ہیں ، کیا محمد کے لیے مکہ اور مدینہ کافی نہیں کہ فارس اور روم کی حکومت کے لیے طمع کرنے لگے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی ۔ (قل اللہم کی تحقیق) (آیت)” قل اللھم “۔ بعض نے کہا کہ اس کا معنی ہے ” یا اللہ “ حرف ندا (یا) کو حذف کرکے آخر میں میم لگا دیا ، بعض نے کہا کہ یہاں معنی میم ہے ۔ بعض نے کہا کہ یہ ” اللھم “ اصل میں ” یا اللہ امنا بخیر “ اے اللہ ہماری خیر کا ارادہ کر ، حرف نداء کو حذف کیا گیا ، یہ اس طرف ہوگیا ” ھلم الینا “۔ گویا کہ اس کا اصل ” ھل ام الینا “ کلام میں ہمزہ کو تخفیفا حذف کیا جاتا ہے اور میم مشدد کو لفظ اللہ سے ملا دیا ، ” مالک الملک “ اصل میں یا ” مالک الملک “ تھا مطلب یہ ہے کہ بندوں کا مالک اور جس چیز کے بندے مالک ہیں ان کا بھی مالک ، بعض نے کہا کہ اے زمین و آسمان کے مالک ! اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ بعض کتب میں اسی طرح ارشاد فرمایا ” انا اللہ ملک الملوک ومالک الملوک قلوب الملوک ونواصیھم بیدی “ میں اللہ بادشاہوں کا بادشاہ ، بادشاہوں کے دلوں کا مالک اور ان کی پیشانیوں کا مالک اگر بندے میری فرمانبرداری کرتے ہیں تو میں ان پر رحمت بھیجتا ہوں اور اگر میں نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کو سزا دیتا ہوں لہذا تم بادشاہوں کو برا بھلا نہ کہو بلکہ میری طرف رجوع کرو میں ان بادشاہوں کو تمہاری طرف پھیر دوں گا (تؤتی الملک من تشاء تو دیتا ہے بادشاہت جس کو چاہتا ہے) مجاہد (رح) اور سعید بن جبیر ؓ نے کہا کہ ملک سے مراد نبوت ہے ۔ کلبی (رح) نے کہا (آیت) ” توتی الملک من تشاء “۔ سے مراد محمد ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں (آیت)” وتنزع الملک ممن تشائ “۔ اور چھین لیتا ہے بادشاہت جس سے چاہتا ہے اس سے مراد ابو جہل اور قریش کے بڑے بڑے سردار ۔ بعض نے کہا کہ (آیت) ” توتی الملک من تشاء “۔ سے مراد عرب ہے اور (آیت)” تنزع الملک ممن تشائ “ سے مراد روم وفارس ہیں ۔ امام سدی (رح) نے کہا کہ (آیت) ” توتی الملک من تشاء “۔ سے مراد انبیاء کرام (علیہم السلام) کی ملک اور بندوں کا ان کی اطاعت کرنا ہے اور (آیت) ” وتنزع الملک ممن تشائ “ سے مراد جبارین ہیں اور بندوں کو ان کی اطاعت سے روکا گیا ، بعض نے کہا کہ (آیت) ” توتی الملک من تشاء “۔ سے مراد آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد ہے اور (آیت)” وتنزع الملک ممن تشائ “ سے مراد ابلیس اور اس کا لشکر ہے اور جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے) (وتعزمن تشاء وتذک من تشاء کی تفسیر) عطاء (رح) فرماتے ہیں کہ (آیت) ” تعز من تشاء “۔ سے مراد مہاجرین اور انصار ہیں ۔ (آیت) ” وتذل من تشاء “ سے مراد فارس اور روم ہیں اور بعض نے کہا کہ (آیت) ” تعز من تشاء “۔ سے مراد محمد ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں کہ یہ مکہ میں دس ہزار کی تعداد میں داخل ہوئے (آیت) ” وتذل من تشاء “۔ سے مراد ابوجہل اور اس کے کارندے ہیں جن کو بدر کے مقام پر گھسٹ کر گڑے میں ڈالا گیا تھا ۔ بعض حضرات نے کہا کہ (آیت) ” تعز من تشاء “۔ سے مراد ایمان و ہدایت ہے اور (آیت) ” وتذل من تشاء “۔ سے مراد کفر اور گمراہی ہے بعض نے کہا (آیت) ” تعز من تشاء “۔ سے مراد نیکی اور (آیت) ” تذل من تشاء “۔ سے مراد برائی ہے۔ بعض نے کہا کہ (آیت) ” تعز من تشاء “۔ سے مر اد نصرت ہے اور (آیت) ” تذل من تشاء “۔ سے مراد عذاب ہے۔ بعض نے کہا کہ (آیت) ” تعز من تشاء “۔ سے مراد مال دار ہونا اور اور (آیت) ” وتذل من تشاء “۔ سے مراد فقروفاقہ ہے، بعض نے کہا کہ (آیت) ” تعز من تشاء “۔ سے مراد قناعت اور رضا ہے اور (آیت) ” تذل من تشاء “۔ سے مراد حرص اور طمع ہے (بیدک الخیر تیرے ہی ہاتھ میں بھلائی ہے) اصل عبارت اس طرح تھی ” بیدک الخیر والشر “ کیونکہ خیر اور شر دونوں اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں ۔ یہاں صرف ” خیر “ کو ذکر کر کے اسی پر اکتفاء کیا ، یہ ایسے ہی ہے جیسے ” وسرابیل تقیکم الحر “ اصل میں ” الحر اور والبرد “ تھا یہاں صرف ” حر “ کو ذکر کیا اور برد کو اسی پر اکتفاء کیا (بانک علی کل شیء قدیر بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے)
Top