Baseerat-e-Quran - Maryam : 59
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ
فَخَلَفَ : پھر جانشین ہوئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد خَلْفٌ : چند جانشین (ناخلف) اَضَاعُوا : انہوں نے گنوادی الصَّلٰوةَ : نماز وَاتَّبَعُوا : اور پیروی کی الشَّهَوٰتِ : خواہشات فَسَوْفَ : پس عنقریب يَلْقَوْنَ : انہیں ملے گی غَيًّا : گمراہی
پھر ان کے بعد چند ناخلف جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو برباد کیا اور خواہشات نفس کے پیچھے لگ گئے۔ بہت جلد ان کو گمراہی کی سزا ملے گی۔
لغات القرآن آیت نمبر 59 تا 65 خلف قائم مقام ہوا۔ خلف نالائق، ناخلف۔ اضاعوا انہوں نے برباد کیا، ضائع کردیا۔ اتبعوا پیچھے لگ گئے، انہوں نے پیروی کی۔ یلقون وہ ڈالیں گے۔ غی گمراہی۔ عدن ہمیشہ رہنے کی جگہ، ایک بہت کا نام۔ ماتی آنے والا، آنے کی جگہ۔ لغو بےہودہ۔ فضول۔ مانتنزل ہم نہیں اترتے۔ نسی بھول جانا۔ اصطبر ثابت قدم رہو۔ سمی ہم نام، ہم پلہ تشریح : آیت نمبر 59 تا 65 اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء کرام علیھم السلام اور ان کی امتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ ان کے بعد آنے والوں نے نیک لوگوں کا راستہ چھوڑ کر ان کے قائم مقام ہونے کا حق ادا نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی خواہشات نفس اور دنیا کے وقتی فائدوں کے پیچھے چل کر نماز جیسی عبادت کو ضائع کردیا۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کو ان کی گمراہی پر معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے اعمال کے مطابق ان کو سخت سزا دی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز اللہ کی عبادت کا سب سے اہم اور احسن طریقہ ہے جو گزشتہ انبیاء کرام وعلیھم السلام کی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا جو دین اسلام کی بنیادوں کو مضبوط اور مستحکم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ نماز سے امتوں کو مرکزیت ملتی رہی ہے۔ جن لوگوں نے اس فریضہ سے غفلت اختیار کی اس کے آداب کا خیال نہیں رکھا اور اس کو ضائع کردیا ان کو دنیا اور آخرت میں رسوائی اور ذلت نصیب ہوئی اور ان کو اس بدعملی پر سخت سزا دی گئی۔ گزشتہ امتوں کی طرح نبی کریم ﷺ کی امت پر بھی نماز کو فرض کیا گیا ہے اگر نماز جیسی عبادت سے غفلت اور کوتاہی اختیار کی گئی تو گزشتہ قوموں سے ان کا انجام مختلف نہ ہوگا۔ اس لئے نبی کریم ﷺ نے نماز کو سب سے اہم عبادت قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ کفر او اسلام کے درمیان نماز ہی سب سے بڑا فرق ہے۔ نماز کو چھوڑنا یا اس سے غفلت اختیار کرنا امت کے زوال کا سب سے اہم سبب ہے۔ نماز درحقیقت اللہ اور بندہ کے درمیان وہ مضبوط رشتہ ہے جو اس کو اللہ کی رحمتوں سے جوڑے رکھتا ہے۔ جس نے اس رشتہ اور تعلق کو توڑ دیا وہ حق و صداقت سے کٹ کر ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ آپ نے فرمایا جس نے نماز کا اہتمام نہیں کیا اس کے لئے قیامت کے دن نہ تو نور ہوگا۔ نہ اس کے پاس کوئی چھت ہوگی اور نہ اس کی نجات کا کوئی اور ذریعہ ہوگا۔ اس کا حشر فرعون ، ہامان اور (منافق) ابی ابن خلف کے ساتھ ہوگا۔ ۔ خاتم الانبیاء ﷺ نے فرمایا جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے اور بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ دین بغیر نماز کے کچھ بھی نہیں ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے موذن کی آواز سنی اور نماز کے لئے نہیں گیا اس نے سراسر ظلم کیا۔ اس نے کفر اور نفاق کا عمل کیا۔ نماپز ڑھنے کے لئے احادیث میں بہت تاکید آئی ہے لیکن وہ لوگ جو بلا کسی عذر کے مسجدوں کے بجائے ھگروں پر نماز پڑھتے ہیں درحقیقت وہ بھی نماز کا حق ادا نہیں کرتے اور رحمت دوعالم ﷺ نے اس کو انتہائی ناپسند فرمایا ہے۔ ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ چند نوجوانوں سے کہوں کہ بہت سا ایندھن جمع کر کے لائیں اوپ ھر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو بلا کسی عذر کے گھروں پر نماز پڑھتے ہیں اور میں جا کر ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے چھوٹے بچوں اور عورتوں کا خیال نہ ہوتا تو میں عشاء کی نماز میں مشغول ہوتا اور خادموں کو حکم دیتا کہ گھروں پر نماز پڑھنے والوں کو ان کے مال و اسباب سمیت آگ لگا دیں۔ نماز کی اس تاکید کی وجہ سے صحابہ کرام اور بزرگان دین نے فرمایا ہے کہ نمازوں کا اہتمام نہ کرنے والے ین کے بقیہ تمام احکامات کو ضائع کردینے والے ہیں۔ سیدنا عمر فاروق نے اپنے دور حکومت میں اپنے اعمال حکومت کو ایک ہدایت نامہ بھجوایا تھا کہ وہ کس طر حکوت کے کاموں کو سرانجام دیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ تحریر فرمایا کہ ” میرے نزدیک تمہارے سب کاموں سے زیادہ اہم کام نماز ہے تو جو شخص نماز کو ضائع کرتا ہے وہ دور سے تمام احکام دین کو بھی ضائع کرے گا (موطا امام مالک) ایک مرتبہ حضرت حذیفہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز تو پڑھ رہا ہے لیکن رکوع، سجود اور قیام میں کوتاہی کر رہا ہے آپ نے اس سے پوچھا کہ تم کب سے اس طرح نماز پڑھ رہے ہو ؟ اس نے کہا چالیس سال سے حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ اگر تم اس طرح نمازیں پڑھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوجاتے تو یاد رکھو تم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ (کے طریقے کے) خلاف مرتے۔ حضرت حذیفہ کا یہ ارشاد اس حدیث کے مطابق ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص نماز میں اعتدال اختایر نہیں کرتا اس کی نماز نہیں ہوتی اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص رکوع اور دونوں سجدوں کے درمیان یا کھڑے ہونے یا صحیح بیٹھنے کا اہتمام نہیں کرتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (ترمذی) ان ہی ارشادات کی روشنی میں علماء نے فرمایا ہے کہ ” اضاعت صلوٰۃ “ یعنی نماز کو ضائع کرنا یہ ہے کہ نماز کو اس کے وقت سے موخر کر کے پڑھنا۔ (جمہور مفسرین) بغیر کسی شدید عذر کے مسجدوں کے بجائے گھروں پر نماز پڑھنا، کوتاہی کرنا، غفلت برتنا۔ نماز کے آداب و شرائط میں کوتاہی کرنا۔ نماز کے متام ارکان میں تعدیل اور تو ازن قائم نہ رکھنا۔ نمازوں کو چھوڑ کر زندگی کے کاروبار کو اہمیت دینا۔ بے جا خواہشات اور تمناؤں میں الجھ کر نمازوں سے غفلت اختیار کرنا یہ درحقیقت نمازوں کو ضائع کرنا ہے۔ اسی بات کو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ انبیاء کرام اور ان کی امتوں کے بعد آنے والوں نے نالائقی کا ثبوت پیش کیا اور نماز جیسی اہم عبادت کو ضائع کر کے اپنی خواہشات اور شہوات کے پیچھے لگ گئے۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں نے اگر توبہ کر کے ایمان اور عمل صالح کا طریقہ اختیار نہ کیا تو ان کو ” غی “ میں جھونک دیا جائے گا۔ ” غی “ کے معنی خرابی، بربادی اور نقصان کے آتے ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ جہنم کے اندر ” غی “ ایک ایسی وادی کا نام ہے جو بہت گہری اور خون اور پیپ سے بھری ہوئی ہے۔ یعنی ایک ایسی وادی اور گھاٹی کا نام ہے جو بدترین جگہ ہے۔ جہاں نفس پرستوں اور خواہشات کے پیچھے چلنے والوں کو جھونک دیا جائے گا یہ ان کی سخت ترین سزا ہوگی۔ البتہ اگر انہوں نے مرنے سے پہلے توبہ کرلی یعنی ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرلیا تو ان کے پروردگار کا ان سے یہ پکا وعدہ کے کہ اگرچہ انہوں نے جنت کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور اس دنیا میں اس کی راحت و آرام کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن تقویٰ اور پرہیز گاری اور اطاعت و فرماں برداری اختیار کرنے والوں کو ہمیشہ کے لئے ان جنتوں کا وارث ومالک بنا دیا جائے گا۔ وہ جنتیں ایسی ہوں گی کہ جہاں غلط، لغو، فضول اور بےہودہ باتوں کے بجائے ہر طرف پاکیزگی، ستھرائی اور سلامتی ہی سلامتی کی آوازیں صدائیں ہوں گی جہاں صبح و شام ان کی خواہش کے مطابق ہر طرح کی نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ آگے کی آیات میں فرشتوں کی اطاعت و فرماں برداری کے متعلق ارشاد فرمایا گیا ہے۔ فرمایا کہ ایک طرف تو انسان ہے جو نافرمانیوں اور خواہشات نفس کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے پیغام کو بھول کر گناہ کے کاموں میں لگا رہتا ہے۔ اس کے برخلاف فرشتوں کا یہ حال ہے کہ وہ اللہ کے اطاعت گزار اور فرماں بردار ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھاتے۔ ان کو اللہ کا کام دے کر بھیجا جاتا ہے تو وہ اس کو پوری دیانتداری سے اللہ کے بنیوں تک پہنچا دیتے ہیں اور اس میں وہ ذرہ برابر کوتاہی نہیں کرتے۔ وہ اللہ بھی ایسا پروردگار ہے جو موجودہ ، آئندہ اور ماضی کے تمام احوال سے واقف ہے۔ اس کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے وہ حکم دے کر اس کو بھول نہیں جاتا یا جو اس کا وعدہ ہے وہ اس کو بھولتا نہیں ہے۔ بلکہ وہ علیم وبصیر ہے اور اپنے بندوں کے تمام احوال سے اچھی طرح واقف ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ جبرئیل امین روزانہ وحی لے کر آتے تھے۔ وحی الٰہی سے آپ کو جو روحانی سکون اور سرور نصیب ہوتا تھا آپ کی خواہش تھی کہ جبرائیل جتنا بھی آتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ آئیں۔ اس سلسلے میں دوسری روایت یہ ہے کہ کچھ دنوں تک حضرت جبرائیل امین تشریف نہیں لائے تو آپ نے حضرت جبرئیل سے اس کیفیت کو بیان فرمایا اس پر حضرت جبرئیل نے کہا کہ ہم تو اس وقت ہی آتے ہیں جب ہمیں اللہ کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے۔ اپنی مرضی اور خواہش سے نہیں آتے۔ اب وہ اللہ جو علم وبصیر ہے۔ وہ ہر طرح کی کیفیات سے اچھی طرح واقف ہے۔ نہ اس کا جیسا کسی کا نام ہے نہ اس کے جیسا کسی کا حکم ہے۔ لہٰذا ہم تو اللہ کے حکم کے تابع ہیں جیسا حکم دیا جاتا ہے ہم ویسا ہی کرتے ہیں۔ اس مقام پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ شیطان کا کام نافرمانی، تکبر اور غرور ہے جب کہ فرشتوں کا کام مکمل اطاعت و فرماں برداری ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو شیطان کے راستے پر چل کرنا فرمانی کررہے ہیں اور اگر ان کے پاس کچھ مال و دولت آجاتا ہے تو وہ تکبر اور غرور کرنے لگتے ہیں اور دوسری طرف فرشتے ہیں جو اللہ کی اطاعت کرتے ہیں۔ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ نے تمام لوگوں کے سامنے یہ دونوں مثالیں رکھ دی ہیں۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ شیطان کی طرح نافرمان بننا چاہتا ہے یا فرشتوں کی طرح اطاعت گزار اور فرماں بردار۔ دونوں راستوں کا انجام بالکل واضح ہے۔ ہر انسان اپنے اچھے اور برے انجام پر اس دنیا میں غور کرلے کیونکہ آخرت کی زندگی عمل کرنے کی نہیں بلکہ ہر بات کا نتیجہ نکالنے کے لئے ہے۔ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے یہ زندگی اور اس کا عمل اس کھیتی کا موسم ہے لیکن جب کھیتی کو کاٹنے کا موسم آئے گا تو اس وقت انسان کی محنت کا نتیجہ اس کے سامنے ہوگا۔ کھیتی باڑی کرنے کا موسم نہ ہوگا۔ ۔
Top