Tafseer-e-Baghwi - Al-Fath : 21
وَّ اُخْرٰى لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهَا قَدْ اَحَاطَ اللّٰهُ بِهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرًا
وَّاُخْرٰى : اور ایک اور (فتح) لَمْ تَقْدِرُوْا : تم نے قابو نہیں پایا عَلَيْهَا : اس پر قَدْ اَحَاطَ اللّٰهُ : گھیر رکھا ہے اللہ نے بِهَا ۭ : اس کو وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر قَدِيْرًا : قدرت رکھنے والا
خدا نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا ہے کہ تم ان کو حاصل کرو گے تو اس نے غنیمت کی تمہارے لئے جلدی فرمائی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دئیے غرض یہ تھی کہ یہ مومنوں کے لئے (خدا کی) قدرت کا نمونہ ہے اور وہ تم کو سیدھے راستے پر چلائے
20 ۔” وعدکم اللہ مغانم کثیرۃ تاخذونھا “ اور یہ وہ فتوحات ہیں جو ان کو قیامت کے دن تک دی جائیں گی۔ ” فعجل لکم ھذہ “ یعنی خیبر۔ ” وکف ایدی الناس عنکم “ اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جب ارادہ کیا اور خیبر والوں کا محاصرہ کیا تو بنواسد اور غطفان کے قبائل نے ارادہ کیا کہ وہ مسلمانوں کے عیال اور اولاد پر مدینہ میں غارت گری کریں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال کر ان کے ہاتھوں کو روک دیا اور کہا گیا ہے کہ ” کف ایدی الناس عنکم، یعنی اہل مکہ کے ہاتھوں کو صلح کے ذریعے روک دیا۔ ” ولتکون “ ان کو روکنا اور تمہاری سلامتی ” آیۃ للمومنین “ آپ کی سچائی پر اور وہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کی موجودگی اور عدم موجودگی ان کی حفاظت وچوکیداری کا متولی ہے۔ ” ویھدیکم صراط مستقیما “ تمہیں اسلام پر ثابت قدم رکھے اور تمہیں صلح حدیبیہ اور فتح خیبر کی وجہ سے بصیرت اور یقین زیادہ کریں۔ رسول اللہ ﷺ جب حدیبیہ سے لوٹے تو ذی الحجہ کے بقیہ ایام اور محرم کا کچھ حصہ مدینہ میں قیام کیا۔ پھر محرم کیا خیر حصہ میں 7 ہجری میں خیبر کی طرف نکلے۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب ہمارے ساتھ کسی قوم سے جہاد کرتے تو ان پر صبح تک حملہ نہ کرتے تھے اور ان کی طرف دیکھتے تھے۔ پس اگر اذان سنتے تو ان سے رک جاتے اور اگر اذان نہ سنتے تو ان پر حملہ کردیتے۔ فرماتے ہیں پھر ہم خیبر کی طرف نکلے تو ہم رات کو ان کے پاس پہنچے۔ پھر جب صبح ہوئی اور آپ (علیہ السلام) نے اذان نہیں سنی تو سوار ہوئے اور میں ابو طلحہ ؓ کے پیچھے سوار ہوا اور بیشک میرے پائو نبی کریم ﷺ کے قدم مبارک کو چھو رہے تھے۔ فرماتے ہیں پس وہ خیبر والے ہماری طرف اپنے اوزار وغیرہ لے کر نکلے جب انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگے محمد اللہ کی قسم ! محمد اور خمیس (لشکر) تو انہوں نے قلعہ میں پناہ حاصل کی جب رسول اللہ ﷺ نے ان کو دیکھا تو کہا اللہ اکبر ! اللہ اکبر ! خیبر برباد ہوگیا۔ بیشک ہم جب کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی بری صبح ہے۔ حضرت علی ؓ کے ہاتھ خیبر کے قلعہ کی فتح کی پیش گوئی ایاس بن سلمہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے بیان کیا کہ ہم خیبر کی طرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو میرے چچا عامر رجزیہ اشعار پڑھنے لگے : ” اللہ کی قسم ! اگر اللہ تعالیٰ نہ ہوتے تو ہم ہدایت نہ حاصل کرسکتے اور نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے اور ہم تیرے فضل سے مستغنی نہیں ہیں۔ پس تو ہمارے قدم جماا، اگر ہماری دشمن سے مڈ بھیڑہو اور ہم پر سکینہ کو نازل فرما، بیشک پہلے لوگوں نے ہم پر ظلم کیا “۔ تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا یہ کون ہے ؟ انہوں نے فرمایا : میں عامر، آپ (علیہ السلام) نے فرمایا تیرا رب تیری مغفرت کرے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب بھی خاص کسی انسان کے لئے استغفار کیا ہے تو وہ شہید ہوا ہے۔ فرماتے ہیں پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے آواز دی اس وقت وہ اپنے اونٹ پر تھے۔ اے اللہ کے نبی آپ نے ہمیں عامر کے ساتھ نفع کیوں نہیں دیا ؟ فرماتے ہیں پھر جب ہم خیبر پہنچے تو ان کا بادشاہ مرحب اپنی تلوار سونتے نکلا اور وہ یہ کہہ رہا تھا : ” خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں، ہتھیاروں سے لیس بہادر جنگجو، جب جنگ سامنے آئے اور شعلے مارے “۔ فرماتے ہیں کہ اس کے سامنے میرے چچا عامر ظاہر ہوئے اور کہا ” تحقیق خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں ، ہتھیارورں سے لیس بہادر موت کی پرواہ نہ کرنے والا “۔ فرماتے ہیں کہ ان دونوں نے تلوار چلائی تو مرحب کی تلوار عامر کی ڈھال میں گھس گئی اور عامر نیچے گرے تو ان کی اپنی تلوار لوٹ کر ان کو لگی اور ان کی رگ اکحل کاٹ ڈالی۔ سلمہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نکلا تو نبی کریم ﷺ کے چند صحابہ ؓ کہہ رہے تھے کہ عامر ؓ کا عمل باطل ہوگیا، انہوں نے خودکشی کی ہے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ کس نے کہا ہے ؟ میں نے عرض کیا آپ (علیہ السلام) کے صحابہ میں سے چند لوگوں نے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا جس نے یہ کہا ہے اس نے جھوٹ کہا بلکہ اس کے لئے اس کا اجردومرتبہ ہے۔ پھر مجھے حضرت علی ؓ کی طرف بھیجا، ان کی آنکھ میں تکلیف تھی تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس سے محبت کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں پھر میں حضرت علی ؓ کے پاس آیا تو میں ان کو راستہ دکھاتا ہوا لایا کیونکہ ان کی آنکھوں میں تکلیف تھی حتیٰ کہ میں ان کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا تو آپ (علیہ السلام) نے لعاب دہن ان کی آنکھوں میں ڈالا، وہ فوراً تندرست ہوگئے اور ان کو جھنڈا دیا اور مرحب نکلا اور کہا : ” خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں، ہتھیاروں سے لیس بہادر تجربہ کار، جب جنگیں سامنے آئیں شعلے مارتی ہوئی “۔ تو حضرت علی ؓ نے فرمایا : ” میں وہ شخص ہوں میرا نام میری ماں نے حیدررکھا، جنگل کے سیر کی طرح رعب دار، میں تم لوگوں کو تلوار کے ساتھ بہت زیادہ قتل کروں گا “۔ فرماتے ہیں پھر مرحب کے سر پر تلوار ماری اور اس کو قتل کردیا۔ پھر حضرت علی ؓ کے ہاتھ پر فتح ہوئی۔ خیبر کی حدیث سہل بن سعد، انس اور ابی ہریرہ ؓ نے بھی روایت کی ہے۔ اس سے کچھ باتیں زائد ہیں اور کچھ کم اور اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو سر میں درد ہوا جس کی وجہ سے آپ (علیہ السلام) لوگوں کی طرف نہ نکل سکے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا لیا، پھر کھڑے ہوئے اور زور دار لڑائی کی، پھر لوٹ آئے، پھر حضرت عمر ؓ نے جھنڈا تھاما اور پہلے سے بھی زیادہ شدید لڑائی کی۔ پھر لوگ آئے۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر دی گئی تو فرمایا کہ کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس سے محبت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح دیں گے۔ پھر حضرت علی ؓ کو بلوایا اور جھنڈا ان کو دے دیا اور ان کو فرمایا تو چل اور واپس نہ متوجہ ہو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ آپ ؓ کو فتح دے دیں۔ پس وہ خیبر شہر آئے، پس مرحب نکلا جو قلعہ کا مالک تھا اور اس کے سر پر خود تھا وہ اشعار کہتا آیا، حضرت علی ؓ مقابلہ کے لئے سامنے آئے تو اس کو تلوار ماری جس نے اس کا مضبوط خود چیر دیا اور سر کو چیرتے ہوئے داڑھوں تک پہنچ گئی۔ پھر مرحب کے بعد اس کا بھائی یا سر نکلا شعر پڑھتا ہوا تو اس کے مقابل کے لئے زبیر بن عوام ؓ نکلے تو ان کی والدہ صفیہ بنت عبدالمطلب ؓ کہنے لگیں یارسول اللہ کیا میرا بیٹا قتل کردیا جائے گا ؟ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں بلکہ تیرا بیٹا ان شاء اللہ اس کو قتل کردے گا۔ پھر ان کی مڈبھیڑ ہوئی تو حضرت زبیر ؓ نے اس کو قتل کردیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ ان کے قلعے فتح کرتے رہے اور جنگجو لوگوں کو قتل کرتے رہے اور ان کی اولاد کو قید کرتے اور مال سمیٹتے رہے۔ محمد بن اسحاق (رح) فرماتے ہیں کہ خیبر کا پہلا قلعہ جو فتح کیا گیا حصن ناعم ہے اس کے پاس محمود بن سلمہ ؓ قتل کیے گئے، یہود نے ان پر پتھر پھینکا تھا جس کی وجہ سے ان کو قتل کردیا۔ پھر عموص ابن ابی الحقیق کا قلعہ فتح کیا گیا، وہاں سے لونڈیاں ملیں۔ ان میں سے صفیہ بنت حیی بن اخطب بھی تھیں۔ حضرت بلال ان کو اور ایک دوسری عورت کو لے کر آئے تو ان دونوں کے ساتھ یہود کے مقتولین پر گزر ہوا تو حضرت صفیہ ؓ کے ساتھ والی عورت نے جب ان کی لاشیں دیکھیں تو چیخنے اور چہرے پر تھپڑ مارنے لگی اور اپنے سر پر مٹی ڈالی۔ پس جب رسول اللہ ﷺ نے اس کو دیکھا تو فرمایا اس شیطانہ کو مجھ سے دور کرو اور حضرت صفیہ ؓ کے بارے میں حکم دیا تو ان کو آپ (علیہ السلام) کے پیچھے جگہ دی گئی اور ان پر چادر ڈالی گئی تو مسلمانوں نے پہچان لیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو اپنے لئے چن لیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے جب اس یہود یہ کا یہ حال دیکھا تو حضرت بلال ؓ کو فرمایا کہ اے بلال ! کیا تجھ سے رحمت چھین لی گئی ہے تو دو عورتوں کے ساتھ ان کے مقتول مردوں پر گزر رہا تھا۔ حضرت صفیہ کنانہ ربیع بن ابی الحقیق کی دلہن تھیں، انہوں نے خواب میں دیکھا کہ چاند ان کو گود میں آگیا ہے تو اپنا خواب اپنے خاوند کو سنایا تو اس نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تو حجاز کے بادشاہ محمد ﷺ کی خواہش کرتی ہے۔ پھر ان کے چہرے پر ایسا زور دار تھپڑ مارا کہ اس سے ان کی آنکھ سبز ہوگئی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ ان کے پاس آئے تو اس کا اثر باقی تھا تو آپ (علیہ السلام) نے پوچھا یہ کیا ہوا تو انہوں نے وہ واقعہ سنادیا اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے ان کا خاوند کنانہ بن ربیع لایا گیا، اس کے پاس بنو نضر کا خزانہ تھا۔ آپ (علیہ السلام) نے اس سے پوچھا تو اس نے انکار کردیا کہ مجھے اس کی جگہ کا علم نہیں ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس یہود کا ایک شخص لایا گیا۔ اس نے رسول اللہ ﷺ کو کہا کہ میں نے کنانہ کو دیکھا ہے کہ یہ کھنڈر کا روزانہ چکر لگاتا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے کنانہ کو فرمایا کہ اگر ہم نے اس کو تیرے پاس پایاتو ہم تجھے قتل کردیں گے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اس کھنڈر کو کھودنے کا حکم دیا تو اس سے ان کا کچھ خزانہ مل گیا۔ پھر اس سے باقی کے بارے میں پوچھا تو اس نے دینے سے انکار کردیا تو رسول اللہ ﷺ نے زبیر بن عوام ؓ کو حکم دیا کہ اس کو تکلیف دیں تاکہ جو اس کے پاس ہے یہ وہ بتادے تو زبیر ؓ اس کے سینہ پر گھونسے مارتے رہے حتیٰ کہ وہ مرنے کے قریب ہوگیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کو محمد بن مسلم کے حوالے کردیا۔ انہوں نے اپنے بھائی محمود بن مسلم کے بدلہ اس کی گردن ماری دی۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خیبر کیا تو ہم نے اس کے پاس صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھی، پھر رسول اللہ ﷺ سوار ہوئے اور ابوطلحہ ؓ سوار ہوئے، میں ابو طلحہ ؓ کا ردیف بن گیا۔ پس نبی کریم ﷺ خیبر کی گلیوں میں سواری چلاتے رہے اور میرے گھٹنے اللہ کے نبی ﷺ کی ران کو چھو رہے تھے۔ پھر آپ (علیہ السلام) کی ران سے تہبند کھسک گئی حتیٰ کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ کی اولاد کی سفیدی کو دیکھا ۔ پس جب آپ ﷺ بستی میں داخل ہوئے تو فرمایا اللہ اکبر ! خیبر برباد ہوگیا۔ بیشک ہم جب کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی بری صبح ہوتی ہے۔ یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔ فرماتے ہیں کہ قوم اپنے کاموں کے لئے نکلی تو وہ کہنے لگے محمد ( ﷺ ) ۔ اسی بات کو عبدالعزیز نے کہا ہے اور ہمارے بعض اصحاب نے فرمایا کہ خمیس یعنی لشکر۔ فرماتے ہیں کہ ہمیں مال غنیمت ملا اور قیدی تو حضرت وحید ؓ آئے اور کہا اے اللہ کے نبی ( ﷺ ) ! مجھے قیدیوں میں سے ایک لونڈی دیں۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا تو جا اور ایک لونڈی لے لے تو انہوں نے صفیہ بنت حیی کو لیا تو ایک شخص آپ (علیہ السلام) کی خدمت میں آیا اور کہا اے اللہ کے نبی ! ( ﷺ ) آپ (علیہ السلام) نے وحیہ کو صفیہ بنت حیی دے دی۔ وہ قریظہ و نضیر کی سیدہ ہے وہ تو صرف آپ (علیہ السلام) ہی کے لئے مناسب ہے۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا وحیہ کو اس کے ساتھ بلائو۔ وحیہ ؓ اس کو لائے تو آپ (علیہ السلام) نے جب حضرت صفیہ ؓ کو دیکھا تو فرمایا آپ ؓ اس کے علاوہ کوئی باندی لے لیں۔ فرماتے ہیں کہ پھر نبی کریم ﷺ نے ان کو آزاد کرکے ان سے نکاح کیا تو اس (راوی) کو آپ (علیہ السلام) راستہ میں تھے تو ام سلیم نے ان کو آپ (علیہ السلام) کے لئے تیار کیا اور رات کو ہدیہ کیا تو صبح نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس کے پاس کوئی چیز ہو اس کو لے آئے اور چمڑے کا ایک ٹکڑا بچھایا گیا۔ پس ایک شخص کھجور لایا اور دوسرا گھی۔ راوی فرماتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ انہوں نے ستوکا بھی ذکر کیا۔ پھر انہوں نے حلوہ بنایا۔ پس یہ رسول اللہ ﷺ کا ولیمہ تھا۔ صحیحین میں آیا کہ حضرت عبداللہ بن اوفیٰ نے فرمای : خیبر کے (قیام کے) زمانہ میں ہم سخت بھوک میں مبتلا ہوگئے (کھانے کی بڑی قلت تھی) خیبر کی جنگ کے دن کچھ پالتو گدھے ہمارے ہاتھ لگ گئے، ہم نے انہی کو ذبح کرکے ہانڈیاں چڑھا دیں، ہانڈیوں میں ابال آیا ہی تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے منادی نے ندادی : ” ہانڈی الٹ دو ، گدھوں کا گوشت بالکل نہ کھائو “۔ حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ تقسیم سے پہلے مال غنیمت کو فروخت کرنے اور وضع حمل سے پہلے حاملہ (لونڈی) سے صحت کرنے کی رسول اللہ ﷺ نے ممانعت فرمادی اور فرمایا : کیا دوسرے کی کھیتی کو تم اپنے پانی سے سیراب کرو گے ؟ اور پالتو گدھے کے گوشت اور ہر نوک دار دانت (یعنی کیلوں) والے جانور کے گوشت سے بھی منع فرمادیا۔ (رواہ الدار قطنی) محمد بن عمرو کا بیان ہے بیس یا تیس گدھے ذبح کیے تھے۔ شیخین نے حضرت انس ؓ کی روایت سے اور ابن سعد وابو نعیم نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے اور بعض دوسرے علماء نے حضرت جابر، حضرت ابوسعید اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے ، نیز زہری نے بیان کیا کہ مرحب کی بھتیجی، سلام بن مشکم کی بیوی زینب نے لوگوں سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو بکری کے کس عضو کا گوشت پسند ہے۔ لوگوں نے کہا دست کا۔ زینب نے پوری بکری کا گوشت زہر آلود کرکے بھون کر حضرت صفیہ کے پاس بطور ہدیہ بھیجا اور دست میں زیادہ زہر ملا دیا۔ رسول اللہ ﷺ جب حضرت صفیہ کے پاس تشریف لائے۔ حضرت بشر بن برائہ بن معرور اس وقت حضور ﷺ کے ساتھ تھے۔ حضرت صفیہ نے بھنی ہوئی (پوری) بکری خدمت میں پیش کی۔ حضور ﷺ نے بکری کا دست لے کر کچھ گوشت اس میں سے نوچا (اور منہ میں رکھ کر) گھمایا اور بشر نے ہڈی لے کر اس میں سے گوشت نوچ کر منہ میں لیا۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ بشر نے تو اس کو نگل لیا مگر رسول اللہ ﷺ نے تھوک دیا۔ زہری کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس میں سے ایک ٹکڑا لیا اور حضرت بشر نے بھی ایک لقمہ لیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا ہاتھ کھینچ لو، یہ بکری مجھے اطلاع دے رہی ہے کہ وہ زہر آلود ہے۔ حضرت بشر نے کہا : قسم ہے اس کی جس نے آپ کو عزت بخشی ہے ! میںے بھی اپنے نوالہ میں یہ بات محسوس کی تھی لیکن آپ کے سامنے میں نے کھانے کو منہ سے پھینک دینا پسند نہیں کیا۔ جب آپ نے اپنے منہ کے اندر نوالہ کو ناگوار محسوس نہیں کیا تو میں آپ کی جان سے اپنی جان کو عزیز رکھتا، میں ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ مجھے یہی خیال تھا کہ نوالہ میں خرابی ہونے کے باوجود آپ نے توڑا ہو، ایسا ہو نہیں سکتا۔ حضرت بشر اپنی جگہ سے اٹھنے بھی نہ پائے کہ طیلسان (چادر سبز یازرد) کی طرح آپ کا رنگ ہوگیا اور وفات ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ نے ابو ہند کو بلوا کر اپنے کندھے پر پچھنے (خون بھرے سینگھ) لگوائے۔ رسول اللہ ﷺ تو بچ گئے لیکن یہ دکھ وقت وفات تک رہا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : زہریلی بکری کا جو لقمہ خیبر کے دن میں نے کھایا تھا ، اس کا اثر میں برابر محسوس کرتا رہا (اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ) رسول اللہ ﷺ شہید ہوئے۔ حضور ﷺ نے اس یہودن کو طلب فرمایا اور ارشاد فرمایا : کیا تونے بکری (کے گوشت) زہر آلود کیا تھا ؟ یہودن نے کہا : جی ہاں۔ فرمایا تو نے یہ حرکت کیوں کی ؟ کہنے لگی : میری قوم کی جو درگت آپ نے بنائی، آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میں نے خیال کیا کہ اگر یہ شخص بادشاہ ہے تو میں اس سے نجات پاجائوں گی اور اگر نبی ہے تو اس کو اطلاع مل جائے گی۔ (اس اقرار کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے اس سے درگزر فرمائی۔ عبدالرزاق نے مصنف میں بوساطت معمر، زہری کا قول نقل کیا ہے کہ وہ عورت مسلمان ہوگئی اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو چھوڑ دیا۔ سلیمان تیمی نے اس پر جزم کیا ہے اور روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں کہ اس عورت نے کہا : اور اگر آپ جھوٹے ہیں تو میرے ذریعہ سے لوگوں کو آپ (کی فتنہ انگیزی) سے سکھ مل جائے گا۔ اب مجھ پر ظاہر ہوگیا کہ آپ سچے ہیں، میں آپ کو اور آپ کے پاس جو لوگ موجود ہیں، ان کو گواہ بنائی ہوں کہ میں آپ کے دین پر ہوں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( ﷺ ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ جب وہ مسلمان ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے تعرض نہیں کیا۔
Top