Maarif-ul-Quran - Maryam : 59
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ
فَخَلَفَ : پھر جانشین ہوئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد خَلْفٌ : چند جانشین (ناخلف) اَضَاعُوا : انہوں نے گنوادی الصَّلٰوةَ : نماز وَاتَّبَعُوا : اور پیروی کی الشَّهَوٰتِ : خواہشات فَسَوْفَ : پس عنقریب يَلْقَوْنَ : انہیں ملے گی غَيًّا : گمراہی
پھر ان کی جگہ آئے ناخلف کھو بیٹھے نماز اور پیچھے پڑگئے مزوں کے سو آگے دیکھ لیں گے گمراہی کو
خلاصہ تفسیر
پھر ان (مذکورین) کے بعد (بعض) ایسے ناخلف پیدا ہوئے جنہوں نے نماز کو برباد کیا (خواہ اعتقاد کہ انکار کیا یا عملاً کہ اس کے ادا کرنے میں یا حقوق و آداب ضروریہ میں کوتاہی کی) اور (نفسانی جائز) خواہشوں کی پیروی کی (جو ضروری طاقت سے غافل کرنے والی تھیں) سو یہ لوگ عنقریب (آخرت میں) خرابی دیکھیں گے (خواہ ابدی ہو یا غیر ابدی) ہاں مگر جس نے (کفر و معصیت سے) توبہ کرلی (اور مطلب کفر سے توبہ کرنے کا یہ ہے کہ) ایمان لے آیا اور (معصیت سے توبہ کرنا یہ ہے کہ) نیک کام کرنے لگا سو یہ لوگ (بلاخرابی دیکھے) جنت میں جاویں گے اور (جزا ملنے کے وقت) ان کا ذرا نقصان نہ کیا جاوے گا (یعنی ہر نیک عمل کی جزا ملے گی یعنی) ان ہمیشہ رہنے کے باغوں میں (جاویں گے) جن کا رحمٰن نے اپنے بندوں سے غائبانہ وعدہ فرمایا ہے (اور) اس کے وعدہ کی ہوئی چیز کو یہ لوگ ضرور پہنچیں گے اس (جنت) میں وہ لوگ کوئی فضول بات نہ سننے پاویں گے (کیونکہ وہاں فضول بات ہی نہ ہوگی) بجز (فرشتوں اور ایک دوسرے کے) سلام (کرنے) کے (اور ظاہر ہے کہ سلام سے بہت ہی خوشی اور راحت ہوتی ہے تو وہ فضول نہیں) اور ان کو کھانا صبح و شام ملا کرے گا (یعنی یہ تو معین طور پر ہوگا اور یوں دوسرے وقت بھی اگر چاہیں گے ملے گا) یہ جنت (جس کا ذکر ہوا) ایسی ہے کہ ہم اپنے بندوں میں سے اس کا مالک ایسے لوگوں کو بناویں گے جو کہ خدا سے ڈرنے والے ہوں (جو مبنیٰ ہے ایمان اور عمل صالح کا)

معارف و مسائل
خَلف، یہ لفظ بسکون لام برے قائم بقام بری اولاد کے لئے اور بفتح لام اچھے قائم مقام اور اچھی اولاد کے لئے استعمال ہوتا ہے (مظہری) مجاہد کا قول ہے کہ یہ واقعہ قرب قیامت میں صلحاء امت کے ختم ہوجانے کے بعد ہوگا کہ نماز کی طرف التفات نہ رہے گا اور فسق و فجور کھلم کھلا ہونے لگے گا۔
نماز بےوقت یا بلا جماعت پڑھنا اضاعت نماز اور گناہ عظیم ہے
اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ ، نماز کے ضائع کرنے سے مراد جمہور مفسرین عبداللہ بن مسعود، نخعی، قاسم، مجاہد، ابراہیم، عمر بن عبدالعزیز وغیرہ کے نزدیک نماز کو اس وقت سے موخر کر کے پڑھنا ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ نماز کے آداب و شرائط میں سے کسی میں کوتاہی کرنا جس میں وقت بھی داخل ہے اضاعت نماز میں شامل ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اضاعت صلوٰۃ سے مراد بےجماعت کے گھر میں نماز پڑھ لینا ہے (قرطبی، بحر محیط)
حضرت فاروق اعظم نے اپنے سب عمال حکومت کو یہ ہدایت نامہ لکھ کر بھیجا تھا
