Mualim-ul-Irfan - Hud : 64
وَ یٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِیْبٌ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم هٰذِهٖ : یہ نَاقَةُ اللّٰهِ : اللہ کی اونٹنی لَكُمْ : تمہاے لیے اٰيَةً : نشانی فَذَرُوْهَا : پس اس کو چھوڑ دو تَاْكُلْ : کھائے فِيْٓ : میں اَرْضِ اللّٰهِ : اللہ کی زمین وَلَا تَمَسُّوْهَا : اور اس کو نہ چھوؤ تم بِسُوْٓءٍ : برائی سے فَيَاْخُذَكُمْ : پس تمہیں پکڑ لے گا عَذَابٌ : عذاب قَرِيْبٌ : قریب (بہت جلد)
اور اے میری قوم کے لوگو ! یہ اللہ کی اونٹنی ہے تمہارے لئے ایک خاص نشانی۔ پس چھوڑ دو اس کو کہ کھائے اللہ کی زمین میں اور نہ چھونا اس کو برائی کے ساتھ پس پکڑ لے گا تمہیں عذاب جلد
ربط آیات اللہ تعالیٰ نے مسئلہ توحید کی تفہیم کے لئے اس سورة مبارکہ میں متعدد انبیاء (علیہم السلام) کا تذکرہ کیا ہے۔ پہلے حضرت نوح اور ہود (علیہما السلام) کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے اپنی اپنی قوم کو یہی دعوت دی۔ ” اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ “ اے لوگو ! صرف اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے بغیر تمہارا کوئی معبود نہیں۔ سورة کی ابتداء میں حضور خاتم النبین ﷺ کی زبان مبا کہ سے بھی یہی کلمات دہرائے گئے اور صالح (علیہ السلام) کو تبلیغ کالب لباب بھی یہی تھا کہ لوگو ! عبادت صرف اللہ کی کرو ، اس سے معافی مانگو اور اس کی طرف رجوع رکھو۔ آپ کی قوم نے کہا کہ ہم تو تمہیں بڑا ہونہار سمجھتے تھے کہ تو باپ دادے کا نام روشن کے گا مگر تو نے ہمیں انہی کے دین سے ہٹانا شروع کردیا ہے۔ ہمیں تو تیری بات مشکوک نظر آتی ہے۔ صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے لوگو ! اگر میں کھلے راستے اور واضح دلیل پر ہو اپنے رب کی طرف سے جس نے مجھے خاص مہربانی عطا کی ہے اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو اس کے سامنے میری کون مدد رکے گا ، کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے اگر میں تمہاری بات مان لوں تو سراسر نقصان اٹھائوں گا۔ نشانی کا مطالبہ اکثر انبیاء کی اقوام نے ان سے من مرضی کی نشانی طلب کرنے پر اصرار کیا ہے۔ اکثر مقامات پر ایسا بھی ہوا ہے کہ اللہ نے اپنی نبی سے کہلوایا کہ نشانی پیش کرنا میرا کام نہیں ہے بلکہ اس کا دار و مدار اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت پر ہے۔ وہ جب چاہے کوئی نشانی ظاہر فرما دے۔ مگر بعض اوقات اللہ تعالیٰ مطلوبہ نشانی ظاہر بھی فرما دیتا تھا۔ مکہ والوں نے حضور نبی کریم سے شق القمر کی نشانی طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے چاند کو دو ٹکڑے کردیا۔ ایک ٹکڑا پہاڑ کی ایک طرف چلا گیا اور دوسرا دوسری طرف اس معجزے کو سب لوگوں نے دیکھا پھر بھی ” سحر مستمر “ کہہ کر ٹال دیا اور واضح معجزے کا انکار کردیا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے یہ مطالبہ پیش کیا کہ ہمارے سامنے پہاڑوں میں سے بڑی جسامت والی اونٹنی نکالو جو ہمارے سامنے بچہ جنے اور اس میں فلاں فلاں خصوصیت ہو تو ہم ایمان لے آئیں گے حضرت صالح (علیہ السلام) نے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جسے اللہ نے منظور فرما لیا۔ قوم کے میلے کا دن تھا۔ کھلے میدان میں مشرک کافر اور اہل ایمان ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے ان سب کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ نے چٹان سے اونٹنی کو نکالا پھر اس پر دردزہ جیسی کیفیت طاری ہوئی اور سب کے سامنے اس نے بچہ جنا۔ پھر یہ بچہ بھی بڑا ہوگیا۔ اس اونٹنی کے متعلق اللہ نے بعض پابندیاں بھی عائد کیں جن کا ذکر قرآن پاک کی مختلف سورتوں میں موجود ہیں۔ اس معجز اونٹنی کے متعلق حضرت ابو موسیٰ اشعری نے روایت بیان کی ہے جسے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اپنی تفسیر عزیزی میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے اونٹنی کے بیٹھنے والی جگہ کو پیمائش کیا تھا تو یہ ساٹھ ہاتھ یعنی نوے فٹ ہوئی تھی ۔ مسند احمد کی روایت میں آتا ہے کہ اے لوگو ! اپنے منہ سے نشانیاں اور معجزے نہ طلب کیا کرو ، دیکھو قوم ثمود نے اپنے منہ سے معجزہ طلب کیا تھا اللہ نے ان کا مطالبہ پورا کردیا۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ پابندیوں کی پاسداری نہ کرسکے جس کی وجہ سے اللہ نے ان پر سخت عذاب نازل فرما کر انہیں ہلاک کردیا۔ اونٹنی کے لئے شرائط یہ عجیب و غریب اونٹنی کھلی پھرتی تھی ، اپنی مرضی سے کبھی اس درے میں جاتی کبھی اس درے میں۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ جس کنوئیں یا چشمے سے قوم کے جانور پانی پیتے تھے اللہ نے اس کو اس اونٹنی اور باقی جانوروں کے درمیان تقسیم کردیا۔ ایک دن صرف اونٹنی سارا پانی پی جاتی تھی جب کہ دوسرے دن باقی جانور اس گھاٹ سے سیراب ہوتے تھے۔ سورة قمر میں موجود ہے۔ اللہ نے فرمایا ، اے صالح (علیہ السلام) ! ” نبئھمء ان المآء فسمۃ بینھم کل شرب مختضر ان کو آگاہ کردیں کہ ان میں پانی کی باری مقرر کردی گئی ہے۔ ہر ایک کو اپنی اپنی باری پر آنا چاہئے۔ بہرحال یہ اونٹنی جس کثرت سے پانی پیتی تھی اسی کثرت سے دودھ بھی دیتی تھی جسے تمام لوگ اسعتمال کرتے تھے جس کا جی چاہتا اونٹنی کا ودھ نکال کر پی لیتا۔ آج کے درس میں اسی اونٹنی کی طرف اشارہ ہے ویقوم ھذہ ناقد اللہ صالح (علیہ السلام) نے فرمایا ، اے میری قوم کے لوگو ! یہ اللہ کی اونٹنی ہے۔ اونٹنی کی اللہ کے ساتھ یہ نسبت ایسی ہی ہے جیسی بیت اللہ شریف کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ گھر تو سارے کے سارے اللہ ہی کے ہیں مگر خانہ کعبہ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہاں پر اللہ تعالیٰ کی تجلیات نازل ہوتی رہتی ہے اور وہ اللہ کی عبادت کا اولین مرکز ہے کلمتہ اللہ اور عیسیٰ روح اللہ جیسے کلمات کی اللہ کی طرف نسبت ان کی شرافت کی بناء پر ہے کلمات تو سارے اللہ ہی کے ہیں اور روح اللہ کا لقب دیا گیا ۔ اسی طرح اونٹنیاں تو ساری اللہ ہی کپیدا کردہ ہیں مگر صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ تولید و تناسل کے بغیر معجزانہ طور پر پیدا فرمایا۔ اس لئے اسے ناقۃ اللہ کا لقب دیا گیا۔ فرمایا یہ اللہ کی اونٹنی ہے لکم ایۃ یہ تمہارے لئے ایک خاص نشانی کے طور پر ہے۔ قذروھا پس اس کو چھوڑ دو تاکل فی ارض اللہ تاکہ یہ زمین میں کھاتی رہے۔ یہ جہاں چاہے چرتی پھرے اس کے ساتھ کوئی تعرض نہ کرو ولا تمسوھا بسوآء اور اس کو برائی کے ساتھ مت چھونا یعنی اس کو کوئی گزند نہ پہنچانا۔ اگر ایسا کرو گے فیاخذکم عذاب قریب تو تمہیں اللہ کا عذاب بہت جلدی آ کر پکڑلے گا اور پھر تمہیں مہلت بھی نہیں ملے گی۔ یہ بات جان لینی چاہئے کہ یہ اونٹنی اللہ کی نشانی ہے ، اس کا احترام لازمی ہے اور اس کی توہین موجب سزا ہے۔ شعائر اللہ کی تعظیم اللہ کے تمام شعائر کی تعظیم ضروری ہے۔ سورة حج میں موجود ہے۔ ومن یعظم شعآئر اللہ فانھا من تقویٰ القلوب اور جو کوئی شعائر اللہ کی تعظیم کرتا ہے تو یہ تو دل کے تقوے کی بات ہے یعنی جس کے دل میں خوف خدا ہوگا۔ وہ ضرور اللہ کے شعائر کی تعظیم کریگا۔ اب شعائر اللہ میں بہت سی چیزیں آتی ہیں جن میں بیت اللہ شریف اور ساری مسجدیں ہیں ، صفا ومروہ کی پہاڑویں کو اللہ نے شعائر اللہ کا لقب دیا ہے۔ قرآن پاک ، نماز ، آدان ، حج اور خود نبی کی ذات شعائر اللہ میں داخل ہیں ، ان سب کا احترام ضروری ہے ، جو توہین کرے گا سزا کا مستحق ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی شخص دنیا کی زندگی میں چند روز سزا سے بچا رہیگا مگر شعائر اللہ کی توہین کر کے کوئی شخص اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔ امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ شعائر اللہ کی تعظیم خود اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے برابر ہے کیونکہ شعائر اللہ ہی کے مقرر کردہ ہیں۔ اسی لئے … اللہ نے قوم ثمود کو فرمایا کہ اس اونٹنی کو برئای کے ساتھ مت چھونا ، ورنہ اللہ تعالیٰ کا عذاب تمہیں جلد ہی آ کر پکڑ لے گا۔ اس قوم نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔ سورة الشمس میں ہے ” کذبت ثمود بطغوائھا “ قوم ثمود نے اپنی سرکشی کی بنا پر اپنے پیغمبر (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور پھر شدید عذاب میں مبتلا ہوئے۔ اس واقعہ کی مزید تفصیلات سورة اعراض اور بعض دوسری سورتوں میں بھی موجود ہیں۔ عذاب الٰہی کی آمد اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کے باوجود قوم ثمود نے نافرمانی کی فعقروھا اور اونٹنی کے پائوں کاٹ دیئے اس مقصد کے لئے انہوں نے ایک آدمی مقرر کیا جس نے اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔ یہ لوگ گھات لگا کر ایک درے میں بیٹھ گئے۔ جب اونٹنی پھرتی پھراتی وہاں سے گزری تو غنڈوں نے تلوار چلا کر اس کے پائوں کاٹ دیئے پھر جب وہ زمین پر گر گئی تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کا گوشت تقسیم کرلیا جب اونٹنی زمین پر گئی تو اس کے بچے نے تین چیخیں ماریں اور پھر دوڑ کر اسی پہاڑی کی طرف چلا گیا جہاں سے اونٹنی پیدا ہوئی تھی اور وہیں غائب ہوگیا۔ صالح (علیہ السلام) نے بچے کی کافی تلاش کی مگر وہ نہ ملا۔ اس سانحہ کے بعد فقال اللہ کے نبی نے فرمایا تمتعوا فی دارکم ثلثۃ ایام تین دن تک اپنے گھروں میں فائدہ اٹھا لو زاد المیر اور دوسری تفاسیر میں ذکر ہے کہ صالح (علیہ السلام) نے قوم کو بتلا دیا تھا کہ تمہارا عرصہ حیات صرف تین دن ہے ۔ پہلے دن تمہارے چہرے زرد ہوجائیں گے ، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن سیاہ پڑجائیں گے اور پھر تم ہلاک ہو جائو گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ بدھ کے دن ان کے چہرے زرد ہوئے ، جمعرات کو سرخ اور جمعہ کو سیاہ ہوگئے۔ پھر ہفتہ کے دن علی الصبح ان پر عذاب مسلط ہوا ار وہ ہلاک کردیئے گئے۔ حضور علیہالسلام نے فرمایا کہ اللہ نے ان پر دو عذاب بھیجے اوپر سے چیخ آئی اور نیچے سے زلزلے نے آپکڑا ، فرشتے نے ایسی خوفناک چیخ ماری جس سے لوگوں کے قلب و جگر پھٹ گئے اور وہ ہلاک ہوگئے ، حضور نے فرمایا کہ قوم ثمود کے کافروں میں سے مشرق و مغرب میں کسی کو بھی اللہ نے زندہ نہ چھوڑا۔ فرمایا ، عذاب کے وقت ابورغال نامی ایک شخص بیت اللہ شریف میں ہونے کی وجہ سے بچ گیا مگر جب وہ حرم سے باہر نکلا تو اس پر بھی وہی سزا آئی جو قوم کے دور سے افراد پر آئی تھی۔ عزوہ حنین کے بعد جب حضور ﷺ طائف کی طرف جا رہے تھے تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ اس مقام پر ابورغال ہلاک ہوا تھا اور اس کی نشانی یہ ہے کہ اس کے پاس سونے کی چھڑی تھی جو کہ اس جگہ پر اس کے ساتھ ہی دفن ہے۔ صحابہ نے وہ جگہ اکھاڑی تو وہاں سے چھڑی برآمد ہوگئی۔ بدبخت آدمی قوم ثمود کے جس آدمی نے اونٹنی کے پائوں کاٹے تھے اس کے متعلق حضور ﷺ نے ایک دفعہ حضرت علی سے خطاب فرماتے ہوئے کہا۔ اے علی ! پہلی امتوں کا بدبخت آدمی احمر ثمود نامی تھا۔ یہ سرخ رنگ اور ٹھنگنے قد کا آدمی بڑا بدمعاش تھا جس نے اللہ کی اونٹنی کو ہلاک کیا اور اس امت کا بدبخت آدمی وہ ہوگا جو تمہارے سر کے خون سے تمہاری داڑھی کو رنگین کرے گا۔ یہ عبدالرحمٰن ابن ملجم خارجی تھا ، جس نے حضرت علی کو شہید کیا ، شاہ عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ یہ عجیب اتفاق ہے کہ احمر ثمودی نے بھی ایک عورت کی خاطر اللہ کی اونٹنی کو ہلاک کیا اور اس خارجی نے بھی عورت ہی کی خاطر حضرت علی کو شہید کیا ، آپ خلیفہ علیٰ منہاج النبوۃ تھے اور یہ خلافت راشدہ آپ کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ بہرحال صالح (علیہ السلام) نے قوم کو متنبہ کیا کہ اپنے گھروں میں تین دن تک فائدہ اٹھا لو ، اس کے بعد تم ہلاک ہو جائو گے۔ فرمایا ذلک وعد غیر مکذوب اللہ تعالیٰ کا یہ ایسا وعدہ ہے ، جو جھوٹا نہیں ، بلکہ پورا ہو کر رہیگا اور تم صفحہ ہستی سے ناپید ہو جائو گے۔ اہل ایمان کی نجات فرمایا فلما جآء امرنا پھر جب ہمارا حکم یعنی عذاب آ گیا نجینا صلحاً والذین امنوا معہ ہم نے بچا لیا صالح (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اہل ایمان پر نہ تو چیخ کا کوئی اثر ہوا اور نہ ہی زلزلے نے انہیں تہ وبالا کیا۔ وہ اللہ کے نبی کی ہمراہی میں الگ تھلگ رہے اور اس عذاب سے بچ گئے۔ فرمایا ان کا محفوظ رہنا برحمۃ منا ہماری خاص مہربانی سے ہوا وہ اللہ پر ایمان لائے ، اس کی وحدانیت کو تسلیم کیا اور نبی کی اطاعت کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی رحمت کی اور عذاب سے بچا لیا اور پھر یہی نہیں بلکہ ومن خزی یومئذ اس دن کی رسوائی سے بھی بچ گئے جس دن اللہ نے باقی قوم کو ہلاک کردیا تھا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو قیامت والے دن کی رسوائی سے بھی محفوظ رکھے گا۔ فرمایا ان ربک ھو القوی العزیز بیشک تمہارا پروردگار طاقتور بھی ہے اور غالب بھی وہ جس طرح چاہے کسی قوم کو ہلاک کر دے ، اس کے راستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی ، اس نے کسی قوم کو طوفان کے ذریعے ہلاک کیا ، کسی کو تیز گرم ہوا بھیج کر تباہ کیا اور کسی کو چیخ اور زلزلہ بھیج کرنا بود کردیا۔ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور جو چاہے کر گزرتا ہے۔ ظالموں کی ہلاکت فرمایا اللہ کی وحدانیت کے انکار ار نبی کی مخالفت کا نتیجہ یہ نکلا وہ اخذ الذین ظلموا الصیحۃ اور پکڑ لیا ظلم کرنے والوں کو چیخ نے اوپر سے چیخ آئی اور جیسا کہ دوسری جگہ آتا ہے نیچے سے زلزلہ بھی آیا۔ فاصبحوا فی دیارھم جثمین پس ہوگئے وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ گرنے والے۔ جب زلزلہ آتا ہے تو لوگوں کے پائوں اکھڑ جاتے ہیں اور وہ اوندھے منہ گر پڑتے ہیں۔ قوم ثمود کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اللہ نے فرمایا وہ ایسے ہوگئے کان لم یغنوا فیھا گویا کہ وہ ان بستیوں میں کبھی آباد ہی نہ تھے۔ ان کی تمام بستیاں ویران ہوگئیں اور وہاں کوئی فرد بشر نظر نہیں آتا تھا حالانکہ ان کے علاقے میں ایک ہزار سات 1700 سو قصبات اور شہر آباد تھے۔ یہ ظلم کا نتیجہ تھا ، ظلم و کفر و شرک سر فہرست ہیں۔ نی کی توہین ، شعائر اللہ کی توہین اور جزائے عمل کے انکار کا نتیجہ ان کی تباہی کی صورت میں نکلا۔ ان کے بڑے بڑے محلات تھے جو ویران ہوگئے اور ان میں بسنے والا کوئی متنفس وہاں باقی نہ رہا۔ اللہ نے تمام نافرمانوں کو ہلاک کردیا۔ سامان عبرت اور تنبیہ اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے بعد میں آنے والوں کے لئے باعث عبرت اور تنبیہ بنا دیا ہے۔ فرمایا الا ان ثموداکفروربھم قوم ثمود نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ، اس کی توحید کا انکار کیا اور نبی کی نافرمانی کی الا بعدا لثمود خبردار ! دوری اور ہلاکت ہے قوم ثمود کے لئے۔ بعد کا معنی دوری ہے یعنی وہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوگئے اور بعد کا معنی ہلاکت بھی آتا ہے۔ چناچہ یہ لوگ صفحہ ہستی سے بالکل نابود ہوگئے یہ تو اس دنیا میں عذاب آیا اور آخرت کا مرحلہ ابھی آگے ہے۔ غرضیکہ تنبیہ کی جا رہی ہے کہ جو بھی رب تعالیٰ کے ساتھ کفر کرے گا ، وہ بچ نہیں سکے گا۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہ سزا صرف قوم عاد یا قوم ثمود کے لئے تھی بلکہ ہر نافرمان ایسی ہی سزا میں پکڑا جاسکتا ہے۔ مالک الملک اپنے قانون امہال کے مطابق کسی فرد یا قوم کو مہلت دیتا رہتا ہے مگر جب وہ مہلت پوری ہوجاتی ہے تو اس کی گرفت آجاتی ہے۔
Top