Jawahir-ul-Quran - Maryam : 59
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ
فَخَلَفَ : پھر جانشین ہوئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد خَلْفٌ : چند جانشین (ناخلف) اَضَاعُوا : انہوں نے گنوادی الصَّلٰوةَ : نماز وَاتَّبَعُوا : اور پیروی کی الشَّهَوٰتِ : خواہشات فَسَوْفَ : پس عنقریب يَلْقَوْنَ : انہیں ملے گی غَيًّا : گمراہی
پھر ان کی جگہ آئے ناخلف42 کھو بیٹھے نماز اور پیچھے پڑگئے مزوں کے سو آگے دیکھ لیں گے گمراہی کو
42:۔ یہ سوال مقدر کا جواب ہے سوال یہ ہے کہ جب تمام انبیاء (علیہم السلام) صرف اللہ ہی کو متصرف جان کر پکارتے تھے تو پھر ان کو کیوں متصرف سمجھ کر پکارا گیا۔ تو اس کا جواب دیا گیا کہ ان کے بعد برے لوگوں نے ان کے دین اور توحید کو ضائع کردیا اور اللہ کی پکار کو چھوڑ کر غیر اللہ کو پکارنے لگے یہ حق اور مسئلہ توحید سے باغیوں کی جماعت تھی۔ ” خَلْفٌ“ ناخلف اور برے لوگ۔ الخلف الردی (مفردات) ۔ ان ناخلف لوگوں نے نماز جیسی اہم اور تمام عبادات کی جامع عبادت کو چھوڑ دیا اور نفسانی خواہشات کی پیروی میں منہمک ہوگئے۔ اضاعت صلوۃ سے یا تو ترک نماز مراد ہے یا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے خالص اللہ کی دعا اور پکار کو ضائع کر کے غیر اللہ کو پکارنا شروع کردیا۔ ” فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا “ اس میں تخویف اخروی ہے۔ ” غَیًّا اي ضلٰلا “ یعنی گمراہی لیکن یہاں مضاف محذوف ہے۔ جسے حذف کر کے مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام کردیا گیا۔ ای جزاء الغی قالہ الزجاج (کبیر ج 5 ص 814) یعنی وہ گمراہی کی سزا پائیں گے۔
Top