ان اھم امرکم عندی الصلوٰة۔ فمن ضیعھا فھو لما سواھا اضیع (مؤ طاء مالک)
میرے نزدیک تمہارے سب کاموں میں سب سے زیادہ اہم نماز ہے تو جو شخص نماز کو ضائع کرتا ہے وہ دوسرے تمام احکام دین کو بھی اور زیادہ ضائع کرے گا۔
حضرت حذیفہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز کے آداب اور تعدیل ارکان میں کوتاہی کرتا ہے تو اس سے دریافت کیا کہ تم کب سے یہ نماز پڑھتے ہو، اس نے کہا کہ چالیس سال سے، حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ تم نے ایک بھی نماز نہیں پڑھی اور اگر تم اسی طرح نمازیں پڑھتے ہوئے مر گئے تو یاد رکھو کہ فطرت محمد ﷺ کے خلاف مرو گے۔
ترمذی میں حضرت ابو مسعود انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو نماز میں اقامت نہ کرے۔ مراد یہ ہے کہ جو رکوع اور سجدہ میں اور رکوع سے کھڑے ہو کر یا دو سجدوں کے درمیان سیدھا کھڑا ہونا یا سیدھا بیٹھنے کا اہتمام نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص نے وضو اور طہارت میں کوتاہی کی یا نماز کے رکوع سجدے میں یا ان دونوں کے درمیان سیدھا کھڑے ہونے بیٹھنے میں جلد بازی کی اس نے نماز کو ضائع کردیا۔
حضرت حسن نے اضاعت صلوٰة اور اتباع شہوات کے بارے میں فرمایا کہ مسجدوں کو معطل کردیا اور صنعت و تجارت اور لذات و خواہشات میں مبتلا ہوگئے۔
امام قرطبی ان روایات کو نقل کر کے فرماتے ہیں کہ آج اہل علم اور معروف بالصلاح لوگوں میں ایسے آدمی پائے جاتے ہیں جو نماز کے آداب سے غافل، محض نقل و حرکت کرتے ہیں۔ یہ چھٹی ہجری کا حال تھا جس میں ایسے لوگ خال خال پائے جاتے تھے آج یہ صورت حال نمازیوں میں عام ہوگئی، الا ماشاء اللہ۔ نعوذ باللہ من شرور انفسنا واعمالنا
وَاتَّـبَعُوا الشَّهَوٰتِ ، شہوات سے مراد دنیا کی وہ لذتیں ہیں جو انسان کو اللہ کی یاد اور نماز سے غافل کریں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ شاندار مکانوں کی تعمیر اور ایسی شاندار سواریوں کی سواری جس پر لوگوں کی نظریں اٹھیں، اور ایسا لباس جس میں عام لوگوں میں امتیاز کی شان نظر آئے شہوات مذکورہ میں داخل ہیں (قرطبی)
فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا، لفظ غیّ عربی زبان میں رشاد کے بالمقابل ہے ہر بھلائی اور خیر کو رشاد اور ہر برائی اور شر کو غیّ کہا جاتا ہے حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے کہ غیّ جہنم کے ایک غار کا نام ہے جس میں سارے جہنم سے زیادہ طرح طرح کے عذاب جمع ہیں۔
ابن عباس نے فرمایا کہ غیّ جہنم کے ایک غار کا نام ہے جس سے جہنم بھی پناہ مانگتی ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے اس زنا کار کے لئے تیار کیا ہے جو اپنی زنا کاری پر مصر اور عادی ہے اور اس شراب خور کے لئے جو شراب کا عادی ہے اور اس سود خور کے لئے جو سود خوری سے باز نہیں آتا اور ان لوگوں کے لئے جو ماں باپ کی نافرمانی کریں اور جھوٹی شہادت دینے والوں کے لئے اور اس عورت کے لئے جو کسی دوسرے بچہ کو اپنے شوہر کا بچہ بنا دے۔ (قرطبی)
Top